You are currently viewing آیت الکرسی کا مفہوم
آیت الکرسی کا مفہوم

آیت الکرسی کا مفہوم

 

آیت الکرسی کا مفہوم

آیت الکرسی کا مفہوم
آیت الکرسی کا مفہوم

آیت الکرسی کا مفہوم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ

پیش کردہ:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺکاہنہ نو لاہور پاکستان

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو کہ ہمیشہ سے زندہ اور ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے، اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں اسے نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بلند و بالا اور عظیم ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہماری سیدھے راستے کی جانب رہنمائی فرمائی۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور ٹھوس منہج پر چلنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک بار فرمایا: ( ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو تمہاری یاد کردہ آیتوں میں سے کون سی آیت عظیم ترین ہے؟ ) میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : (ابو منذر ! کیا تم جانتے ہو تمہاری یاد کردہ آیتوں میں سے کون سی آیت عظیم ترین ہے؟)میں نے عرض کیا : ” اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ”
اس پر آپ ﷺ نے میرے سینے پر تھپکی دی اور فرمایا : (ابو منذر! تمہیں علم مبارک ہو ۔)
آیت الکرسی عظیم ترین آیت ہے؛ کیونکہ اس آیت میں اسما و صفات سے متعلق تمام بنیادی باتیں جمع ہیں، اس آیت نے اللہ تعالی کی عظیم قدرت بیان کی ہے۔
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ایمان کی ستر سے کچھ زائد یا ساٹھ سے کچھ زائد شاخیں ہیں، ان میں سے افضل ترین
“لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ”
کا اقرار ہے۔) تو [آیت کے اس حصے کا مطلب یہ ہے کہ ]اللہ سبحانہ و تعالی حق ہے، اس کی بات بھی حق ہے، اس کے وعدے بھی حق ہیں، اس کا دین بھی حق ہے، اس کی کتاب بھی حق ہے، جس کے بارے میں اللہ نے خبر دی وہ بھی حق ہے، اور جس کا حکم دیا وہ بھی حق ہے؛ اللہ تعالی اپنی ذات اور صفات میں بھی حق ہے، اللہ تعالی کی صفات اور خوبیاں بھی کامل ترین ہیں، وہی ہے جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے لیے ہے، ازل سے ابد تک جلال، جمال، اور کمال سے موصوف ہے، اس کا احسان ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے لیے ہے۔
الْحَيُّ الْقَيُّومُ
یعنی وہی ایسی ذات ہے جسے موت آئے گی اور نہ ہی بوسیدگی کا شکار ہو گی، دائمی زندگی اور بقا اسی کے لیے ہے، اس ذات کی ابتدا یا انتہا کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے، اور {اَلْقَيُّومُ } میں اللہ تعالی کی کمال درجے کی استقلالیت، اور قدرت مذکور ہے؛ کیونکہ وہ بذات خود قائم دائم ہے، اور دوسروں کو قائم دائم رکھے ہوئے ہے؛ لہذا اللہ تعالی کے بغیر کسی کا بھی وجود ممکن نہیں؛ گویا کہ ان دونوں ناموں میں کمال کی تمام تر صفات ایک لڑی میں پرو دی گئیں، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ناموں کے ذریعے اللہ سے مدد کا طلب گار اللہ تعالی کے تمام تر اسما اور صفات کے ساتھ مدد طلب کرنے والا بن جاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کثرت کے ساتھ ان دونوں ناموں کے ذریعے دعائیں کرتے تھے، بلکہ جب آپ کو شدید نوعیت کی پریشانی ہوتی تو فرماتے:
يَا حَيُّ يَا قَيُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ
[یا حیی! یا قیوم! میں تیری رحمت کے واسطے سے مدد طلب کرتا ہوں]
اگر کوئی مسلمان غور کرے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کا پروردگار {الْحَيُّ الْقَيُّومُ } ہے، تو اس کا دل مطمئن ہو کر پر سکون ہو جائے گا، اسے تدبیروں کی ضرورت نہ رہے گی، نیز شر اور گناہوں سے بچ جائے گا۔
لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ
[اسے نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگ]مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی بندوں میں پائے جانے والے ہر قسم کے نقص ، کمی، اور عیب سے پاک ہے؛ اس بات کی گواہی پوری کائنات کا نظام ، زندگی کا رواں دواں پہیہ اور مخلوقات کے اسباب معاش سب کے سب دے رہے ہیں۔
لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ
وگرنہ ساری کائنات درہم برہم ہو جائے، کائنات کی روانی تباہ ہو جائے اور نظام کائنات میں خرابیاں میں آ جائیں، فرمان باری تعالی ہے:
لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ/یٰس – 40
نہ تو سورج سے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔
دریاؤں اور سمندروں کا پانی تھم جائے۔
جب آنکھیں سکون پا رہی ہوں، اور تارے غروب ہو چکے ہوں اس وقت کچھ مومنین اپنے بستروں سے اٹھ کر ایسی ذات سے مناجات کرتے ہیں جسے نیند آتی ہے نہ ہی اونگ اور پھر وہ ذات ان کی دعائیں قبول بھی کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (ہمارا پروردگار روزانہ جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جائے تو آسمان دنیا تک نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں، اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے تو میں اسے بخش دوں؟)
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
یعنی آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کی ملکیت ، قدرت اور تخمینے کی رہین منت ہے۔ ہر چیز میں اسی کا فضل، درجہ بندی، حکم اور حکمت کار فرما ہے؛ تمام عظیم ترین افلاک اور عالموں کا وہی خالق، مالک اور معبود بر حق ہے، اس کے سوا کوئی معبود بر حق اور پروردگار نہیں۔
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ
[کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرے؟ الا کہ وہ کسی کو اجازت دے دے] رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (روزِ قیامت میری شفاعت پا کر سعادت مند ترین بننے والا شخص وہ ہو گا جس نے سچے دل یا نفس کے ساتھ
” لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ”
کا اقرار کیا ہو گا)
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ
[جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو ان سے اوجھل ہے اسے بھی جانتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا بھی ادراک نہیں کر سکتے مگر اتنا ہی جتنا وہ خود چاہے۔] لہذا وہی سبحانہ و تعالی سننے والا، دیکھنے والا، جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے، وہ تو سیاہ چیونٹی کے سیاہ چٹان پر اندھیری رات میں رینگنے کو بھی دیکھ رہا ہے، بلکہ چیونٹی کی رگوں اور اعضا تک غذا پہنچانے والے راستوں کو بھی دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ۔۔الانعام – 59
اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں جسے اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ بحر و بر میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو، نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہو۔ سب کتاب مبین میں موجود ہے ۔
اس لیے اللہ تعالی کے علم کا احاطہ کسی مقرب فرشتے ، یا نبی اور رسول کو بھی نہیں ہے؛ تو قیافہ شناس، کاہن اور مستقبل کی معرفت کا دعوی کرنے والے شعبدہ بازوں کو کس طرح علم الہی کا احاطہ ہو سکتا ہے؟! اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ،،النمل – 56
آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی اللہ کے سوا غیب نہیں جانتا۔
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
[اللہ کی کرسی آسمانوں اور زمین سے بھی وسیع ہے]اللہ تعالی کی ذات کس قدر عظیم ہے، وہ بہت بڑا اور بلند و بالا معبود ہے، اس کی قدرت بالکل واضح ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کا علم بھی وسیع، اللہ کی تونگری بھی وسیع، اس کے انعامات، فضل اور سخاوت بھی وسیع، اس کی قوت اور عظمت بھی وسیع، اس کی قدرت بھی وسیع، اس کی حکمت بھی وسیع، اور اسی کی مغفرت و رحمت بھی وسیع ہے۔
تو مسلمان ایسے رب کی بندگی کرتا ہے جس کی عنایتیں بھی ہر چیز سے وسیع ہیں، اللہ کا فضل ہر تمنا خواہ کی چاہت سے بھی وسیع ہے؛ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جب بھی کوئی اللہ تعالی سے دعا مانگے تو کسی بھی دعا کو اللہ تعالی پر بوجھ مت سمجھے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جب بھی تم میں سے کوئی اللہ سے مانگے تو کھل کر مانگے؛ کیونکہ وہ اپنے رب سے مانگ رہا ہے) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: (جب بھی تم اللہ سے مانگو تو جنت الفردوس مانگو؛ کیونکہ وہ بہترین اور اعلی ترین جنت ہے، اس سے اوپر رحمن کا عرش ہے، اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں)
وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا
[یعنی آسمان و زمین کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی]مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی حفاظت میں ہے، اللہ سبحانہ و تعالی ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے، وہی تمام کے تمام مکلف بندوں کی کارکردگی محفوظ فرما رہا ہے، وہ جسے چاہتا ہے شر، تکلیف اور آزمائش سے محفوظ بنا دیتا ہے، اس لیے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک دعا سکھلائی کہ :
اَللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَينِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي
[یا اللہ! میری آگے، پیچھے، دائیں، بائیں اور اوپر سے حفاظت فرما، اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ اپنے نیچے سے اچک لیا جاؤں])
اللہ تعالی یکتا اور تنہا ہی انسان کی حفاظت فرماتا ہے، بشرطیکہ انسان اللہ کی حدود کا خیال کرے، حرام کردہ کاموں سے اجتناب کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُالنساء – 34
پس نیک عورتیں فرماں بردار ہیں، پیٹھ پیچھے حفاظت کرنے والی ہیں، اس لیے کہ اللہ نے انہیں محفوظ رکھا ۔
آیت الکرسی مسلمانوں کے لیے کسی غنیمت سے کم نہیں، یہ اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے، اسے صبح اور شام کے اذکار میں تاکید کے ساتھ پڑھنا چاہیے کہ اس سے اللہ کی حفاظت حاصل ہوتی ہے، اسی آیت الکرسی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس شخص نے ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھی تو اس کے جنت میں داخلے سے رکاوٹ صرف موت ہی ہے) اور اگر آیت الکرسی سوتے وقت پڑھی جائے تو: (اللہ تعالی کی طرف سے تم پر محافظ مقرر کر دیا جائے گا، اور صبح ہونے تک شیطان بھی تمہارے قریب نہیں پھٹکے گا)
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply