- Home
- نایاب طبی کتب
- خلیوں کے اجزاء ا ...


قانون مفرد اعضاء میں امراض کا تعلق جسم کے تین حیاتی خلیوں یعنی اعصابی، عضلاتی اور غدی کے افعال میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے جوڑا جاتا ہے۔ طب قدیم اعضائے رئیسہ (دل، دماغ، جگر) اور گردے، طحال وغیرہ کے افعال اور بیماریوں پر بحث کرتی ہے، جب کہ قانون مفرد اعضاء ان اعضائے رئیسہ کے اندر موجود تین قسم کے حیاتی خلیوں: اعصابی، عضلاتی اور غدی پر بحث کرتا ہے۔ زندگی (حیات) ان تینوں خلیوں کے اندر واقع ہے، لہذا خلیہ کے اندر موجود مختلف نظام کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
خلیوں کے اجزاء اور ان کی ماہیت (فطرت)
اعصابی، عضلاتی، اور غدی خلیوں کے کچھ مشترکہ اجزاء ہیں، جن کی قانون مفرد اعضاء کے مطابق ایک مخصوص ماہیت ہے:
- سائٹو پلازم یا بلغم: یہ خلیہ کا بلغمی مادہ ہے اور اس کی ماہیت اعصابی ہے۔
- مرکزہ (Nucleus): اس میں ڈی این اے ہوتا ہے جو رائبوز شوگر اور فاسفیٹ وغیرہ سے بنا ہوتا ہے۔ اس کی ماہیت بھی اعصابی ہے۔
- خلیہ کی دیواریں: یہ پروٹین سے بنی ہوتی ہیں اور ان کی ماہیت سوداوی ہے۔
- مائیٹوکونڈریا: یہ خلیہ کے لیے حرارت اور ہارمونز پیدا کرتا ہے۔ اس کی ماہیت غدی ہے۔
اعصابی، عضلاتی اور غدی خلیوں کے افعال میں فرق (ساخت کی بنیاد پر)
ان خلیوں کی ساخت میں فرق ان کے مخصوص افعال کو ظاہر کرتا ہے:
- اعصابی خلیہ: اس میں بلغم یا سائٹو پلازم اور مرکزہ کا نظام نہایت فعال ہوتا ہے۔ یہ اعصابی (بلغمی/رطوبتی) افعال سے متعلق ہے، جیسے رطوبت پیدا کرنا اور نظام کو کنٹرول کرنا (اگرچہ افعال کی صریح تفصیلات ان ذرائع میں کم ہیں)۔
- عضلاتی خلیہ: اس کی دیواریں موٹی اور مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ عضلاتی (خشک/سوداوی) افعال سے متعلق ہے، جیسے سکڑاؤ اور حرکت۔
- غدی خلیہ: اس کا ہارمونز اور حرارت پیدا کرنے کا نظام تیز ہوتا ہے۔ یہ غدی (گرم/صفراوی) افعال سے متعلق ہے، جیسے حرارت، ہارمونز اور رطوبات مخصوصہ پیدا کرنا۔
امراض اور خلیوں کے افعال میں بگاڑ
قانون مفرد اعضاء میں امراض کو مفرد اعضاء (جو ان خلیوں سے بنے ہیں) کے افعال میں افراط (زیادتی)، تفریط (کمی) اور ضعف کا نام دیا گیا ہے۔ جسمِ انسانی کی علامات انہی اعضاء کے بگاڑ شدہ افعال کی صورتیں ہیں۔ تشخیص انہی بگاڑوں (تحاریک) کو پہچاننے کا نام ہے جو اعصاب، غدد اور عضلات کے آپسی تعلقات سے تحقیق کی گئی ہیں

۔
مثال کے طور پر، “خشکی سردی کی تحریک” (جس میں عضلاتی اعصابی کیفیت غالب ہوتی ہے) میں خلیہ کا سائز کم ہو جاتا ہے، سائٹو پلازم (بلغم یا رطوبت) کی مقدار کم ہو جاتی ہے، خلیوں میں سکڑاؤ اور خشکی پیدا ہو جاتی ہے۔ تیزابیت/سوداویت بڑھ جاتی ہے۔ اگر یہ سکڑاؤ خلیہ کے عضلاتی حصہ میں ہو تو سیال مادہ یا سائٹو پلازم کم ہونے لگتا ہے، خلیہ میں سختی پیدا ہوتی ہے اور حجم کم ہو جاتا ہے۔ یہی عمل رسولی (ٹیومر) بننے کا آغاز ہے۔ یہ سب خلیہ کے نارمل افعال میں بگاڑ کی صورتیں ہیں جو ایک مخصوص تحریک کے تحت پیدا ہوتی ہیں।

تحریک، تحلیل اور تسکین کے اصول کے مطابق، مفرد عضو (اور اس کے خلیوں) میں تحریک غذا/خلط کی زیادتی اور عمل تکسید کی کمی سے پیدا ہوتی ہے، جس سے خشکی (کاربن ڈائی آکسائیڈ) رکتی ہے اور سکڑاؤ ہوتا ہے۔ تحلیل غذا کی کمی اور عمل تکسید کی زیادتی سے ہوتی ہے، جس سے گرمی (آکسیجن) بڑھتی ہے اور تحلیل ہوتی ہے۔ تسکین غذا اور عمل تکسید دونوں کی کمی سے ہوتی ہے، جس سے گرمی خشکی کم ہو کر سردی غالب آتی ہے اور پانی پیدا ہوتا ہے۔ یہ تمام صورتیں خلیوں کے افعال میں براہ راست تبدیلیوں کو ظاہر

کرتی ہیں۔
قانون مفرد اعضاء کے مطابق، نبض، قارورہ، اور دیگر علامات دیکھ کر ان خلیوں/مفرد اعضاء کے افعال میں ہونے والے بگاڑ اور تحریکات کی تشخیص کی جاتی ہے۔ ہر تحریک کی علامات سر سے پاؤں تک بیان کی گئی ہیں جن کی تطبیق نبض سے کی جاتی ہے۔