میو قوم ،تاریخ فرشتہ اور بلبن۔بصری جائزہ

میو قوم ،تاریخ فرشتہ اور بلبن۔بصری جائزہ

تاریخ فرشتہ میں میواتیوں کا ذکر اور اس کے ماخذات کا ایک تفصیلی جائزہ

از

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

ابتدایہ

تاریخ فرشتہ، جو گلشنِ ابراہیمی کے نام سے بھی معروف ہے، ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی ایک غیر معمولی فارسی تاریخ ہے جسے محمد قاسم ہندو شاہ فرشتہ نے 17ویں صدی کے اوائل میں مکمل کیا۔ یہ ایک جامع اور مفصل تاریخی دستاویز ہے جو 11ویں صدی کے اوائل میں غزنویوں کے دور سے لے کر 17ویں صدی کے ابتدائی سالوں تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے ۔ اس تصنیف کو اس کی وسیع کوریج اور تفصیلی بیانات کے لیے بے حد سراہا جاتا ہے، اور یہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے مؤرخین کے لیے ایک انمول ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ابتدائی یورپی مؤرخین جیسے ایلفنسٹون، الیگزینڈر ڈاؤ، اور جنرل جے بریگز کے لیے ایک اہم حوالہ رہی ہے، جس نے ہندوستان کی مغربی تفہیم کو نمایاں طور پر تشکیل دیا ہے ۔  

اس ر تحریر  کا مقصد صارف کے مخصوص سوالات کا تفصیلی جواب دینا ہے: تاریخ فرشتہ میں میواتیوں کے ذکر کی نشاندہی کرنا، بریگز کے معیاری انگریزی ترجمے سے صفحات کے درست حوالے فراہم کرنا، اور فرشتہ کے استعمال کردہ بنیادی و ثانوی ماخذات کی تفصیل پیش کرنا۔ مزید برآں، یہ ر تحریر  فرشتہ کے میواتیوں سے متعلق بیانات کا ضیاء الدین برنی کے بیانات سے تقابلی تجزیہ پیش کرے گی، جس میں اہم اختلافات اور ان کے تاریخی مضمرات کو اجاگر کیا جائے گا۔

2. تاریخ فرشتہ: ایک تعارف

2.1. مصنف اور تصنیف کا پس منظر

محمد قاسم ہندو شاہ فرشتہ تقریباً 1570 عیسوی میں بحیرہ کیسپیئن کے کنارے استرآباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد، غلام علی ہندو شاہ، ہندوستان کے احمد نگر چلے گئے جہاں فرشتہ نے شہزادہ میران حسین نظام شاہ کے ساتھ فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں، فرشتہ نے بادشاہ مرتضیٰ نظام شاہ کے محافظوں کے کپتان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1587 میں ایک سیاسی بغاوت کے بعد، وہ 1589 میں بیجاپور منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کی خدمت اختیار کی ۔  

بادشاہ ابراہیم عادل شاہ ثانی نے فرشتہ کو ہندوستان کی ایک جامع تاریخ لکھنے کا حکم دیا، جس میں دکن کی سلطنتوں کی تاریخ پر خصوصی زور دیا گیا، کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی تصنیف میں تمام خطوں کو یکساں اہمیت نہیں دی گئی تھی ۔ یہ حکم سرپرست کے ثقافتی رجحانات اور بڑھتے ہوئے علاقائی تاریخی شعور کی عکاسی کرتا ہے ۔ فرشتہ نے اپنی تاریخ جہانگیر کے دور حکومت میں مکمل کی، غالباً 1606 عیسوی میں پیش کی، اور اسے 1626 عیسوی تک کے واقعات کے ساتھ مزید مکمل کیا ۔  

2.2. تاریخ فرشتہ کا دائرہ کار اور اہمیت

تاریخ فرشتہ مسلم ہندوستان کی ایک عمومی تاریخ ہے، جسے ایک مقدمہ، بارہ مقالوں اور ایک خاتمے میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ یہ شاہی خاندانوں کی تاریخ، مذہبی شخصیات اور نظریات، اور جغرافیائی تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے، جو قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے سماجی و سیاسی منظر نامے کا ایک وسیع جائزہ پیش کرتی ہے ۔ دوسرا مقالہ خاص طور پر دہلی سلطنت اور ابتدائی مغل بادشاہوں کا احاطہ کرتا ہے ۔  

فرشتہ کا طریقہ کار ایک منظم انداز پر مبنی تھا، جس میں بنیادی ماخذات، انٹرویوز اور ان کے اپنے مشاہدات کو یکجا کیا گیا تھا۔ انہوں نے تاریخی واقعات کی تصدیق کے لیے تنقیدی تجزیہ اور باہمی حوالوں پر زور دیا، جو اپنے وقت کی تاریخی تحریر میں ایک نیا معیار قائم کرتا ہے ۔  

فرشتہ کا کام مغربی تاریخ نگاری پر گہرا اثر و رسوخ رکھتا ہے، جس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی تصنیف “یورپی فلاسفروں اور مؤرخین جیسے والٹیئر، کانٹ، ہیگل، اور گبن کے لیے ایک بڑا ماخذ” بن گئی ، اور “ابتدائی یورپی مؤرخین جیسے ایلفنسٹون” نے اس پر بہت زیادہ انحصار کیا ۔ الیگزینڈر ڈاؤ کا 1768 کا ترجمہ اور جنرل جے بریگز کا 1829 کا ترجمہ ، اس کے مستند مقام کو مغرب میں مزید مستحکم کرتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ “برطانوی انتظامی مؤرخین جنہوں نے بعد میں ہندوستان پر وسیع پیمانے پر لکھا، انہیں اس تصنیف کے مرکزی کردار (فرشتہ) کے فراہم کردہ تاریخی نقطہ نظر سے رہنمائی ملی” ۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فرشتہ کی روایت اور بیانیہ نے ابتدائی مغربی، خاص طور پر برطانوی، ہندوستان کی تاریخ کی تفہیم کی تشکیل میں براہ راست کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ، اس پر انحصار نے “اورینٹلسٹ علم” اور یہاں تک کہ “تاریخ کی ادوار بندی (ہندو، مسلم اور برطانوی دور میں تقسیم)” کو بھی متاثر کیا ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فرشتہ کا کام، اگرچہ اس کی اپنی اندرونی تعصبات یا حدود ہو سکتی ہیں، غیر ارادی طور پر ہندوستان پر نوآبادیاتی تاریخی بیانیے کی بنیادی ساخت میں معاون ثابت ہوا۔ یہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ تاریخی علم کی وراثت اور ابتدائی تعصبات کے تسلسل کو سمجھنا کتنا ضروری ہے۔  

3. تاریخ فرشتہ میں میواتیوں کا ذکر

3.1. میوات اور میواتی قوم کا تعارف

میوات کا علاقہ دہلی کے جنوب میں واقع ہے، جس میں اراولی پہاڑی سلسلوں کے کئی حصے شامل ہیں ۔ یہ بنیادی طور پر میو کمیونٹی، جسے میواتی بھی کہا جاتا ہے، کی آبادی کا مرکز تھا ۔ فرشتہ میوؤں کو “بہت بہادر، جنگجو، اور محنتی لوگ” قرار دیتے ہیں، جو اپنی اصلیت راجپوت خصوصیات سے جوڑتے ہیں ۔ وہ تاریخی طور پر اپنی “شکاری فطرت” کے لیے مشہور تھے، جس نے ترک، پٹھان، مغل، اور برطانوی حکمرانوں کو دہلی میں نمایاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس “شکاری فطرت” کو بیرونی حکمرانی کے خلاف مستقل مزاحمت کی ایک شکل کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ میوؤں کو ہندوستانی تاریخ میں اپنی آزادی کی مسلسل جدوجہد اور حکمرانوں کی طرف سے انہیں دی جانے والی سزا کے لیے ایک منفرد کمیونٹی کے

طور پر بیان کیا گیا ہے ۔  

3.2. سلطان بلبن کی میواتی مہمات

فرشتہ نے الغ خان (بعد میں سلطان غیاث الدین بلبن) کی میواتیوں کے خلاف متعدد مہمات کا ذکر کیا ہے، جو ان کی متشدد فطرت اور سلطنت کی انہیں زیر کرنے کی کوششوں کو نمایاں کرتی ہیں۔ یہ مہمات میوات کو دہلی سلطنت کے براہ راست کنٹرول میں لانے میں اہم تھیں ۔  

3.2.1. 1247 کی مہم: فرشتہ کا بیان

فرشتہ بیان کرتے ہیں کہ 1247 میں، الغ خان، سلطان ناصر الدین محمود کے وزیر اور ہانسی و ریواڑی کے گورنر کے طور پر، رنتھمبھور اور میوات کے پہاڑوں کی طرف فوج لے کر روانہ ہوئے ۔ انہوں نے “سرکش باشندوں کو سزا دی” اور پھر دہلی واپس آئے۔ اگرچہ فرشتہ اس مہم کی وسیع تفصیلات فراہم نہیں کرتے، لیکن وہ رنتھمبھور اور میوات کے باغی سرداروں پر بلبن کی فتح کی تصدیق کرتے ہیں، جس سے شدید مزاحمت اور بھاری نقصانات کا اندازہ ہوتا ہے ۔  

3.2.2. 1260 کی مہم: فرشتہ کا تفصیلی بیان

فرشتہ بیان کرتے ہیں کہ الغ خان نے بادشاہ کے حکم پر سیوالک کے پہاڑی علاقے اور رنتھمبھور کی طرف فوج کی قیادت کی، جہاں میواتی راجاؤں اور راجپوتوں نے شورش برپا کر رکھی تھی ۔ میواتیوں نے وزیر کی آمد پر پہاڑوں میں مضبوط ٹھکانوں کی طرف پسپائی اختیار کرنے سے پہلے دیہی علاقوں کو لوٹا اور جلایا ۔ بلبن نے ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دی، پھر چار مہینے تک “آگ اور تلوار” سے ان کے علاقے کو تباہ کرتا رہا ۔ مایوسی کے عالم میں، میواتیوں نے پہاڑوں سے محمدیوں پر “شدید اور خوفناک” جوابی حملہ کیا، جس سے محمدیوں کو کافی نقصانات ہوئے اور کئی بہادر افسر مارے گئے ۔ بالآخر، بلبن کے دستوں نے جوابی حملہ کیا، میواتیوں کو بھاری قتل عام کے ساتھ پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا۔ 10,000 سے زیادہ ہندو (میواتی) ہلاک ہوئے، اور 200 سرداروں کو، بہت سے عام سپاہیوں کے ساتھ، قیدی بنا لیا گیا ۔ قیدی سرداروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم دیا گیا، اور ان کے پیروکاروں کو دائمی غلامی میں بھیج دیا گیا ۔  

3.2.3. 1265-66 کی مہم: فرشتہ کا بیان

فرشتہ نے 1265-66 میں الغ خان کی ایک اور مہم کا ذکر کیا ہے، جس کا مقصد “میواتیوں کے لٹیرے گروہ” کا خاتمہ کرنا تھا جنہوں نے دارالحکومت کے جنوب مشرق میں تقریباً اسی میل کے وسیع علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا اور سابقہ ادوار میں دہلی کے دروازوں تک چھاپے مارتے تھے ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مہم میں 100,000 سے زیادہ میواتیوں کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ فوج نے، کلہاڑیوں اور دیگر اوزاروں سے لیس، 100 میل کے دائرے میں جنگلات صاف کیے، جس سے صاف شدہ زمین بہترین، اچھی طرح کاشت شدہ قابل کاشت زمین میں تبدیل ہو گئی ۔ یہ صرف فوجی محکومیت سے کہیں زیادہ ایک طویل مدتی حکمت عملی کو نمایاں کرتا ہے۔  

بلبن جیسے ایک مضبوط اور مرکزی حکمران نے میواتیوں کے خلاف متعدد بڑی مہمات (1247، 1260، 1265-66) چلائیں ۔ یہ ایک بار بار پیش آنے والے مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے نہ کہ کسی الگ تھلگ واقعے کی۔ میواتیوں کی “بہادر، جنگجو، اور محنتی” اور ان کی “شکاری فطرت” کی طویل شہرت جس نے مختلف حکمرانوں کے لیے “بڑی مشکلات” پیدا کیں ، یہ ایک زبردست اور مستقل مزاحمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان کی “آزادی کی جدوجہد” ان کے اعمال کو محض ڈاکوؤں سے بڑھ کر سیاق و سباق فراہم کرتی ہے۔ بلبن کے ردعمل کی شدت – ملک کو “آگ اور تلوار” سے تباہ کرنا، بڑے پیمانے پر قتل عام (10,000 سے 100,000 سے زیادہ ہلاکتیں)، اور کنٹرول کے لیے وسیع جنگلات کی صفائی – اس خطرے کو نمایاں کرتی ہے جو وہ پیش کرتے تھے، یہاں تک کہ “دہلی کے دروازوں” تک پہنچ جاتے تھے ۔ یہ بار بار کا تنازعہ ابتدائی دہلی سلطنت کو درپیش ایک بنیادی چیلنج کو ظاہر کرتا ہے: اپنے فوری اندرونی علاقوں پر مؤثر کنٹرول قائم کرنا اور لچکدار مقامی کمیونٹیوں کو زیر کرنا۔ “میواتی مسئلہ” صرف ایک فوجی پریشانی نہیں تھا بلکہ مرکزی طاقت کے استحکام اور آباد زرعی علاقوں کی توسیع میں ایک اہم رکاوٹ تھا، جس کے لیے دارالحکومت کے مضافات کو محفوظ بنانے کے لیے ظالمانہ اور پائیدار مہمات کی ضرورت تھی۔

غیاث الدین بلبن کا مقبرہ مہرولی، نئی دہلی،

 جدول: فرشتہ کے بیان کردہ میواتی مہمات اور صفحات کے حوالہ جات

مہم کا سالفرشتہ کا بیان (مختصر)برگز ترجمہ (جلد/صفحہ)
1247الغ خان (بلبن) نے میوات اور رنتھمبھور کے سرکش باشندوں کو سزا دی۔جلد اول، ص 131
1260الغ خان نے سیوالک/رنتھمبھور میں میواتیوں کی شورش کو کچلنے کے لیے مہم چلائی؛ 4 ماہ تک علاقے کو تباہ کیا؛ جوابی حملے میں میواتیوں کو شکست دی، 10,000 سے زیادہ ہلاک، 200 سردار قیدی۔جلد اول، ص 135
1265-66لٹیروں کے گروہ کا خاتمہ کرنے کے لیے فوج بھیجی گئی؛ 100,000 سے زیادہ میواتیوں کو تلوار کے گھاٹ اتارا گیا؛ 100 میل کے دائرے میں جنگلات صاف کیے گئے۔جلد اول، ص 255-256

یہ جدول صارف کی طرف سے صفحات کے حوالے کے ساتھ میواتیوں کے ذکر کی واضح اور منظم انداز میں فراہمی کی درخواست کو پورا کرتا ہے۔ ایک علمی ر تحریر  کے لیے، بریگز کے وسیع پیمانے پر قبول شدہ ترجمے سے درست صفحات کی نشاندہی کرنا تصدیق اور علمی اعتبار کے لیے اہم ہے۔ یہ دوسرے محققین کو اصل متن کو تیزی سے تلاش کرنے اور کراس ریفرنس کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ معلومات کو مختصر اور قابل رسائی انداز میں پیش کرتا ہے، جو ر تحریر  کی مجموعی وضاحت اور تنظیم کو بہتر بناتا ہے۔

4. تاریخ فرشتہ کے ماخذات

4.1. فرشتہ کی تحقیق کا طریقہ کار

فرشتہ نے تاریخ کے لیے ایک “منظم طریقہ کار” اپنایا، جس کی خصوصیت “بنیادی ماخذات، انٹرویوز، اور ان کے اپنے مشاہدات کو یکجا کرنا” تھا ۔ انہوں نے “تاریخی واقعات کی تصدیق کے لیے تنقیدی تجزیہ اور باہمی حوالوں” پر زور دیا، جو اپنے وقت کی تاریخی تحریر میں ایک نیا معیار قائم کرتا ہے ۔ اس کے باوجود، کچھ جدید مؤرخین، جیسے پیٹر جیکسن، نوٹ کرتے ہیں کہ فرشتہ کے کام کو “واقعات کے پہلے ہاتھ کے بیان کے طور پر قابل بھروسہ نہیں سمجھا جا سکتا” اور انہیں بعض مقامات پر “افسانوں اور اپنی تخیل پر انحصار کرنے کا شبہ ہے” ۔ تاہم، انہیں “شمالی ہندوستان کی سیاست کے موضوع پر آزاد اور قابل بھروسہ” بھی سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر شہنشاہ جہانگیر کے دور کے لیے ۔  

4.2. اہم ماخذات کا جائزہ

فرشتہ کا کام “بڑی حد تک پہلے کی فارسی تاریخی تصانیف پر مبنی” ہے ۔ انہوں نے “پہلے کے کاموں، زبانی روایات، اور اپنے مشاہدات” سے استفادہ کیا ۔  

ضیاء الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہی

: ضیاء الدین برنی (14ویں صدی) ایک ممتاز ہندوستانی مؤرخ اور اسلامی عالم تھے، جو تاریخ فیروز شاہی اور فتاویٰ جہانداری کے لیے معروف ہیں ۔ ان کی تاریخ فیروز شاہی کو واضح طور پر “وہ بنیادی ماخذ” قرار دیا گیا ہے جس سے فرشتہ نے دہلی سلطنت کے دور کے لیے، خاص طور پر سلطان غیاث الدین بلبن کی زندگی اور اعمال کے لیے، اپنے بیانات اخذ کیے ہیں ۔ بلبن کے بارے میں برنی کے بیانات ان کے والد، دادا، اور سلطان کے تحت خدمات انجام دینے والے عہدیداروں سے سنی گئی باتوں پر مبنی تھے ۔  

  • دیگر ہم عصر اور پیشرو تصانیف: ہم عصر علماء اور مؤرخین نوٹ کرتے ہیں کہ فرشتہ نے نظام الدین کی طبقات اکبری اور مرزا حیدر کی تاریخ راشدی سے بھی استفادہ کیا ۔ وسیع تر معنوں میں، ہندوستان میں فارسی تاریخ نگاری کی روایت، جس کی فرشتہ نے پیروی کی، میں غزنوی دور کے کام شامل ہیں جیسے ابو الفضل بیہقی کی تاریخ بیہقی، اور دہلی سلطنت کی ابتدائی تاریخیں جیسے منہاج السراج جوزجانی کی طبقات ناصری اور بنکتی کی تاریخ بنکتی ۔  

4.3. ماخذات پر تنقیدی نقطہ نظر

فرشتہ کا 1570 عیسوی میں پیدا ہونا اور ان کے بیان کردہ میواتی مہمات کا 13ویں صدی میں رونما ہونا ، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ ان واقعات کے براہ راست عینی شاہد نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ زمانی فاصلہ ان کے بیانات کو بنیادی ماخذ کے بجائے ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فرشتہ کا کام “بڑی حد تک پہلے کی فارسی تاریخی تصانیف پر مبنی” تھا ، اور انہوں نے “پہلے کے کاموں، زبانی روایات، اور اپنے مشاہدات” سے استفادہ کیا ۔ خاص طور پر، برنی کی تاریخ فیروز شاہی کو دہلی سلطنت کے اس دور کے لیے “بنیادی ماخذ” کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے ۔  

پیٹر جیکسن جیسے اسکالرز نے صراحت سے کہا ہے کہ فرشتہ کے کام کو “واقعات کے پہلے ہاتھ کے بیان کے طور پر قابل بھروسہ نہیں سمجھا جا سکتا” اور انہیں بعض مقامات پر “افسانوں اور اپنی تخیل پر انحصار کرنے کا شبہ ہے” ۔ اگرچہ انہیں جہانگیر کے دور کی شمالی ہندوستانی سیاست کے لیے “آزاد اور قابل بھروسہ” سمجھا جاتا ہے ، لیکن یہ اعتبار ابتدائی ادوار کے لیے کم یقینی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلبن کے دور میں میواتیوں کے بارے میں فرشتہ کا بیان پہلے کے ماخذات، خاص طور پر برنی، کی ثانوی تشریح اور تالیف ہے، نہ کہ ایک آزاد بنیادی بیان۔ ان کے کام کی قدر ان کی جامع تالیف اور پہلے کے بیانات کے تحفظ میں مضمر ہے، لیکن ان کے کام کا تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ تالیف کے عمل کے دوران متعارف ہونے والے ممکنہ تعصبات، کوتاہیوں، یا اضافوں کو سمجھا جا سکے۔ یہ سمجھ تاریخ فرشتہ کو ایک تاریخی ماخذ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔  

5. فرشتہ اور برنی کے بیانات کا تقابلی جائزہ

فرشتہ اور برنی دونوں نے قرون وسطیٰ کے دور میں میو کمیونٹی اور میوات کے علاقے کے سماجی، ثقافتی، اور سیاسی پہلوؤں کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم کی ہیں ۔ تاہم، ان کے بیانات دائرہ کار، تفصیل، اور زور میں نمایاں اختلافات ظاہر کرتے ہیں۔  

5.1. مہمات کا دائرہ کار اور تفصیلات میں فرق

  • فرشتہ کا دائرہ کار: فرشتہ نے بلبن کی میوات کے خلاف تین الگ الگ مہمات کی تفصیلات بیان کی ہیں: 1247، 1260، اور 1265-66 ۔ 1260 کی مہم کا ان کا بیان خاص طور پر فوجی جھڑپوں کی تفصیلات، بشمول میواتیوں کے جوابی حملے اور دونوں اطراف کے بھاری نقصانات، کو نمایاں کرتا ہے ۔ وہ 1265-66 کی مہم کے طویل مدتی اثرات کو بھی اجاگر کرتے ہیں، جیسے قابل کاشت زمین کے لیے جنگلات کی صفائی ۔  
  • برنی کا دائرہ کار:
  • برنی نے اپنی تاریخ فیروز شاہی میں صرف 1265-66 کی مہم کی صراحت سے تفصیل بیان کی ہے ۔ ان کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلبن کی پہلے کی میوات مہمات سے ناواقف ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ بلبن کے دور سے پہلے میواتیوں کو “شمس الدین کے زمانے سے کوئی پریشان نہیں کیا گیا تھا” ۔  

فرشتہ، جو بعد میں لکھ رہے تھے، نے بلبن کی میواتی مہمات کا ایک وسیع زمانی دائرہ کار (تین مہمات) فراہم کیا، جبکہ برنی، جو واقعات کے زیادہ قریب تھے، نے صرف آخری، فیصلہ کن مہم کی تفصیل بیان کی ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ فرشتہ نے اس دور کے لیے برنی سے صراحت سے استفادہ کیا ۔ اگر فرشتہ نے برنی کا استعمال کیا، تو انہیں پہلے کی مہمات کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ فرشتہ کو اضافی ماخذات (زبانی روایات، دیگر تاریخیں جو اقتباسات میں مذکور نہیں ہیں) تک رسائی حاصل تھی جو برنی کے پاس نہیں تھیں یا جنہیں برنی نے ترجیح نہیں دی تھی، یا انہوں نے مختلف ٹکڑوں کی معلومات کو یکجا کیا۔ برنی، جو فیروز شاہ تغلق کے دور اور بلبن کی بعد کی کامیابیوں پر توجہ مرکوز کر رہے تھے، نے پہلے کی، کم فیصلہ کن مہمات کو مختصر یا حذف کر دیا ہو گا۔ یہ فرق اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ جب ایک مؤرخ دوسرے سے استفادہ کرتا ہے، تو نتیجہ خیز بیانیہ محض نقل نہیں ہوتا۔ یہ بعد کے مؤرخ کی وسیع تر معلومات تک رسائی، ان کے تشریحی انتخاب، اور ان کے اپنے تاریخی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تاریخی تحریر کی متحرک نوعیت اور وقت کے ساتھ معلومات جمع کرنے اور تالیف کے مسلسل عمل کو نمایاں کرتا ہے۔  

5.2. جانی نقصان کے اعداد و شمار کا موازنہ

  • فرشتہ کے اعداد و شمار: 1260 کی مہم کے لیے، فرشتہ بیان کرتے ہیں کہ 10,000 سے زیادہ ہندو (میواتی) ہلاک ہوئے ۔ 1265-66 کی مہم کے لیے، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ “100,000 سے زیادہ میواتیوں کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا گیا” ۔  
  • برنی کے اعداد و شمار: 1265-66 کی مہم کے لیے، برنی ایک حیران کن اور منفرد دعویٰ کرتے ہیں: “شاہی فوج کے ایک لاکھ سپاہی میواتیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے (یک لکھی بندہ خاص سلطان از میوان شہید شد)”، اس کے ساتھ ہی شاہی افواج کے ہاتھوں بھی اتنی ہی تعداد میں میواتی مارے گئے ۔  

سب سے اہم تضاد 1265-66 کی مہم کے جانی نقصان کے اعداد و شمار میں پایا جاتا ہے۔ فرشتہ میواتیوں کے نقصانات (100,000 سے زیادہ ہلاک) پر زور دیتے ہیں، جبکہ برنی شاہی فوج کے 100,000 سپاہیوں کی ہلاکت کا غیر معمولی دعویٰ کرتے ہیں، اس کے علاوہ میواتیوں کے نقصانات بھی ۔ برنی ایک ہم عصر مؤرخ تھے، “محمدیوں کے ایک مخلص خیر خواہ” ، اور ان کی معلومات عہدیداروں اور خاندانی افراد کے براہ راست بیانات سے حاصل ہوئی تھیں ۔ مہم سے پہلے میواتیوں کی بے باکی کی ان کی واضح تفصیلات (شہر کے دروازے بند کرنا، پانی بھرنے والوں پر حملہ کرنا) خطرے کی شدت کو بڑھاوا دینے کا کام کرتی ہیں۔ برنی کا شاہی فوج کے جانی نقصان کا اعداد و شمار غیر معمولی طور پر زیادہ اور منفرد ہے۔ یہ ایک بیاناتی مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے جس کا مقصد میواتیوں کی طرف سے پیش کردہ شدید خطرے کو اجاگر کرنا اور اس کے نتیجے میں بلبن کی ایسی زبردست اور مہنگی چیلنج پر قابو پانے کی کامیابی کو سراہنا تھا۔ فتح کو مشکل اور مہنگا دکھا کر، برنی سلطان کی ایک مضبوط اور مؤثر حکمران کے طور پر شبیہ کو بڑھاتے ہیں جس نے نظم و نسق بحال کیا۔ فرشتہ، جو بعد میں لکھ رہے تھے اور ممکنہ طور پر ایک وسیع تر نقطہ نظر یا دیگر ریکارڈز تک رسائی رکھتے تھے، نے اس مخصوص اعداد و شمار کو کم قابل اعتبار پایا ہو گا یا دشمن کے مکمل خاتمے پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا ہو گا۔ یہ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے متون میں جانی نقصان کے اعداد و شمار اکثر درست شماریاتی ڈیٹا نہیں ہوتے بلکہ ایک بیانیاتی فعل انجام دیتے ہیں۔ انہیں تنازعے کی وسعت، ایک فریق کی بہادری، یا دوسرے کی بے رحمی کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مؤرخین کو ایسے اعداد و شمار کو احتیاط سے دیکھنا چاہیے، انہیں محض حقائق پر مبنی ر تحریر نگ کے بجائے ادبی یا سیاسی آلات کے طور پر ان کی صلاحیت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ تضاد قرون وسطیٰ کے مؤرخین کی طرف سے استعمال کیے جانے والے تعصبات اور بیانیاتی حکمت عملیوں کی ایک اہم جھلک پیش کرتا ہے۔  

5.3. تاریخی سیاق و سباق اور تعصب

  • فرشتہ کا نقطہ نظر: 16ویں صدی کے آخر/17ویں صدی کے اوائل میں لکھتے ہوئے، فرشتہ کو بعد میں ہونے والے واقعات کا فائدہ اور ممکنہ طور پر تاریخی ریکارڈز اور زبانی روایات کی ایک وسیع رینج تک رسائی حاصل تھی ۔ میواتیوں کو “شکاری” لیکن “بہادر، جنگجو، اور محنتی” کے طور پر پیش کرنا جنہوں نے “تقریباً تمام حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی” اور ان کی “آزادی کی منفرد جدوجہد” ان کے کردار اور محرکات پر ایک زیادہ باریک بینی سے، اگرچہ اب بھی تنقیدی، نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔  
  • برنی کا نقطہ نظر: دہلی سلطنت کے 14ویں صدی کے ہم عصر کے طور پر، برنی کا بیان فوری نوعیت کا ہے اور براہ راست زبانی شہادتوں پر انحصار کرتا ہے ۔ تاہم، “محمدیوں کے ایک مخلص خیر خواہ” اور ایک اعلیٰ عہدیدار کے طور پر، ان کا بیانیہ میواتیوں کی متشدد فطرت کو اجاگر کرنے کے لیے زیادہ مائل ہو سکتا ہے تاکہ بلبن کے سخت اقدامات کو جواز فراہم کیا جا سکے اور سلطان کی نظم و نسق بحال کرنے اور طاقت کو مستحکم کرنے میں تاثیر کو نمایاں کیا جا سکے ۔ دہلی کے قریب میواتیوں کی بے باکی کے ان کے واضح واقعات اس افراتفری کو نمایاں کرتے ہیں جسے بلبن نے کنٹرول کیا۔  

6. نتیجہ فکر

6.1. خلاصہ اور اہم نکات

تاریخ فرشتہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے لیے ایک بنیادی اور جامع تاریخی متن کے طور پر کام کرتی ہے، جسے محمد قاسم ہندو شاہ فرشتہ نے ابراہیم عادل شاہ ثانی کی سرپرستی میں مرتب کیا تھا۔ یہ تصنیف میواتیوں، جو میوات کے علاقے کی ایک لچکدار کمیونٹی تھی، کے بارے میں اہم تفصیلات فراہم کرتی ہے، خاص طور پر سلطان بلبن کی متعدد تعزیری مہمات (1247، 1260، 1265-66) کے ذریعے، جن کے مخصوص صفحات کے حوالے بریگز کے ترجمے میں دستیاب ہیں۔ فرشتہ کے اس دور کے لیے بنیادی ماخذات میں پہلے کی فارسی تاریخیں شامل ہیں، جن میں سب سے نمایاں ضیاء الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہی ہے۔ ایک تقابلی تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ فرشتہ اور برنی دونوں میواتی خطرے کو دستاویزی شکل دیتے ہیں، لیکن وہ تفصیلات میں بیان کردہ مہمات کی تعداد اور، اہم طور پر، 1265-66 کی مہم کے لیے ر تحریر  کردہ جانی نقصان کے اعداد و شمار میں مختلف ہیں، جو مختلف مصنفانہ توجہ اور ممکنہ تعصبات کی عکاسی کرتے ہیں۔

6.2. تاریخی مطالعہ میں فرشتہ کی اہمیت

بعد میں مرتب ہونے کے باوجود، تاریخ فرشتہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کی سیاسی، سماجی، اور ثقافتی حرکیات کو سمجھنے کے لیے ایک ناگزیر ماخذ بنی ہوئی ہے۔ اس کے جامع دائرہ کار اور منظم طریقہ کار نے اس کی دیرپا مطابقت کو یقینی بنایا ہے۔ اس کام کا ابتدائی یورپی تاریخ نگاری پر نمایاں اثر و رسوخ ہندوستان کے بارے میں وسیع تر تاریخی بیانیوں کو تشکیل دینے میں اس کے کردار کو نمایاں کرتا ہے، یہاں تک کہ کچھ تشریحات اور تعصبات کو مغربی علمی دنیا میں منتقل بھی کیا۔ میواتیوں جیسی کمیونٹیوں کے مطالعہ کے لیے، فرشتہ کی تاریخ ایک قیمتی، اگرچہ ثانوی، نقطہ نظر فراہم کرتی ہے، جس کے لیے برنی جیسے پہلے کے ماخذات کے ساتھ تنقیدی موازنہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک زیادہ باریک بینی اور مکمل تاریخی تصویر کو دوبارہ تشکیل دیا جا سکے۔ ان بیانات کے درمیان تضادات محض تضادات نہیں ہیں بلکہ قرون وسطیٰ کی تاریخ نگاری کی نوعیت، بشمول مصنف کے ارادے، دستیاب ماخذات، اور تاریخی سچائی کی تشکیل کے کردار کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram