Tafseer-e-Kabeer
Tafseer Al Kabir by Imam Al-Razi
اردو کتاب کا دوسرا ڈائون لوڈ لنک
Review in Urdu: تفسیر کبیر کا تعارف Ammar Nasir, 2002 (Published in Mahanama Ishraq, Lahore, Pakistan)’’مفاتیح الغیب‘‘ یعنی تفسیر کبیر کا شمار تفسیر بالرائے کے طریقہ پر لکھی گئی اہم ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ اس کی تصنیف چھٹی صدی ہجری کے نام ور عالم اور متکلم امام محمد فخر الدین رازی (۵۴۳ھ ۔ ۶۰۶ھ) نے شروع کی ، لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں اس کی تکمیل، حاجی خلیفہ کی رائے کے مطابق قاضی شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقی نے اور ابن حجر کی رائے کے مطابق شیخ نجم الدین احمد بن محمد القمولی نے کی۔ یہ بات بھی معین طور پر معلوم نہیں کہ تفسیر کا کتنا حصہ خود امام صاحب لکھ پائے تھے ۔ ایک قول کے مطابق سورۂ انبیا تک ، جبکہ دوسرے قول کے مطابق سورۂ فتح تک تفسیر امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی ہے۔ ۱ تاہم اس معاملے میں سب سے زیادہ تشفی بخش اور مدلل نقطہ نظر الاستاذ عبد الرحمن المعلمی نے اپنے مضمون ’’حول تفسیر الفخر الرازی‘‘ میں اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط داخلی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ تفسیر کے درج ذیل حصے خود امام صاحب نے لکھے ہیں ، جبکہ باقی اجزا الخولی یا القمولی کے لکھے ہوئے ہیں: ۱۔ سورۂ فاتحہ تا سورۂ قصص ۲۔ سورۂ صافات ، سورۂ احقاف ۳۔ سورۂ حشر، مجادلہ اور حدید ۴۔ سورۂ ملک تا سورۂ ناس ۲خصوصیات جامعیتتفسیر کبیر کی نمایاں ترین خصوصیت، جس کا اعتراف اکابر اہل علم نے کیا ہے، اس کی جامعیت ہے۔ وہ جس مسئلہ پر لکھتے ہیں، اس کے متعلق جس قدر مباحث ان سے پہلے پیدا ہو چکے ہیں، ان سب کا استقصا کر دیتے ہیں۔ محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں : ’’رازی کی تفسیر کو علما کے ہاں عام شہرت حاصل ہے کیونکہ دوسری کتب تفسیر کے مقابلے میں اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مختلف علوم سے متعلق وسیع اور بھرپور بحثیں ملتی ہیں۔ ‘‘(التفسیر والمفسرون۱/ ۲۹۳) علامہ انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں : ’’قرآن کریم کی مشکلات میں مجھے کوئی مشکل ایسی نہیں ملی جس سے امام رازی نے تعرض نہ کیا ہو، یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات مشکلات کا حل ایسا پیش نہیں کر سکے جس پر دل مطمئن ہوجائے۔ ‘‘ (البنوری، محمد یوسف ،یتیمۃ البیان ۲۳)طریق تفسیرہر آیت کی تفسیر میں امام صاحب کا طریقہ حسب ذیل ہے: ۱۔ آیت کی تفسیر، نحوی ترکیب، وجوہ بلاغت اور شان نزول سے متعلق سلف کے تمام اقوال نہایت مرتب اور منضبط انداز میں پوری شرح ووضاحت سے بیان کرتے ہیں۔ ۲۔ آیت سے متعلق فقہی احکام کا ذکر تفصیلی دلائل سے کرتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔ ۳۔ متعلقہ آیات کے تحت مختلف باطل فرقوں مثلاً جہمیہ، معتزلہ، مجسمہ وغیرہ کا استدلال تفصیل سے ذکر کر کے اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلے دو امور کا ذکر اگرچہ دوسرے اہل تفسیر بھی کرتے ہیں ، لیکن یہ ذخیرہ ان میں منتشر اور بکھرا ہوا ہے، جبکہ تفسیر کبیر میں یہ تمام مباحث یک جا مل جاتے ہیں۔ البتہ تیسرے امر کے اعتبار سے تفسیر کبیر اپنی نوعیت کی منفردتفسیر ہے۔ ترجیح و محاکمہامام صاحب نے اپنی تفسیر میں جمع اقوال پر اکتفا نہیں کی ،بلکہ دلائل کے ساتھ بعض اقوال کو ترجیح دینے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سے تفسیر کے متعلقہ علوم وفنون میں ان کی دسترس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ تفسیر گویا سابقہ تفسیری ذخیرے پر ایک محاکمہ کا درجہ رکھتی ہے۔ مختلف تفسیری اقوال میں ترجیح قائم کرتے ہوئے امام صاحب بالعموم حسب ذیل اصول پیش نظر رکھتے ہیں : ۱۔ اگر کسی قول کی تائید میں صحیح حدیث موجود ہو تو اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’ونفخ فی الصور‘ کی تفسیر میں تین اقوال نقل کرتے ہیں: ایک یہ کہ صور ایک آلہ ہے ، جب اس کو پھونکا جائے گا تو ایک بلند آواز پیدا ہوگی ۔ اس کو خداوند تعالیٰ نے دنیا کی بربادی اور اعادۂ اموات کی علامت قرار دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ لفظ بفتح الواو ہے اور ’صورۃ‘ کی جمع ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ’’جب صورتوں میں روح پھونکی جائے گی۔‘‘ تیسرا یہ کہ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مقصد مردوں کا اٹھانا اور ان کو جمع کرنا ہے۔ امام رازی نے ان اقوال میں سے پہلے قول کو اس بنا پر ترجیح دی ہے کہ اس کی تائید میں رسول اللہ کی حدیث موجود ہے۔ ۳ ۲۔ جو مفہوم عقل کے مطابق ہو، اس کو راجح قرار دیتے ہیں۔ سورۂ نساء کی آیت ’خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا‘ کی تفسیر میں عام مفسرین کا خیال یہ ہے کہ حضرت حوا علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور اس کی تائید میں حدیث بھی موجود ہے۔ لیکن امام رازی ابو مسلم کی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں جن کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کی جنس سے ان کی بیوی کو پیدا کیا۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کر سکتے تھے، اسی طرح حضرت حوا علیہا السلام کو بھی کر سکتے تھے، پھر ان کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ۴ اسی طرح سورۂ کہف میں ذو القرنین کے قصہ میں ارشاد باری ہے : حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِءَۃٍ ۔ ( الکہف ۱۸: ۸۶) ’’یہا ں تک کہ جب وہ آفتاب کے غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو سورج کو کیچڑ کی ایک نہر میں ڈوبتے دیکھا۔‘‘ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ سورج درحقیقت کیچڑ میں ڈوبتا ہے ، لیکن امام رازی کے نزدیک یہ تفسیر بالکل عقل کے خلاف ہے ، کیونکہ سورج زمین سے کئی گنا بڑا ہے اس لیے وہ زمین کی کسی نہر میں کیسے ڈوب سکتا ہے؟ ۵ ۳۔ جب تک کسی لفظ کا حقیقی اور معروف معنی مراد لینا ممکن ہو، اس وقت تک اس کا مجازی یا غیر معروف معنی مراد نہیں لیتے۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ میں ’وفار التنور‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لفظ ’تنور‘ کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد وہی تنور ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد سطح زمین ہے۔ تیسرا یہ کہ اس سے مراد زمین کا بلند حصہ ہے۔ چوتھا یہ کہ اس سے مراد طلوع صبح ہے۔ پانچواں یہ کہ یہ محاورتاً واقعہ کی شدت کی تعبیر ہے۔ ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام رازی لکھتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ کلام کو حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے اورحقیقی معنی کے لحاظ سے تنور اسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں روٹی پکائی جاتی ہے۔ ۶ اسی طرح ’ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ‘،’ ’جس نے مال غنیمت میں خیانت کی، وہ اس مال کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا‘‘ کی تفسیر میں دو قول نقل کرتے ہیں : ایک یہ کہ حقیقتاً ایسا ہی ہوگا ۔ دوسرا یہ کہ اس تعبیر سے محض عذاب کی سختی بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ علم قرآن میں جو اصول معتبر ہے، وہ یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر قائم رکھنا چاہیے ، الا یہ کہ کوئی اور دلیل اس سے مانع ہو۔ یہاں چونکہ ظاہری معنی مراد لینے میں کوئی مانع نہیں اس لیے اسی کو قائم رکھنا چاہیے۔۷ ۴۔ اس قول کو مختار قرار دیتے ہیں جو کلام کی نحوی ترکیب کے وجوہ میں سے بہتر وجہ کے مطابق ہو۔ سورۂ بقرہ کی آیت ’ولکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین‘ کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ ’ما انزل‘ میں ’ما ‘ نافیہ ہے یا موصولہ، نیز اس کا عطف ’السحر‘ پر ہے یا ’ما تتلوا الشیاطین‘پر۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ ’ما ‘کو موصولہ قرار دینا اور اس کا عطف ’السحر‘ پر کرنا زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ جو لفظ قریب ہے، اس پر عطف کرنا بعید لفظ پر عطف کرنے سے زیادہ مستحسن ہے۔ ۸ آیات وسور میں باہمی ربطامام رازی قرآن مجید میں نظم کے قائل ہیں اور اپنی تفسیر میں آیات اور سورتوں کا باہمی ربط نہایت اہتمام سے بیان کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے جو کوششیں کی ہیں، ان کی اہمیت کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ مولانا تقی عثمانی کا خیال یہ ہے : ’’آیتوں کے درمیان ربط ومناسبت کی جو وجہ وہ بیان فرماتے ہیں ، وہ عموماً اتنی بے تکلف، دل نشین اور معقول ہوتی ہے کہ اس پر دل نہ صرف مطمئن ہو جاتا ہے ، بلکہ اس سے قرآن کریم کی عظمت کا غیر معمولی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘(علوم القرآن ،۵۰۴) جبکہ مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں: ’’اس سلسلے میں ان کی کوششیں کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ نظم قرآن کھولنے کے لیے جو محنت درکار تھی، اس کے لیے ان کے جیسے مصروف مصنف کے پاس فرصت مفقود تھی۔‘‘ (مبادی تدبر قرآن) تاہم اصولی طور پر امام رازی نظم کی رعایت پر نہایت شدت سے اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ حم السجدہ کی آیت ’ولوجعلناہ قرآنا اعجمیا لقالوا لو لا فصلت آیاتہ ‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے جواب میں اتری ہے جو ازراہ شرارت یہ کہتے تھے کہ اگر قرآن مجید کسی عجمی زبان میں اتارا جاتا تو بہتر ہوتا ۔ لیکن اس طرح کی باتیں کہنا میرے نزدیک کتاب الہٰی پر سخت ظلم ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ قرآن کی آیتوں میں باہم دگر کوئی ربط وتعلق نہیں ہے ، حالانکہ یہ کہنا قرآن حکیم پر بہت بڑا اعتراض کرنا ہے۔ ایسی صورت میں قرآن کو معجزہ ماننا تو الگ رہا، اس کو ایک مرتب کتاب کہنا بھی مشکل ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ شروع سے لے کر آخر تک ایک مربوط کلام ہے۔ ‘‘(التفسیرالکبیر ۲۷/ ۱۳۳) اس کے بعد اس آیت کی تفسیر لکھ کر فرماتے ہیں: ’’ہر منصف جو انکار حق کا عادی نہیں ہے، تسلیم کرے گا کہ اگر سورہ کی تفسیر اس طرح کی جائے جس طرح ہم نے کی ہے تو پوری سورہ ایک ہی مضمون کی حامل نظر آئے گی اور اس کی تمام آیتیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کریں گی۔ ‘‘(التفسیرالکبیر ۲۷/ ۱۳۳) عقلی اندازامام رازی اپنے زمانے کے عقلی اور فلسفیانہ علوم کے بلند پایہ عالم تھے ۔ مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والے کلامی اختلافات اور ان کی مذہبی وعقلی بنیادوں پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام کے مختلف مسائل پر یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہونے والے اعتراضات سے بھی وہ پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ قدرتی طور پر ان کی تفسیر پر عقلی رنگ غالب ہے اوران کی بحثوں میں ان تمام علوم کی بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے جن کے مطالعہ کا موقع امام صاحب کو میسر آیا تھا۔ تفسیر کبیر میں اس عقلی ذوق کا اظہار حسب ذیل صورتوں میں ہوا ہے: متکلمانہ جانب داریتفسیر کبیر پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں امام صاحب نے کلامی جھگڑوں کے حوالے سے ایک خاص نقطۂ نظر کی وکالت کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے حسب ذیل ہے: اہل السنۃ کی کمزور ترجمانیبعض علما کی رائے یہ ہے کہ تفسیر کبیر میں باطل فرقوں کا استدلال تو نہایت بھرپور طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں اہل سنت کی ترجمانی کمزور طریقے سے کی گئی ہے۔ ابن حجر لکھتے ہیں : ____________ ۱ التفسیر والمفسرون ۱/ ۲۹۱۔ محمد تقی عثمانی، علوم القرآن ، ۵۰۴۔ | Download links:Arabic: الناشر: دار الفكر Urdu: سفر صغیر ترجمہ تفسیر الکبیر فخر الدین رازی – مترجم محمد اسحٰق دہلوی – مصلح المطابع واقع دہلی جلد 01 |
need urdu translation complete..only two volumes are available
ok
Pingback: Tafseer E Kabeer Imam Razi Urdu.pdf - Mag & Associates
You’re right
ASSALAM U ALAIKUM
Dear Brother , i want tafseer al kabir by fakhruddin Razi ,in urdu complete .
where do i get it.?
There is a link on this website, search for it and you will find it.