فتاویٰ عالمگیری اور
اسکے اہم مآخذات
(یعنی فقہ حنفیہ کی بعض اہم کتب) کا تعارف
اسکے اہم مآخذات
(یعنی فقہ حنفیہ کی بعض اہم کتب) کا تعارف
از: مفتی محمد یوسف
فتاویٰ عالمگیری فقہ کی تمام اہم اور قابل ذکر کتابوں کا نچوڑ ہے اور اس کے مآخذ ومراجع فقہ حنفیہ میں بڑی وقعت رکھتے ہیں۔فتاویٰ کی تدوین کے وقت فقہ اسلامی اور اصول فقہ پر جتنی کتابیں بھی اس وقت تک تحریری شکل میں موجودتھیں ان تمام سے استفادہ کیا گیا۔نیز قلمی مسوّدات اور فتاویٰ جات سے بھی راہنمائی لی گئی تاکہ فقہ پر اس وقت تک جو علمی کام ہوچکا ہے وہ نظر انداز نہ ہو سکے۔ان تمام کتابوں کا صحیح اندازہ اور مکمل احاطہ تو ممکن نہیں البتہ اس سلسلے میں یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے چند معروف کتابوں کا مختصرا ًتعارف پیش کردیا جائے۔
کتاب المبسوط:
یہ کتاب امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ (150ھ) کے مایہ ناز شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ(189ھ) کی تصنیف ہے اور کتاب الاصل کے نام سے مشہور ہے۔اس کو “اصل”اس لیے کہا جاتاہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی کو تصنیف کیا۔ اس میں فاضل مصنف رحمہ اللہ نے سینکڑوں مسائل سے متعلقہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فتاویٰ جات جمع کیے ہیں نیز ایسے مسائل بھی ذکر کیے ہیں جو ان کے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ (182ھ) کے درمیان اختلافی ہیں۔اور جس مسئلے میں امام محمد رحمہ اللہ نے اختلاف ذکر نہیں کیا وہ سب کا متفقہ ہوتاہے۔
مختصر الطحاوی:
علامہ ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمہ اللہ(321ھ) کی تصنیف ہے جو مشہور فقیہ ومحدّث اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔مصر کے ایک گاوں “طحا”کے رہنے والے تھے۔ پہلے شافعی المسلک تھے،بعد میں مسلک حنفیت اختیار کرلیا۔امام موصوف رحمہ اللہ مذہب حنفی کے ترجمان ہیں۔فقہ حنفیہ کے سلسلے میں آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔جن میں معانی الآثار،مشکل الآثار،شرح جامع الکبیر،شرح جامع الصغیر اور مختصر الطحاوی لائق تذکرہ ہیں۔
الکافی:
اس نام کی فقہیات سے متعلق کئی کتابیں ہیں جو چاروں مسالک[مسلک حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی]پر مشتمل ہیں۔لیکن یہاں “الکافی فی فروع الحنفیہ “مراد ہے۔یہ کتاب امام محمد بن محمد (334ھ) کی تصنیف ہے جو امام حاکم شہید کے نام سے معروف ہیں۔مصنف رحمہ اللہ نے اس کتاب میں امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کی کتابوں کے اہم فقہی مسائل سلیقے سے جمع کردئیے ہیں۔یہ کتاب اپنے مندرجات کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے۔
الفتاویٰ النسفیہ:
اس کے مؤلف علامہ نجم الدین عمر بن محمد نسفی رحمہ اللہ م(537ھ) ہیں جو علامہ سمرقندی کے نام سے مشہور ہیں۔یہ کتاب ان فتاویٰ کو محیط ہے جو انہوں نے اپنے معاصرین کے سوالات کے جواب میں تحریر کیے تھے۔علامہ ممدوح بہت بڑے فقیہ،محدّث اور مفسر تھے۔فقہ کے بارے میں ان کی مشہور تصنیف ”کتاب المنظومہ“ ہے۔اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فقہ کی پہلی کتاب ہے جو بصورت ِنظم ضبط ِتحریر میں لائی گئی۔
بدائع الصنائع:
یہ کتاب دراصل “تحفۃ الفقہاء”کی شرح ہے اس کے مصنف امام ابوبکر بن مسعود کاسانی رحمہ اللہ (567ھ) ہیں جس وقت یہ کتاب تحریر کی گئی تو تحفۃ الفقہاء کے مصنف علامہ محمد بن احمد سمرقندی رحمہ اللہ (539ھ) بقید حیات تھے۔انہوں نے جب اس عالمانہ اور مدلل شرح کو ملاحظہ فرمایا تو خوب تعریف کی اور از حد خوش ہوئے۔اسی خوشی میں آپ نے اپنی عالمانہ فاضلہ بیٹی فاطمہ کا نکاح اپنے شاگرد علامہ کاسانی رحمہ اللہ سے کردیا۔
فتاویٰ قاضی خان:
اسے فتاویٰ خانیہ بھی کہتے ہیں۔یہ امام فخرالدین حسن بن منصور اوزجندی رحمہ اللہ (592ھ) کی تصنیف ہے۔مصنف قاضی خان کے نا م سےمشہور ہیں۔فتاویٰ خانیہ ایک مشہور ومقبول کتاب ہے۔علماء فقہ حنفیہ کے بیشتر فتاویٰ کا مرجع یہی ہے۔یہ ان تمام مسائل کا مجموعہ ہے جن کی اکثر ضرورت پیش آتی ہے۔اس میں تقریبا ہر فقہی مسئلے کا مأخذ [اصل حوالہ]بتایا گیا ہے۔اور جس مسئلے میں متاخرین فقہاء کرام کے اقوال زیادہ ہیں ان میں ایک یا دو قول ذکر کرکے زیادہ واضح قول کو ترجیح دی گئی ہے۔علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ (879ھ) تصحیح القدوری میں فرماتے ہیں:”قاضی خان جس بات کی تصحیح کردیں اسے دوسروں کی تصحیح پر مقدم سمجھا جائے گا“۔
[بحوالہ:الفوائد البہیۃ ص65]
[بحوالہ:الفوائد البہیۃ ص65]
ہدایہ:
شیخ الاسلام برہان الدین علی بن ابوبکر مرغینانی رحمہ اللہ(593ھ) کی تصنیف ہے۔یہ فقہ حنفی کی نہایت اہم اور معروف کتاب ہے اور درحقیقت اسی مصنف رحمہ اللہ کی ایک اور تصنیف “بدایۃ المبتدی”کی شرح ہے اس کتاب کی فقہی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی مختلف زبانوں میں کئی شروحات لکھی گئی ہیں اور علماء کرام نے مختلف اندا زسے اس پر بہت کام کیا ہے۔
کنز الدقائق:
فقہ اسلامی کی یہ کتاب آج بھی مسلمانوں میں بہترین اور قابل اعتماد تصور کی جاتی ہے۔اور دینی مدارس کے نصاب میں داخل ہے۔اس کتاب کو ابوالبرکات علامہ عبداللہ بن احمد النسفی رحمہ اللہ (710ھ)نے تصنیف فرمایا۔فقہ حنفی کے جتنے بھی متون لکھے گئے ہیں ان میں سے مقبول ترین اور منفرد یہی کنزالدقائق ہے۔ اختصار اور جامعیت کی وجہ سے یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔
تبیین الحقائق:
یہ کتاب کنزالدقائق کی شرح ہے جو نامور فقیہ ومحدّث علامہ عثمان بن علی الزیلعی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے اس میں استدلال اور دلیل پر بہت زور دیاگیا ہے۔علامہ موصوف رحمہ اللہ 705ھ میں قاہرہ تشریف لے گئے تو وہاں کی مسند تدریس وافتاء پر فائز کیے گئے۔فقہ ،نحو اور فرائض [میراث]کے بہت بڑے عالم تھے۔فاضل مصنف رحمہ اللہ کا انتقال 743ھ میں ہوا۔
فتاویٰ تاتار خانیہ:
امام فریدالدین عالم بن علاء حنفی اندرپتی رحمہ اللہ(786ھ) کی تصنیف ہے۔مصنف مرحوم فقہ،اصول اور عربی ادبیات کے ماہر وباکمال علماء میں سے تھے۔آپ نے اس فتاویٰ میں المحیط البرہانی،ذخیرہ،فتاویٰ ظہیریہ کے مسائل جمع کیے ہیں۔المحیط البرہانی کے لیے میم کی علامت مقرر کی ہے اور باقی کتابوں کے نام لکھے ہیں۔یہ کتاب ابواب ہدایہ کی ترتیب کے مطابق مرتب کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ جو کتابیں فتاویٰ کی تدوین میں معاون ثابت ہوئیں ہیں ان میں سے بعض مزید کتابوں کے نام یہ ہیں:
اس کے علاوہ جو کتابیں فتاویٰ کی تدوین میں معاون ثابت ہوئیں ہیں ان میں سے بعض مزید کتابوں کے نام یہ ہیں:
خلاصۃ الفتاویٰ،
خزانۃ الفتاویٰ،
فتاویٰ العتابیہ،
فتاویٰ التمرتاشی،
فتاویٰ بزازیہ،
فتاویٰ الولوالجیہ،
فتاویٰ الغیاثیہ،
فتاویٰ شیخ الاسلام المعروف خواہر زادہ،
فتاویٰ الصغریٰ،
فتاویٰ الکبریٰ،
جامع المضمرات،
النہر الفائق،
فتح القدیر،
محیط البرہانی،
محیط السرخسی،
تنویر الابصار،
حاوی القدسی،
مجموع البحرین،
السراجی،
عینی شرح ہدایہ،
غیاث البیان وغیرہ۔
خزانۃ الفتاویٰ،
فتاویٰ العتابیہ،
فتاویٰ التمرتاشی،
فتاویٰ بزازیہ،
فتاویٰ الولوالجیہ،
فتاویٰ الغیاثیہ،
فتاویٰ شیخ الاسلام المعروف خواہر زادہ،
فتاویٰ الصغریٰ،
فتاویٰ الکبریٰ،
جامع المضمرات،
النہر الفائق،
فتح القدیر،
محیط البرہانی،
محیط السرخسی،
تنویر الابصار،
حاوی القدسی،
مجموع البحرین،
السراجی،
عینی شرح ہدایہ،
غیاث البیان وغیرہ۔
فتاویٰ عالمگیری کے مختلف زبانوں میں ترجمے:
فارسی ترجمہ:1 بادشاہ ہند اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ نے بےحد کاوش اور بڑی جانفشانی سے فتاویٰ عالمگیری کو مرتب کرایا۔اورنگ زیب ہر وقت اس کی اشاعت کے لیے کوشاں رہتا اور چاہتا تھا کہ یہ گراں قدر ذخیرۂ فقہ صرف عربی زبان تک محدود نہ رہے بلکہ ہندوستان کی اصل زبان فارسی میں بھی اسے منتقل کیا جائے تاکہ خلق خدابآسانی اس چشمۂعلم سے سیراب ہوسکے۔چنانچہ اس عظیم خدمت کے لیے آپ نے ترکی کے مشہور عالم عبداللہ چلپی کا انتخاب کیا۔
علامہ عبداللہ چلپی رحمہ اللہ شاہ جہان کے دور حکومت میں ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں اقامت گزین ہوئے آپ عربی،ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھےاور ان کی مروجّہ اصطلاحات سے پوری طرح واقف تھے۔فقہ اور اصول فقہ میں ان کو مکمل مہارت تھی۔عالمگیر رحمہ اللہ کے حکم پر آپ نے فتاویٰ ہندیہ کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا شرف حاصل کیا۔
علامہ عبداللہ چلپی رحمہ اللہ شاہ جہان کے دور حکومت میں ہندوستان تشریف لائے اور دہلی میں اقامت گزین ہوئے آپ عربی،ترکی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتے تھےاور ان کی مروجّہ اصطلاحات سے پوری طرح واقف تھے۔فقہ اور اصول فقہ میں ان کو مکمل مہارت تھی۔عالمگیر رحمہ اللہ کے حکم پر آپ نے فتاویٰ ہندیہ کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا شرف حاصل کیا۔
فارسی ترجمہ: 2 فتاویٰ عالمگیری کے دوسرے فارسی مترجم قاضی القضاۃ نجم الدین کاکوروی رحمہ اللہ (1229ھ) ہیں۔
آپ 1157ھ کو پیدا ہوئے۔مختلف شیوخ سے علوم وفنون حاصل کرنے کے بعد 25سال تک قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز رہے۔علامہ کاکوروی رحمہ اللہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے،فتاویٰ عالمگیری کے بعض اجزاء کا فارسی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی۔علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے اس حوالے سے جو عبارت تحریر فرمائی وہ یہ ہے۔
”لہ مصنفات منہا شرح بسیط بالفارسی علیٰ کتاب الجنایات من”الفتاویٰ الہندیۃ“
[نزہۃ الخواطر ج7ص546رقم الترجمہ941]
کہ علامہ کاکوروی رحمہ اللہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔جن میں فتاویٰ عالمگیری کی کتاب الجنایات پر فارسی زبان میں ایک بسیط اور مفصّل شرح ہے۔
”لہ مصنفات منہا شرح بسیط بالفارسی علیٰ کتاب الجنایات من”الفتاویٰ الہندیۃ“
[نزہۃ الخواطر ج7ص546رقم الترجمہ941]
کہ علامہ کاکوروی رحمہ اللہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔جن میں فتاویٰ عالمگیری کی کتاب الجنایات پر فارسی زبان میں ایک بسیط اور مفصّل شرح ہے۔
اردو ترجمہ: ہندوستان کے نامور قانون دان سید امیر علی نے فتاویٰ عالمگیری کا اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت
حاصل کی۔
قارئین کرام! مترجم مرحوم مسلکاً غیرمقلد[اہل حدیث]تھے فقہ وفقہاء سے حسن عقیدت نہ رکھتے تھے مگر فتاویٰ عالمگیری کی فقہی اہمیت اور بےپناہ مقبولیت سے متاثّر ہوکر انہوں نے اس کا اردو ترجمہ کرنا اپنے لیے باعث فخر وسعادت سمجھا۔یہ الگ بات ہے کہ مترجم مرحوم بعضے مقامات پر فقہ سے تعصب کو چھپا نہ سکے۔بہرحال اللہ تعالیٰ مترجم کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور مغفرت فرمائے
قارئین کرام! مترجم مرحوم مسلکاً غیرمقلد[اہل حدیث]تھے فقہ وفقہاء سے حسن عقیدت نہ رکھتے تھے مگر فتاویٰ عالمگیری کی فقہی اہمیت اور بےپناہ مقبولیت سے متاثّر ہوکر انہوں نے اس کا اردو ترجمہ کرنا اپنے لیے باعث فخر وسعادت سمجھا۔یہ الگ بات ہے کہ مترجم مرحوم بعضے مقامات پر فقہ سے تعصب کو چھپا نہ سکے۔بہرحال اللہ تعالیٰ مترجم کی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور مغفرت فرمائے