

امراض میں تحريک کا مطلب
تحريك كا مطلب
تحریک کا مطلب ہے حرکت کرنا مگر طب کی زبان میں جس عضو کے متعلق کہا جائے کہ فلاں عضو میں تحریک ہے۔ اس کا
مطلب ہے کہ اس عضو کا فعل تیز ہو گیا ہے۔
وہاں خون کی توجہ زیادہ ہوگی یعنی خون اس عضو کی طرف زیادہ آرہا ہو گا اس حالت میں خون بار بار اس عضو تک پہنچ کر ٹھو کر لگاتا ہے خون کی بار بار کی ٹھو کر اور توجہ سے وہ عضو اپنے فعل میں تیز ہو جاتا ہے اور اس سے متعلقہ خلط زیادہ مقدار میں بن کر خون میں جمع ہونے لگتی ہے اور اس عضو کی سردی سکون اور اجتماع رطوبات ختم ہونے لگتا ہے۔
جو خلط خون میں زیادہ ہو گی اس کی علامات پید اہو جائیں گی۔ یادر ہے کہ خون میں تحریک تسکین تحلیل ساری عمر جاری رہتی ہے۔ حالت صحت میں تو جسم کے اندرونی خلیات خون سے آکسیجن گیس لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس خارج کرتے رہتے ہیں اور یوں زندگی کا مسلسل عمل جاری رہتا ہے۔
تحريك كي غير طبي حالت
جب خلیات کا یہ نظام بر قرار نہیں رہتا اور خلیات کاربن گیس کو خارج نہیں کرتے تو قوت مدبرہ بدن ان خلیات کو سیکٹر نے لگتی ہے اور اعضاء میں پھڑکن کی علامات واضع ہو جاتی ہے اگر خلیات کاربن گیس خارج کر لیں اور آکسیجن جذب کر لیں تو یہ پھڑ کن بند ہو جاتی ہے۔ ورنہ قوت مدبرہ بدن سے خلیات کی سیکٹر زیادہ ترقی کرتی ہے اور خلیات کی سیکٹر تحریک کو جنم دیتی ہے اور مفرد عضو چونکہ خلیات کا مجموعہ ہے اس لیے خلیات کی حرکت مفرد عضو میں تحریک کا سبب بنتی ہے۔
باب اول
پہلا درجہ
تحریک کے درجات
جرول
مفرد عضو کے خلیات کی کار بن خارج کرنے کی قوت ” قوت مدبرہ بدن خلیات کو سیکڑتی ہے اعضاء کی پھڑکن کی علامات واقع ہو جاتی ہیں اگر مفرد عضو کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو تو جسم میں ایک سرسراہٹ کی پیدا ہوتی ہے جسے پنجابی میں جرول و جلون کہتے ہیں
استاد محترم ملک خیر دین ڈوگر فرماتے ہیں کہ !
اگر مادہ کمزور ہو اور وہ اپنے اثرات سے وہی کیفیت پیدا کر سکتا ہو تو جسم میں گدگدی یا جلون کی پید اہوتی ہے۔ اگر کیفیاتی اخلاطی و کیمیاوی اثرات اور قوت مدبرہ بدن اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یہ کیفیت رفع ہو جاتی ہے اور یہ علامات یہیں ختم ہو جاتی ہیں۔
دوسر ادرجه
لذت يا (سرور)
اگر جرول کی یہ غیر طبعی تحریک مزید بڑھ کر سارے جسم یا جسم کے خاص حصہ میں احساس و سرور کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے جو
ایک عام و قوع پذیر علامت ہے۔ اس احساس سرور کو ہر چھوٹا بڑا خاص و عام اچھی طرح جانتا اور محسوس کر لیتا ہے۔ بلکہ ایک نوازئیدہ بچہ بھی اس کا اظہار کھلے عام کرتا ہے قوت مدبره بدن جو بدن کی غیر طبعی حالت کو بدلنے میں مددگار کے طور پر کام کرتی ہے اور کیفیاتی اخلاطی و کیمیاوی اثرات جو موافق تحریک ہوتے ہیں غیر طبعی تحریک کے اثر جرول کو ختم کر دیتے ہیں۔
تیسر ادرجہ
خارش
اگر قوت مد بره بدن و کیفیاتی اخلاطی و کیمیاوی اثرات تحریک کے غیر طبیعی اثر سرور کو ختم نہ کر سکے تو اس کا احساس ترقی کرتا ہوا
اگلے مرحلے میں اور زیادہ بڑھتا ہے تو خارش کا احساس ہوتا ہے اور ہم طبیعت کی مدد کے لیے خارش کرتے ہیں جس طرح خارش کا اظہار ایک نوزائدہ بچہ سے لیکر ایک بوڑھا آدمی تک کرتا ہے اسی طرح خارش ایک آدمی تحریک کی غیر طبیعی حالت میں شعوری و لاشعوری طور پر کرتا ہے۔ اگر کیفیاتی و اخلاطی و کیمیاوی اثرات اور قوت مدبرہ بدن جس سے ہم طبیعت کی مدد کرتے ہیں اسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ کیفیت یہیں ختم ہو جاتی ہے اور یہ علامت بھی یہیں ختم ہو جاتی ہے۔
چوتھا درجہ
بے چینی
اگر کیفیاتی و اخلاطی و کیمیاوی اثرات اور قوت مدبرہ بدن جس سے ہم طبیعت کی مدد کرتے میں اسے ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو تو یہ کیفیت و علامات بھی یہیں ختم نہیں ہو تیں اور مواد غیر طبعی کے زیادہ جمع ہونے سے خارش اور بھی شدید ہو جاتی ہے اور طبیعت مد برہ بدن کی تیسری کوشش بھی نہ کام ہو جاتی ہے تو پھر چوتھی علامت بے چینی شدید اضطراب کی صورت میں محسوس ہوتی ہے جب خارش زیادہ بڑھتی ہے تو بے چینی بھی زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔
پانچواں درجہ
اگر مفر و عضو کے خلیات اپنے اندر جمع ہونے والے غیر طبعی مودا کو اپنی قوت مدبرہ بدن سے جسم سے خارج نہ کر سکیں تو بے چینی مزید بڑھ جاتی ہے اور قوت مد برہ بد ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہو جاتی ہے تو رطوبات میں رکاوٹ پید اہو ناشر وع ہو جاتی ہے اور مریض کو جبس یعنی گھٹن کا احساس ہوتا ہے کسی مفرد عضو میں رطوبات کی جبس بڑھتی ہے تو خون میں آکسیجن کم اور کار بن زیادہ ہونے لگتی ہے اور مفرد عضو میں سیکٹر پید اہو نا شروع ہو جاتا ہے جس دراصل گھٹن کا احساس ہے جو بے چینی کے بعد پید اہوتا ہے اور اس کے بعد عضو کی طرف خون کا دورہ بڑھنے لگتا ہے مگر اس کا اخراج بند ہوتا ہے۔
چھٹا درجہ
سوزش
یہ گھٹن کے بعد خون کا دورہ اس طرف زیادہ بڑھتا جاتا ہے لیکن اس عضو میں رطوبات کی حبس یعنی رطوبات کی رکاوٹ بڑھتی ہے تو خون میں آکسیجن کم اور کار بن گیس زیادہ ہونے لگتی ہے تو وہاں سوزش ہو نا شروع ہو جاتی ہے اور اس عضو میں خون کی رکاوٹ ہونے لگتی ہے۔ کسی مفرد عضو میں خون کا رکنا اصل میں اس عضو میں انقباض پیدا ہوتا ہے در حقیقت یہ کسی عضو کی زندہ ساخت پر کار اس کے خلاف قوت مدبرہ بدن کی ایک منتظم مدافعانہ تدبیر ہوتی ہے۔ جب کسی عضو کی طرف خون کا دورہ بڑھے مگر اس کا اخراج بند ہو تو وہاں سوزش و جلن کا احساس ہوتا ہے سوزش کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے نسیجی و عضوی اور کیمیاوی تبدیلیوں کو جاننا ضروری ہے جو انسانی جسم میں رونما ہوتی ہے۔
سوزش میں پانچ علامات ہوتی ہیں
حبس (گھٹن)
(1
جلن (جلنا)۔
2 گرمی (گرمی)۔
(3
(4
سرخی۔
رطوبت۔
(5) تبدیلی کے افعال۔
جلن (جلنا)
سوزش کے معنی جلن کے ہیں اور یہ سوزش کی ایک واضح علامت ہے یہاں یہ بھی یادر ہے کہ اس جلن کو التہاب کے معنوں میں نہیں بلکہ احساس و تکلیف اور الم کے معنوں میں لیا جاتا ہے در حقیقت یہ درد بھی جلن کی تیزی کی علامت ہے اس درد میں خارش بھی شامل ہوتی ہے اور جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ لذت بھی ایک قسم کی ایک ملکی خارش ہے اور یہ بھی جلن میں شمار کی جاتی ہے۔
ہر قسم کا درد صرف جلن سے پیدا نہیں ہو تا بلکہ درد کی حقیقت یہ ہے کہ مقام درم کی عرق شعر یہ میں خون حد اعتدال سے زیادہ ہو جاتا ہے تو وہاں سوزش پید ا ہو جاتی ہے جو بذات خود ایک ہلکی قسم کا درد ہے اس کی جلن ہی دوران خون کو اس طرف تیز کر دیتی ہے اور اس طرح خون کی زیادتی سے رگوں کے پر دے میں پھیلے ہوئے اعصاب تن کر دب جاتے ہیں اور درد کرنے لگتے ہیں۔
حرارت (گرمی) حرارت گرمی کا احساس ہے جو کسی جسم کو چھونے سے ہوتا ہے۔ چونکہ مقام سوزش کی طرف دوران خون تیز ہوتا ہے اور
وہاں خون اکٹھا ہو نا شروع ہو جاتا ہے اس لیے وہ مقام چھونے سے گرم محسوس ہوتا ہے۔
سرخی
اس کا تعلق خون سے ہوتا ہے ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ مقام سوزش کی طرف اجتماع خون ہورہا ہوتا ہے اس لیے اس مقام پر سرخی لازمی ہوتی ہے جب سوزش کا ابتدائی دور ہو تا ہے تو سرخی کا رنگ شوخ گلابی ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ جب دوران خون میں ستی واقع ہو جاتی ہے تو اس مقام کے رنگ میں سرخ زردی یا سرخ سیاہی آجاتی ہے جب سرخی کے ساتھ زردی نمودار ہوتی ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں تیزابیت کم ہو گئی ہے اور صفراء زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ خون کی باد نسیم (آکسیجن ) کم ہو جائے تو پھر سرخی اپنے اندر تیزابیت رکھتی ہے اور جب خون سیاہی مائل ہو جاتا ہے جو اس امر کی علامت ہے کہ وہاں کار بن بڑھ رہی ہے اور تیزابیت رفتہ رفتہ خلیات کو جلارہی ہے اور جلے ہوئے خلیات کی سیاہی مائل رنگت ظاہر ہونے لگتی ہے۔
رطوبات
یہ وہ رطوبت ہے جس کا ترشح جسم کی غذا بنتا ہے۔ یہ رطوبت طلیہ (شبنم) یہ رطوبت قدرتی طور پر جسم میں مختلف جگہ پر ترشح پاتی ( ہے اور حالت صحت میں طبعی طور پر انسان کے جسم کے اندرونی و بیرونی اعضاء پر رطوبات کا ترشح ہو تا رہتا ہے جس سے جسم کے اعضاء نرم رہتے ہیں ان رطوبات کا حاصل ترشح اعتدال کے ساتھ ہے جو صحت کے لیے بنیادی اینٹ تسلیم کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر نزلہ کو زیادہ وسعت دیں تو مختلف اعضاء مثلا ناک، کان، آنکھ حلق کی رطوبات کی زیادتی نزلہ میں شمار ہو سکتی ہیں یونہی مخرج سے نکلنے والی رطوبات مثلاً پسینہ پیشاب اور اسہال اور تحلیل سے نکلنے والے پسینے پستان سے نکلنے والے دودھ وغیرہ کی رطوبات بھی نزلہ کی صورتیں ہیں اس طرح مردانہ یا زنانه عضوی امراض و علامات مثلاً جریان سیلان استحاضہ مذی ودی و غیرہ کو سامنے رکھا جائے تو یہ بھی نزلہ کی مختلف صورتیں ہیں جو انسانی جسم سے باہر کی طرف گرتی ہیں۔
عربی زبان میں نازل یا نزول اوپر سے نیچے آنے کو کہتے ہیں یہیں بس نہیں حضرت انسان کے اندر بھی گرنے والی مختلف رطوبات کئی قسم کی امراض و علامات بن کر سامنے آتی ہیں یہ سب کیا ہیں یہ سب کہاں سے آتی ہے یہ سب سوزش کا نتیجہ ہیں۔ جو اندرونی اعضاء میں پیدا ہو گئی ہے مثلا نزول الماء استسقاء وغیرہ یہ رطوبات ایک طرف جسم کی غذا بنتی ہیں اور دوسری طرف ان رطوبات ا سے جسم مثلاً ناک، کان، آنکھ وغیرہ میں خشکی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بیرونی جلد اور اندرونی مجاری اور جوڑوں میں خشکی وغیرہ پیدا نہیں ہوتی بلکہ پیشاب کی نالی مقعد اور رحم میں بھی یہی رطوبات بوقت ضرورت اعتدال کے ساتھ تراوٹ رکھتی ہیں۔ جب کسی حصہ جسم یا مجراء میں سوزش پیدا ہوتی ہے تو اس کو رفع کرنے کے لیے رد عمل کے طور پر یہ رطوبات اعتدال سے زیادہ کرنے لگتی ہیں اور رطوبات کا زیادہ گرنا جسم کی ایک اہم علامت ہے مختلف مقامات کی وجہ سے ان کے نام بھی مختلف ہیں یعنی رطوبت طلیہ کی بجائے اس کو رطوبت دمویہ کا نام دیا گیا ہے۔
مثلار طوبات دمویہ سوزش یاورم پر آکر اس کی کار بن گیس اور تیزابیت کو دھو کر ہلکا کر کے جسم سے خارج کرتی ہے تو طبی زبان میں اس کو ر طوبت غلیظہ کہتے ہیں اگر یہ رطوبت آنکھ سے گیڈ بن کر ۔ ناک سے نزلہ وزکام کی صورت میں ۔ منہ سے رال یا کھنگار بنکر ۔ اور معدے میں رطوبت غلیظ کی صورت میں۔ اور انتڑیوں میں دست و اسہال کے ساتھ سفید لیس دار خارج ہو تو اس کو ڈاکٹر میوکس اور حکیم لوگ اور عوام چر بیلا مواد کہتے ہیں۔ اگر اس رطوبت غلیظ کو جلد بازی میں بند کر دیا جائے تو جسم میں اندر یا باہر لمفاوی گلٹیاں بنے لگتی ہے تو حکیم سادہ رسولی اور ڈاکٹر لائی پوما کہتے ہیں۔ کینسر ماء فی الصدر (سینہ میں پانی پڑ جانا) مافی الدماغ ( دماغ میں پانی پڑ جانا) ریڑھ کی ہڈی میں پانی پڑ جانا) یہ سب اندرونی سوزش اور رطوبت کی زیادتی کی مثالیں ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ بذات خود امراض نہیں لیکن بعض امراض کی علامتیں ہیں ان علامات کا علاج اس مفرد اعضاء کی سوزش کو رفع کرتا ہے مگر فرنگی طب ان تمام علامات کو جدا جدا امراض سمجھتی ہے اور ان کا علیحدہ علیحدہ علاج تجویز کرتی ہے جب امراض کو ہی غلط سمجھا گیا تو ان کا علاج وہ خاک کرے گی۔ اور اگر ہماری یہ بات غلط ہو تو ہم چیلنج کرتے ہیں۔
رطوبات كي تشريح
رطوبات وہ سیال مائع ہے جس میں مختلف حل پذیر مادے ملے ہوتے ہیں۔ جو انسانی جسم کے اعضاء پر ترشح پاتی ہے یا جسم سے خارج ہوتی ہے مثلاً ناک سے زکام منہ سے رال وغیرہ یہ سب خون سے جدا ہو کر ہی خارج ہوتی ہیں جب یہ اندرونی اعضاء پر شبنم کی طرح گرتی ہیں تو یہ رطوبت طلبہ اور رطوبت دمویہ کہلاتی ہیں ماڈرن میڈیکل سائنس میں اس کو پلازمہ خون کا آبی رفیق حصہ کہتے ہیں یہی رطوبت عروق شعریہ کی دیواروں سے تراش پا کر خون سے علیحدہ ہوتی ہے تو اس تراش شدہ آب خون کو لمف بھی کہتے ہیں۔
انگریزی طب کی غلط فہمی
انگریزی طب اس پلازمہ کو جسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی خون کا وہ آبی حصہ جو انسانوں کے اعضاء پر ترشح پاتا ہے اسے لمف کا نام دیتی ہے۔ یہ بالکل غلط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پلازمہ دراصل خون کی ایک ایسی مائیت و پتلا پانی ہے جس میں خون کے تقریبا تمام اجزاء بمعہ سرخی انتہائی باریک ذرات اور گیسیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ وہ مائیت ہوتی ہے جس میں انسانی جسم کے لیے حرارت اور غذائیت موجود ہوتی ہے یہ رطوبت جسم میں جہاں اس کا بدل ما تقلل بنتی ہے وہاں یہ شفائی عمل بھی پیدا کرتی ہے یعنی یہ جسم کی سوزش کو بھی رفع کرتی ہے اور اس طرح یہ بے شمار امراض کو ختم کر دیتی ہے۔
لیکن لمف اس رطوبت کو کہتے ہیں۔
جو تغذیہ و نسیم اور معدہ کی تحلیل کے بعد بچ جاتی ہے۔
لمف میں حرارت نام کو بھی نہیں ہوتی۔
کیمیاوی طور پر پلازمہ میں تیزابیت اور لمف میں کھاری پن غالب ہوتا ہے بلکہ انصاف تو یہ ہے کہ اسے لمف کی بجائے صرف ترشح کہنا ہی بہتر ہے اس کا نام لمف تو صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب یہ جسم کی ضرورت سے بچ جاتی ہے تو غدد جاذبہ اسے جذب کر کے پھر درستگی کے لیے خون میں ملا دیتے ہیں اس لیے اس کا نام لمف رکھا گیا۔
اب یہ واضح ہو گیا ہے پلازمہ جو رطوبت طلیہ ہے اور لمف جو ر طوبت جاذبہ ہے یہ دونوں مختلف رطوبات ہیں مگر انگریزی
طب کو داد دینی پڑتی ہے جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ کہتی ہے مگر حقیقت سے کتنی دور ترقی کر گئی ہے۔