You are currently viewing قانون مفرد اعضاء  خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت
قانون مفرد اعضاء خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت

قانون مفرد اعضاء خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت

قانون مفرد اعضاء
خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت

قانون مفرد اعضاء خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت
قانون مفرد اعضاء
خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت

قانون مفرد اعضاء
خاصیت اٍفادیت اور وقت کی ضرورت
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو

قانون مفر د اعضاء کی تعریف

نظریہ مفرد اعضاء کی ایک ایسی تحقیق ہے جس سے ثابت کیا گیا ہے کہ امراض کی پیدائش مفر اعضاء یعنی گوشت ،پٹھے اور غدد میں ہوتی ہے ۔اور اس کے بعد مرکب اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط اور ضعف پیدا ہوجاتا ہے ۔ علا ج کی صورت میں انہی مفرد اعضاء کے افعال درست کر دینے سے حیوانی ذرہ خلیہ یا سیل (Cell) سے لے کر عضوِ رئیس تک کے افعال درست ہوجاتے ہیں بس یہی ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘ہے۔
مجدد طب ؒ نے ایک تہائی صدی تک متواتر شب و روز تحقیق و تجدید پر محنتِ شاقہ صرف کی ۔طب کے بحرِعمیق میں اتر کر نیا گوہر نایاب تلاش کیا ۔جسے ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘کا نام دے کر دنیا ئے طب کی خدمت میںپیش کر دیا ___جو اَب’’ قانون مفرد اعضاء ‘‘کے نام سے موسوم و معروف ہو چکا ہے ۔

قانون مفرد اعضاء کا مقصد

طب قدیم کا علم و فن تشخیص و تجویز کے سلسلے میں کیفیات و امزجہ و اخلاط تک ہی محدود تھا اور ماڈرن میڈیکل سائنس اس ایٹمی دور تک اپنی تدقیقی تحقیقات کے نتیجے میں صرف منافع الاعضاء (PHYSIOLOGY)کا ہی کارنامہ انجام دے سکی ۔ جب کہ مجدد طب ؒ نے کیفیات ،امزجہ اور اخلاط کو مفرد اعضاء سے تطبیق دیتے ہوئے طب کو اس انداز میں پیش کیا کہ ایک طرف طب قدیم کی اہمیت واضح ہو گئی اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ جس طریقہ علاج میں کیفیات امزجہ اور اخلاط کو مد نظر نہیں رکھا جاتا وہ نا صرف غلط بلکہ غیر علمی ،غیر سائنسی اور عطائیانہ علاج ہے ۔کیفیات ، امزجہ اور مفرد اعضاء کی باہمی تطبیق سے طب قدیم میں زندگی پیدا ہوگئی اور ساتھ ہی اعضاء کے افعال کے علاج و درستی کی صورت سامنے آگئی جس کے نتیجے میں تجدید طب کا سلسلہ قائم ہوگیا اور ’’نظریہ مفرد اعضاء ‘‘قدیم و جدید جملہ طریقہ ہائے علاج (طبوں ) کے لئے معیار اور کسوٹی بن گیا ہے ۔

قانون مفردا عضاء کی تشریح :

نظریہ مفرد اعضاء میں حیوانی ذرہ (CELL)کو جسم کی بنیاد اول (فرسٹ یونٹ ) قرار دینے کے بعد کیفیات ،امزجہ اور اخلاط کو مفرد اعضاء سے تطبیق دے کر ان کے تحت امراض و علامات کی ماہیت و حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
ماڈرن میڈیکل سائنس (فرنگی طب )نے بھی جسم انسانی کی اصل بنیاد پہ چار انسجہ(TISSUES)تسلیم کئے ہیں ۔جن کو
اعصابی انسجہ (NERVOUS TISSUES)
عضلاتی انسجہ(MUSCULAR TISSUES)
قشری انسجہ (EPITHELIAL TISSUES)
الحاقی انسجہ (CONNECTIVE TISSUES)کہتے ہیں ۔
مجدد طب و بانی نظریہ مفرد اعضاء حضرت صابر ملتانی ؒ نے ان چاروں انسجہ کو چاروں اخلاط سے تطبیق دے دی ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء میں مفردا عضاء اور اخلاط ایک ہی چیز ہیں یا بالفاظ دیگر مفرد اعضاء مجسم اخلاط ہیں ۔خلیات یا حیوانی ذرات (CELL) سے انسجہ TISSUES) ، انسجہ سے مفرد اعضاء (SIMPLE ORGANS) اور مفرد اعضاء سے مرکب اعضاء (ComPOUND ORGANS) بنتے ہیں ۔ غرضیکہ خلیہ ہی سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے اور مختلف قسم کے خلیات کے ملاپ سے جسم کی تکمیل ہوتی ہے ۔ گویا اناٹومی (ANOTOMY)کے پہاڑوں کو قانون مفرد اعضاء کے ریڈار نے ڈھانچہ دماغ ،جگر اور قلب کے روپ میں دکھا کر دنیائے طب کی شرح صدر کردی ہے ۔ قدرت نے اعضاء کی ترتیب و ترکیب یوں رکھی ہے کہ
’’اعصاب ‘‘ اوپر رکھے ہیں اور ہر قسم کے احساسات ان کے ذمہ ہیں ۔
’’غدد‘‘ کو درمیان میں رکھا ہے اور غذا کی ترسیل ان کے ذمے ہے۔
’’عضلات ‘‘ سب سے نیچے (اندر) رکھے ہیں اور تمام قسم کی حرکات ان سے متعلقہ ہیں ۔
بس یہی طبعی افعال سر انجام دیتے ہیں ۔اور نظریہ مفرد اعضاء کے مطابق اعضائے رئیسہ دل ،دماغ اور جگر حیاتی اعضاء (LIFE ORGANS) ہیں جو کہ بالترتیب عضلات ، اعصاب اور غدد کے مراکز ہیں ۔ ان کے افعال میں افراط ، تفریط اور ضعف سے امراض پیدا ہوتے ہیں ۔اور انہیں مفرد اعضاء کے افعال درست کر دینے سے ایک حیوانی ذرہ (CELL)سے لے کر عضوِ رئیس تک کے افعال درست ہوکر صحت قائم اور ’’تن‘‘درست ہوجاتا ہے ۔ ’’تن درستی ‘‘ ہی طب کا مطلوب و مقصود ہے ۔

نظریہ مفرد اعضاء کا تخلیقی اصول

یہ نظریہ فطرت کا ایک اصول ہے جو مادہ اور جوہر سے ماخذ ہے ۔’’یعنی جوہر سے مادہ پیدا ہوتا ہے ‘‘گویا مادہ کی اصل جوہر ہے اور ہر چیز اپنی اصل کی طرف راجع ہوتی ہے ___’’کل شیء یرجع اصلہ ‘‘ ۔
اس لئے جوہر و مادہ اپنے افعال و اثرات کی حیثیت سے یکساں یعنی ایک جیسے خواص و فوائد رکھتے ہیں ۔مراحل کے لحاظ سے جو ہر مادہ ،مادہ سے عنصر ،عنصر سے خلط ،خلط سے مفرد عضو اور مفرد اعضاء کے مجموعے سے جسم ترکیپ پاتا ہے ۔ گویا جوہر مجسم ہو کر مادہ بن جاتا ہے جب مادہ میں تخصیص ہوتی ہے تو وہ عنصر بن جاتا ہے اور عناصر محلول بن جاتے ہیں تو اخلاط پیدا ہوتی ہیں اور اخلاط مجسم ہو کر مفرد اعضاء بن جاتے ہیں یہی مفرد اعضاء علم الابدان اور فن طب کی بنیاد ہیں ۔

محرکاتِ زندگی

جسم میں اعضائے کا کنٹرول اعضائے رئیسہ ___دل، دماغ اور جگر ___ کے پاس ہے ۔
اگر جسم میں رطو بت زیا دہ ہوگی تَو وہ اعصاب کو تیز کر دے گی ۔ اگرحرارت زیا دہ ہو گی تَو وہ غدد کو تیز کر دے گی ۔ اسی طرح اگر ہوا(ریاح) کی زیادتی ہو گی تَو وہ عضلات کے فعل کو تیز کر دے گی۔
اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ :
مرطوب اغذیہ اعصاب میں تقویت پیدا کر تی ہیں ۔ گرم اغذیہ غدد کو طا قت دیتی ہیں ۔ خشک اغذیہ مقویٔ عضلات ہیں ۔
یا دوسری لفظوں میں :
اگر جسم میں رطو بات بڑھ جا ئیں تَو اعصاب میں تحریک بڑھے گی ۔ حرار ت بڑھ جا ئے تَو غدد و جگر میں تحریک بڑھ جا ئے گی۔ خشکی و ریاح کا غلبہ ہو تَو عضلا ت میں تحریک بڑھ جا ئے گی۔
اس کے بر عکس:
اعصاب کے فعل میںتیزی سے رطو بات بڑھ جا تی ہیں ۔ غدد کے فعل میں تیزی سے حرارت بڑھ جا تی ہے ۔ عضلا ت کے فعل میں تیزی سے خشونت و ریاح بڑھ جا تے ہیں ۔
گو یا اعضائے رئیسہ __ رطو بت ،حرارت اورہوا __ لازم وملزوم ہیں اوریہی تینوں فطری اجزاء ہیں ، جو کا ئنات میں با رش ، آندھی اور گر می کی صُورت میں نظر آ تے ہیں ۔ ثابت ہوا کہ محرکاتِ زندگی صرف تین ہیں :
ہوا ، آگ ، پانی یعنی ریاح ، حرارت ، رطوبت
ریاح (ہوا) محرکِ عضلا ت ، حرارت محرکِ غدد اور رطوبت محرکِ اعصاب ہے ۔
کسی طب کے اصولی ، با قاعدہ ا ور فطری ہو نے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مشینی اور کیمیا وی دونوں صورتیں پا ئی جائیں۔ قانون مفرد اعضا ء کا یہی کمال ہے کہ اس میں مشینی اور کیمیا ری صورتوں کے ساتھ ساتھ کائنات کے ارکان و امزجہ اور قویٰ و ارواح کی تمام صورتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں ۔ گو یا زندگی اور کائنات کے ذروں کو ایک دوسرے میں سمو دیا گیا ہے ۔ یعنی اگر کا ئنات کا ذرہ بھی حرکت کر تا ہے تَو زندگی پر اثر انداز ہو تا ہے ۔ اگر زندگی کے ذرے میں حرکت پیداہو تَو کائنات تک کو متا ثر کر تا ہے ۔ کا ئنات میں پا ئی جا نے والی تمام اشیا ء کے مزاج میں دودو کیفیات پا ئی جا تی ہیںجیسے کو ئی گرم خشک ، کو ئی گرم تر اور کو ئی خشک سردوغیرہ ۔ یہی کیفیات موسم کی صورت میں دُنیا بھر کی اغذیہ ، ادویہ اور دیگر اشیاء کی نمودکا با عث بنتی ہیں ۔
نباتات انسان و حیوان کی بہترین خوراک ہیں ۔ بعض نباتا ت اگر چہ انسان کی خوراک نہیں ، لیکن یا تَو وہ ادویہ کا روپ دھا ر لیتی ہیں یا پھر حیوانات کی غذا بنتی ہیں ، پھر یہ حیوانات انسان کی غذا بنتے ہیں ۔ غرضیکہ اسی آب و ہوا کے عمل دخل سے یہ انواع و اقسام کی اغذیہ و ادویہ حاصل ہو تی ہیں ۔یہی اغذیہ نظامِ انہضام سے گزر کر خون کا روپ دھا ر لیتی ہیں ۔ ثابت ہوا کہ آب و ہوا کیفیات کامجموعہ ہے ۔ انسانی مزاج بھی کیفیات ہی کا مجموعہ ہے ۔ مظاہرِ قدرت کی روشنی میں سال بھر کے مہینوں کی موسمی تبدیلیوں کا گیا رہ (۱۱) سالہ ڈیٹا لے کر اس کا اوسط نکالا گیا، جس سے موسم کی سالانہ تبدیلیوں کا نقشہ کھل کر سامنے آگیا ۔ قدرت موسم کی دونوں کیفیتوں کو ایک دم نہیں بدلتی بلکہ گرمی خشکی حد سے تجا وز کر جا ئے تَو بر سات کے ذریعے اسے گرمی تری میں بدل دیا جا تا ہے ۔
جو نفس میں ہے ، وہی آفاق میں ہے کی مسلمہ حقیقت کے تحت انسانی جسم الوجود کا کو ئی موسم حد سے تجاوز کر تا ہے تَو امراض پیدا ہو تی ہیں ۔ فطرت کے اس قانون پر غور کر نے سے درس ملتا ہے کہ جسم کا جو مزاج حد سے تجا وز کر گیا ہے ، اس کی ایک کیفیت بدل دو یعنی اگر مزاج گرم خشک ہے تَو اسے گرم تَر کر دو ، جسم کے تمام دُکھ دُور ہو جا ئیں گے ۔ اس طرح جسم الوجود کے مزاج کو بھی ہم موسم کا نام دے سکتے ہیں۔جیسے فروری کا موسم خشک سرد ہو تا ہے ، اسی لئے اس ماہ میں لوگ خشک سرد کیفیات سے پیدا ہونے والی امراض کا شکا ر ہو تے ہیں ۔ مثلاً انسانی جلد کا خشکی سردی سے پھٹنا ، خصوصاً چہرہ ، ہا تھ ، تشقق الشفتین ، پا ؤں کی ایڑیاں پھٹنا ، ضیق النفس وغیرہ ۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ ایسا کچھ ان لو گوں کے ساتھ ہو تا ہے ، جس کے جسم کا اندرونی موسم بھی عضلاتی اعصابی یعنی خشک سرد ہو تا ہے ۔

امراض و علا ما ت کا فرق

اعضاء کے افعال میں بگاڑ کا نام مرض ہے ۔ جسمِ انسانی میں جو اعضاء اپنے افعال صحیح انجام نہیں دے رہے ، ان سے جسمِ انسانی کی طرف جو صورتیں دلا لت کر تی ہیں ، بس وہی علا ما ت ہیں ۔ مثلاًوجع المعدہ کو مرض قرار دینا غلط ہے ۔ مرض عضلاتی سوزش ہے ، اور علامت وجع المعدہ ۔
امراض صرف اعصاب و غدد و عضلات میں تحریک و تیزی اور سوزش و ورم کا نام ہے ۔ اس کو زیادہ وسعت دی جا ئے تَو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے ، امراض مفرد اعضاء کے افعال میں افراط و تفریط اور ضعف کا نام ہے ، با قی سب علامات ہیں ۔

تشخیص

قانون مفرد اعضاء میں تشخیص کے لیے اعصاب ، غدد اور عضلات کے آپسی تعلقات سے چھ تحاریک تحقیق کی گئی ہیں:
۱۔ اعصابی عضلاتی ۲۔ عضلا تی اعصابی
۳۔ عضلا تی غدی ۴۔ غدی عضلاتی
۵۔ غدی اعصابی ۶۔ اعصابی غدی
جسمِ انسانی کی تقسیم بھی چھ حصوں میں کر دی گئی ہے :
ہر چھ تحاریک کی علامت کو سر سے لے کر پاؤں تک نکھیڑ کر بیان کر دیا گیا ہے ۔ علامات کی یہ تقسیم امراض کی تشخیص کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
قانون مفرد اعضاء میں ہر تحریک کی نبض مقرر ہے :معالج بڑی آسانی سے چھ قسم کی نبض پر دسترس و عبور حاصل کر لیتا ہے۔ جس سے نبض دیکھ کر امراض کا بیان کر دینا اور تفصیلا ت کا ظا ہر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
قارورہ کے رنگ ، مقدار ، قوام اور بُو کو مدِ نظر رکھ کرتشخیص کا آسان طریقہ بیان کر دیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ علم و فنِ طب میں قارورہ سے تشخیص کو مفرد اعضاء کے تحت پہلی با رقانون مفرد اعضاء نے بیان کیا ہے ۔
سال بھر کے موسموں کی فطری تقسیم اور پھر ان سے پیدا ہو نے والی امراض کی نشاندہی قانون مفرد اعضاء کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔
ہر مرکب عضو میں جس قدر امراض پیدا ہو تے ہیں ، ان کی جُدا جُدا صورتیں تحقیق کی گئی ہیں ۔ ہر صورت کی علا ما ت بھی جُدا جُدا ہیں ۔ فوراً ٰیہ پتہ چل جا تا ہے کہ اس عضو کا کو نسا حصہ بیما ر ہے اور اس کا علاج آسانی سے کیا جا سکتا ہے ۔
انا ٹمی تشریح الابدان کا نام ہے اور پتھا لو جی کا مطلب یہ ہے کہ ایسا علم جو اعضاء کے افعال میں رونما ہو نے والے تغیّر و تبدّل اور کمی و بیشی کو بیان کرے ۔
ماڈرن میڈیکل سائنس میں تشریح الا بدان کی لمبی چوڑی تشریحات کے با وجود تشخیص و علاج میں سر ، آنکھ ، ناک ، کان ، گلا اور منہ الغرض سر سے لے کر پا ؤں تک کے تمام اعضاء کا جو سلسلہ ہے ، ان سب کو ایک ہی قسم کے ٹھوس اعضاء سمجھ لیا جا تا ہے جبکہ اناٹمی اور فزیالوجی میں رگ ، پٹھہ ، ریشہ ، غشاء اور حجاب کوجُدا جُدا بیان کیا جا تا ہے لیکن ماہیتِ امراض (پتھالوجی) اور علاج الامراض میں پورے کو پو رے عضو کو مدِ نظر رکھا جا تا ہے ۔
پیٹ میں نفخ ہو یا قے ، جو ع البقر ہو یا جو ع الکلب ، تبخیر ہو یا ہچکی ___ بس یہی کہاجا ئے گاکہ پیٹ میں خرابی ہے ۔ ان علامات میں اعضائے غذائیہ کی شاذ ہی تشخیص کی جا ئے گی ۔ اور اگر کسی ’’روشن دماغ‘‘ اہلِ فن نے پیٹ کی خرابی میں معدہ و امعاء ، جگر و طحال اور لبلبہ وغیرہ کی تشخیص کر بھی لی تَو اس کو بڑا کمال خیال کیا جا ئے گا لیکن اس حقیقت کی طرف کبھی خیال نہیں جا ئے گا کہ معدہ و امعاء وغیرہ خود مرکب اعضاء ہیں اور ہر ایک عضو اعصاب ، غدد ، عضلا ت اور الحاقی مادہ سے مل کر بنا ہوا ہے ۔ معدہ کے ہر مفرد عضو کی علا ما ت مختلف اور جُدا جُدا ہیں مگر ’’فلسفیانِ علاج‘‘اور ’’ماہرینِ تشخیص‘‘ کلی عضو کو سامنے رکھ کر تشخیص و علاج کا حکم لگا رہے ہیں ۔
فاعلم کہ معدہ و امعاء کے اعصاب کی تیزی و تحریک سے اسہال ، غدد کی تیزی سے پیچش اور عضلات کی تیزی سے قبض رُونما ہو گی ۔ پھر تینوں کو ایک ہی عضو سے منسوب و موسوم کر نا یا مرض تشخیص کر نا کہاں کی حکمت ہے ؟
قانون مفرد اعضاء میں امراض کی تقسیم بالاعضاء بیان کی گئی ہے ۔ اسی طرح علاج میں مفرد اعضاء کو پیشِ نظر رکھنا صرف اور صرف مجددِ طب صابر ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی تحقیقِ جدید اور عالمگیر کا رنامہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا فا ئدہ یہ ہے کہ مرکب عضو میں جس قدر امراض پیدا ہو تے ہیں ، ان کی جُدا جُدا صورتیں سامنے آجا تی ہیں ۔ اس سے فوراً پتہ چل جا تا ہے کہ اس عضو کا کو نسا حصہ بیما ر ہے ۔ اس نشاندہی سے علاج با آسانی اور یقینی کیا جا سکتا ہے ۔

اصول علاج

جسم میں کیفیات ،امزجہ ،اخلاط اور کیمیائی تبدیلیاں مفرد اعضاء کو متاثر کرتی ہیں اور ان کے افعال و اعمال کے غیر متوازن ہوجانے کا نام مرض ہے ۔ اس عدم توازن کو متوازن کردینے یا اعتدال پرلانے کا نام شفا ہے ۔اور جن طرائق و تدابیر سے یہ توازن قائم کیا جاتا ہے اس حکمت عملی کا نام علاج ہے اور یہی ’’وزنوا بالقسطاس المستقیم ‘‘کی عملی تفسیر ہے ۔
نظریہ مفرد اعضاء کا کمال یہ ہے کہ اس میں کیفیات ،امزجہ ،اخلاط و اعضاء اور ان کے افعال و اثرات اور امراض و علامات کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرودیا ہے۔مقامات جسم ،قارورہ و نبض کو امراض و علامات پر منطبق کر کے تشخیص و علاج میں آسانی یقینی اور بے خطا صورتیں پیدا کردی ہیں ۔
اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ
علمِ طب :
معدوم تھا بقراط نے ایجاد کیا
مردہ تھا جالینوس نے زندہ کیا
متفرق تھا رازی نے جمع کیا
ناقص تھا بوعلی سینا نے مکمل کیا
غیر منطبق تھا مجدد طب صابر ملتانی نے منطبق کیا
ظنی تھا حکیم انقلاب صابر ملتانی نے یقینی بنا دیا
اگر کوئی پوچھے ’’کیسے؟ ‘‘ تَو جواب حاضر ہے ـ:
مفرد اعضاء کی ارکان سے تطبیق
مفرد اعضاء کی کیفیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی مزاج سے تطبیق
مفرد اعضاء کی اخلاط سے تطبیق
مفرد اعضاء کی خلیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی اعضائے رئیسہ سے تطبیق
مفرد اعضاء کی ارواح سے تطبیق
مفرد اعضاء کی قویٰ سے تطبیق
مفرد اعضاء کی افعال سے تطبیق
مفرد اعضاء کی غذا سے تطبیق
مفرد اعضاء کی دوا سے تطبیق
مفرد اعضاء کی علامات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی امراض سے تطبیق
مفرد اعضاء کی علاج سے تطبیق
مفرد اعضاء کی فلکیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی موسم سے تطبیق
مفرد اعضاء کی نفسیات سے تطبیق
مفرد اعضاء کی قوام خون سے تطبیق
مفرد اعضاء کی دوران خون سے تطبیق
مفرد اعضاء کی نبض سے تطبیق
مفرد اعضاء کی قارورہ سے تطبیق
غرضیکہ مظاہر قدرت کا فکر سلیم کی فائیکرو سکوپ میں مشاہدہ کیا اور پھر قوت مدافعت بدن (AMUNITIES)کا تعلق اعضاء سے اور قوت مدبرہ بدن (VITAL FORCE)کا تعلق خون سے قائم کر کے ان دونوں قوتوں کی آپس میں معاونت و مماثلت اور موازنت سے عضوی اور دموی نظامات بدن میں تطبیق پیدا کردی ہے ۔ قوت مدبرہ عالم اور قوت مدبرہ بدن کو آپس میں تطبیق ۔ اسی طرح قوت مدافعت عالم اور قوت مدافعت بدن کے نظامات قدرت میں فطرت کی جلوہ نمائی دکھلا کر فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا کا صراط مستقیم دکھا دیا ہے ۔سچ پوچھو تو یہی طب نبوی اور طب اسلامی کا صراط مستقیم ہے جو کہ مختلف طریقہ ہائے علاج کی بھٹکی ہوئی طبی دنیا کو دکھلا ،بتلا اور سمجھا دیا ہے ۔ یہی علم الابدان اور فن طب کی معراج ہے ۔
اب جو معالج اس فطری طبی صراط مستقیم کو اپنا لے گا وقت کا کامیاب ترین معالج بن کر ابھرے گا اور دست شفا سے آراستہ و پیراستہ ہو کر طبی دنیا پر چھا جائے گا ۔
اصحاب بصیرت ،دلِ بینا رکھنے والو!
ذرا غوار کرو کہ اگریہ فطری تطبیق نہیں تو اور کیا ہے کہ :
پانی یعنی رطوبتت کو ہوا خشک کر دیتی ہے ۔ہوا کو آگ (حرارت )گرم کر دیتی ہے اور حرارت کو پانی یعنی رطوبت سرد کر دیتی ہیں یہ فضائی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
رطوبات سردی میں بدل جاتی ہیں ،سردی خشکی میں بدل جاتی ہے ، خشکی گرمی میں بدل جاتی ہے اور گرمی رطوبت میں بدل جاتی۔یہ موسمی اعمال کا فطری نظام عمل ہے ۔
بلغم سودا میں بدل جاتی ہے ،ریاح صفراء میں بدل جاتی ہے اور صفرا بلغم میں بدل جاتا ہے ۔یہ بدن کے عضوی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
جمادات نباتات کی غذا بنتے ہیں ،نباتات حیوانات کی غذا بنتے ہیں، اورحیوانات انسان کی غذا بنتے ہیں ۔ پھریہ سب جب اپنے انجام کو پہنچتے ہیں تو جمادات کی غذا بن جاتے ہیں ۔یہ غذائی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
اسی طرح الکلیز کو ایسڈز نیوٹرل کر دیتے ہیں ،ایسڈز کو سالٹس نیوٹرل کردیتے ہیں اور سالٹس کو الکلیزنیوٹرل کر دیتی ہے یہ کیمیائی اعمال کا فطری نظام ہے ۔
کیا دنیا کے کسی طبی سائنس دان نے قانون فطرت کی اس طرح تشریح کی ہے ، جس طرح کہ نظریہ مفرد اعضاء نے کی؟___طبی دنیا اس کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہے !
مجدد طب کا یہ نظریہ مفرد اعضاء (SIMPLE ORGANS THEORY)عین فطری (ABSOLUTELY NATURAL) اور قانون قدرت (LAW OF NATURE)سے مطابقت و موافقت رکھتا ہے ۔قانون مفرد اعضاء کے تحت آپؒ نے نہ صرف جدید تقسیم امراض اور ماہیت امراض پیش کی بلکہ جدید تشخیص اور منطقی (LOGICAL)علاج بھی سامنے لائے ۔لہٰذا بلا خوف تردید تنقید یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظریہ مفرد اعضاء ایک ایسی تحقیق ہے کہ جس کا علم نہ یورپ و امریکہ کو ہے اور نہ روس ،چین ،جاپان و جرمنی اس سے واقف ہیں ۔بلکہ فن طب میں یہ ایک عظیم الشان اور فقید المثال انقلاب ہے اور دنیائے طب جلد ہی سر تسلیم خم کر لے گی کہ صحیح طریقہ و فلسفہ علاج صرف اور صرف قانون مفرد اعضاء ہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب مجدد طب کی تحقیقات کا شہرہ اقوام عالم کے طبّی حلقوں میں تہلکہ مچا دے گا اور انشاء اللہ نظریہ مفرد اعضاء قانون مفرد اعضاء کی صورت میں تمام طریقہ ہائے علاج کی ایک کسوٹی بن کر فن طب کا امام بن جائے گا بلکہ اس سے دیگر علوم میں بھی راہنمائی حاصل کی جائے گی ۔
اب ہمارا فرض ہے کہ مجدد طب کی تحقیقات پر ایمانداری سے غور و فکر کریں ان کے جلائے ہوئے فانوس تحقیق و تجدید کے نور سے طبی دنیا کو منور کردیں ۔اس حقیقت کو کون جھٹلانے کی جسارت کر سکتا ہے کہ قدیم اور سابقہ علم العلاج کی دنیا میں اس نظریے کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ مجدد طب کا طبع زاد اور ذاتی تحقیق و محنت شاقہ کا ثمر اور صحیح معنوں میں جدید نظریہ ہے ۔ ماشاء اللہ
اس میں حیاتی ذرہ (cell)کا بھی دل و دماغ اور جگر چیرتے ہوئے اس کے ایٹمی اثرات تک پہنچ کر انرجی پاور اور فورس کا پتہ چلایا جاتا ہے گویا نظریہ مفرد اعضاء ایٹمی دور کی مکمل تصویر ہے اس سے زیادہ جدید اور جامع قانون طب ، دقیق تشخیص سسٹومیٹک ،تقسیم امراض اور تجویز علاج نہ صرف بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ۔

حقیقت حال

وہ دن دور نہیں جب طب اسلامی (قانون مفرد اعضاء ) کا سکہ تمام عالم میں چھا جائے گا اور عیار فرنگی طب جن ہتھکنڈوں ، چالاکیوں ،مکاریوں اور عیاریوں سے تیزی کے ساتھ دنیا پر چھا گئی تھی اس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ فرنگیوں کی طرح فرنگستان بھاگ جائے گی یا طب اسلامی کی خادمہ بن کر حراجوں کی طرح زخموں کی صفائی اور مرہم پٹی کرتی رہے گی ۔
انشاء اللہ
جمہور اطباء جانتے ہیں کہ ماضی میں طب کی ڈوبتی ہوئی نیا کو سہارا کس نے دیا تھا جب فرنگی طب کو شک کی نظر سے دیکھنا جہالت سمجھ لیا گیا ،جب اطباء کی اکثریت نے فرنگی طب کی فوقیت کو تسلیم کرلیا اور طب قدیم کی تجدید فرنگی طب کے مطابق کر کے اس کو فنا کرنے پر تل گئے ۔طب قدیم کے لئے یہ بہت نازک اور خطرناک موڑ تھا ۔
ذرا غور کریں
یہ پراپیگنڈہ زوروں پر تھا کہ فرنگی طب علمی ،اصولی ،سائنسی ،اور باقاعدہ ہے ۔ انگریزی دوائیں دیسی دواؤں سے افضل و اعلیٰ ہیں۔اس وقت یہ بر سر عام کہا جانے لگا کہ طب قدیم مکمل طریق علاج نہیں ہے فرنگی ڈاکٹر طب قدیم کو وحشی ، جنگلی اور غیر علمی ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا ۔جب یہ مان لیا گیا کہ طب قدیم کو جب تک طب جدید کے مطابق نہیں کر دیا جاتا ،اس ترقی یافتہ دور میں کامیابی ناممکن ہے۔
جس وقت فرنگی طریقہ علاج کو تمام طبوں کی سرپرستی سونپنے کی سازشیں ہورہی تھیں_جب فرنگی طب نے اپنی غلط اور غیر علمی (UN SCIENTIFIC) تحقیقات کا تعفن پھیلا رکھا تھا __ فرنگی طب نے جب ہمارے وسائل پر قبضہ کما کر ہماری طبی دنیا کا مالک بننا چاہا __ جب فرنگی مکار نے رجسٹریشن کے کلہاڑے سے طب اسلامی اور یونانی کو قتل کرنیکا منصوبہ بنایا __ جب لوگ کفن لئے طب قدیم کو دفن کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے ___ان کسمپرسی کے حالات میں نیم مردہ طب قدیم بے کسی اور بے بسی کے عالم میں تڑپ رہی تھی ___بے یارو مدد گار نوحہ کناں اپنے مسیحا کو پکار رہی تھی کہ مجھ پر سکوت مرگ طاری ہے کہ کوئی ماں کا لال ہے جو اپنے خون جگر سے میری آبیاری کرے ۔
طب قدیم کی اس فریاد پر ایک مرد آہن ،قانون فطرت سے آراستہ و پیراستہ عزم و استقلال کا پیکر ،فتح و نصرت کا نقیب حاضر خدمت ہو کر بولا:
میں تیرا خادم ہوں تیری خدمت کو سعادت سمجھوں گا
میں تیرا مالی ہوں تیری جڑوں کو کبھی خشک نہ ہونے دوں گا
میں تیرا عَلم بردار ہوں تیرا عَلم سدا بلند رکھوں گا
دنیائے طب جانتی ہے کہ وہ مرد مجاہد کون تھا ؟
یہ مرد مجاہد داعی حق دوست محمد صابر ملتانی ؒ تھا ،جس کو طبی دنیا اب مجدد طب اور حکیم انقلاب کے نام سے یاد کرتی ہے ۔کوئی انہیں ابن سینائے وقت ،کوئی لقمان حکمت ،کوئی مسیحِ طب ،کوئی محقق طب ،کوئی مجددِ طب ،کوئی دانائے طب، کوئی استاذالحکماء ،اور فخر الاطباء کا خطاب دیتا ہے اور کوئی انہیں طب کا بے تاج بادشاہ کہتا ہے ۔ انہوں نے طب اسلامی کو اپنے خون جگر سے سینچا ۔طب نے بھی اپنے محسن کو ہر لقب سے ملقب کر کے تاریخِ طب میں ممتاز کردیا ۔
عطائے اِلٰہی اور عنایت ربانی نے ان کو رموز حکمت اور دست شفا عطا فرما کر عنایات کی حد کردی ۔عنایات کی وہ حد جس کی کوئی حد نہیں ! ماشاء اللہ
یہ مردِ مجاہد دنیائے طب پر یہ واضح کرنے کے لئے میدان طب میں کودا کہ طب اسلامی مغربی طب سے برتر و اعلیٰ اور قانون فطرت پر قائم ہے ۔فرنگی طب غلط اور عطایانہ ہے۔
آپؒ نے چیلنج کیا کہ فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے ۔کسی میں ہمت ہے تو سامنے آئے اور اپنی حقانیت ثابت کرے مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی آپ نے عملی طور پر ثابت کردکھلایا کہ تحقیق و تدقیق اور ریسرچ صرف یورپ ،امریکہ اور چین ہی کا حق نہیں بلکہ ہر قوم کا حق ہے ۔
آپ نے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ تسلیم کرلینا کہ فرنگی سائنس جس سچائی اور حقیقت کو نہ پرکھے اور اس پر اپنی مہر ثبت نہ کرے وہ سائنس نہیں ہے ،سراسر غلط ہے ۔ بلکہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ جو علم وسائنس قرآن حکیم و حدیث شریف کے مطابق نہیں وہ غلط اور نامکمل ہے۔
آپ نے دعوتِ تسلیم حق دیتے ہوئے جب پہلی بار فرمایا کہ فرنگی طب نہ صرف غلط ہے بلکہ غیر علمی ہے تو عوام و خواص ،اطباء اور ڈاکٹروں نے ان کا مذاق اڑایا ، نفرت اور حیرت سے ان کی طرف دیکھا ۔جب آپ نے ’’فرنگی طب غیر علمی اور غلط ہے ‘‘شائع کی اور چیلنج بھی کیا تو کسی فرنگی ڈاکٹر سے جواب نہ بن پڑا بلکہ حیرت اور نفرت کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔
فتح ونصرت قانون قدرت اور فطرت کی ہوتی ہے جو لوگ ماڈرن میڈیکل سائنس کا نام سن کر گھبرا جاتے تھے اب ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ صرف بات کر سکتے ہیں بلکہ غلط اور عطایانہ علاج پر تنقید بھی کرسکتے ہیں ۔
آپ نے پے در پے تقریباً ۱۹ کتب تصنیف فرمائیں جو ایک سے بڑھ کر ایک ہے ۔ہر ایک کتاب تحقیقاتی علوم سے مالامال ہے۔حکمت اور فن طب کے ایسے ایسے رموز منصہء شہود پر لائے گئے جن سے ابھی تک اقوام عالم کے طبی سائنس دان بے خبر تھے ۔یہ کتب علوم کا بحر
بیکراں ہیں جن سے دنیائے طب ہمیشہ سیراب ہوتی رہے گی ۔
انشاء اللہ القوی العزیز

 

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply