You are currently viewing طب سےخواتین کا لگائو وقت کی اہم ضرورت
مکتوب-طبیبہ-عائشہ-عابد-ندوی-صاحبہ.jpg

طب سےخواتین کا لگائو وقت کی اہم ضرورت

مکتوب طبیبہ عائشہ عابد ندوی صاحبہ

طب سےخواتین کا لگائو وقت کی اہم ضرورت

مکتوب-طبیبہ-عائشہ-عابد-ندوی-صاحبہ.jpg
مکتوب-طبیبہ-عائشہ-عابد-ندوی-صاحبہ.jpg

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

معاشرتی طورپر رکھ رکھائو اور ایک ایسی روش جسے ایک طبقہ کو نظر انداز کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جائے وہ خواتین کو اپنی ضرورت اور ان کے مسائل کے بارہ مین کوتاہی یا مجرمانہ غفلت کہی جاسکتی ہے۔گو کہنے کو جدید تعلیم یافتہ معاشرہ میں سانس لے رہے ہیںکیا صنف نازک کی ضروریات اور ان کے مسائل کا بالخصوص طبی حوالے سے معلومات کا خاطر خواہ بند بست نہیں کیا جاتا۔نتیجتاََ خواتین کے طبی مسائل اور ان کے معاملات مین پیچیدگی پیدا ہوتی ہے ۔ گر طبی تعلیم کا مناسب بندوبست کردیا جائے تو خواتین کی گرتی ہوئی صورت حال کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ

سال ہا سال سے کوشاں ہے بساط بھر نئی نسل کو طبی شعور دیا جائے تاکہ جسمانی و نفسیاتی مسائل کو الجھنے سے پہلے ہیں قابو کیا جاسکے۔اس سلسلہ مین سہ ماہی کورسز آن لائن کا بندوبست کیا گیا۔پھر ضرورت محسوس کہ آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا جائے۔زوم پر ماہانہ کلاسز کا اجرا کردیا گیا۔
بحمد اللہ دس ممالک سے طلباء و طالبات نے دلچسپی ظاہر کی اور کلاسز کا حصہ بنے۔
انہی لوگوں میں محترمہ عائشہ عابد ندوی صاحبہ بھی ہیں۔طبی معاملات میں گہری نظر ہے جبکہ ان کا تعلق تعلیم و تعلم سے جُڑا ہوا ہے۔خواتین کی کثیر تعداد طبی مسائل کے لئے رجوع کرتی ہے کل انہوں نے جوسوالات کئے من و عن حاضر لکھتا ہوںیہ چند سطور طب کی اہمیت اور خواتین کے طبی مسائل کو سمجھنے میں معاونت کریں گے۔

مکتوب عائشہ ندوی صاحبہ
۔محترمہ لکھتی ہیں۔۔۔:”السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
استاد محترم! ہم طب سے کئی سالوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے بغیر دوا کے علاج کرتے تھے۔ جس کو کرومو تھراپی اور سوجوک تھراپی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابھی چار پانچ مہینوں سے دوا وغیرہ بھی دینے لگے ہیں۔
الحمد للہ! ایک بات جو سمجھ آئی ہے:وہ یہ کہ خواتین کے امراض کا مسئلہ کہیں نہ کہیں آکر تھائرائیڈ سے جڑا ہوا ہے۔
ہم طبّی آرٹیکلز وغیرہ بھی دیکھتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق مطالعہ سے گذری کہ شہری خواتین کا اسّی فیصد حصہ تھائرائیڈ کے مسائل سے جوجھ رہا ہے۔
میں نے خواتین میں یہی دیکھا ہے کہ ان کے جو بھی مسائل ہیں:ماہواری سے جڑی شکایات ، یوٹریس کی رسولی یا گانٹھ، چھاتی کا کینسر، کیل مہاسے، بالوں کا گرنا، غیر ضروری بالوں کا بڑھنا،بانجھ پن، ابنارمل بچوں کی پیدائش ،چہرہ کا مرجھانا، عادات اور موڈ میں بدلاؤ آنا، چڑچڑاپن، اور بچوں پر چیخ و پکار ……

یہ سارے مسائل کہیں نہ کہیں تھائرائیڈ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یا تو اس کا فنکشن تیز ہوگیا ہے، یا کہیں سست ہوگیا ہےتو اصل علاج: خواتین کے تھائرائیڈ گلینڈ کو سہی کرنا ہے، نہ کہ الگ الگ مسئلہ کی الگ الگ دوا دینا۔
تو میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا میں اپنی اس سوچ میں درست ہوں؟

آپ اپنے علم تجربہ سے میرے اس نقطہ کو درست کر دیں، اور میں خود اس سے ناواقف ہوں کہ تھائرائیڈ کے فنکشن کو کیسے ٹھیک کیا جائےتو اس جانب بھی رہنمائی کیجئے۔ مہربانی!”
خواتین کے مسائل کو ایک خاتون سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔۔ہم تہذیب اور معاشرتی رکھ رکھائو میں اس قدرگھرے ہوئے ہیں کہ صحت کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ بچے اوربچیوں کو اعلی تعلیم کے لئےمہنگے تعلیمی اداروں میں داخل کرایا جاتا ہے۔ بھاری بھرکم فیسیں ادا کی جاتی ہیں زندگی کا بہترین حصہ تعلیم کے کھاتہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔جو لوگ مذہبی رجھان رکھتے ہیں۔وہ بچے اور بچیوں کا مدارس دینہ میں داخل کردیتے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ اس وقت تعلیمی نظام ایک انڈسٹری کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ۔ ان میں انسیسٹ منٹ منافع بخش ہے۔جن لوگوں نے تعلیمی ادارے قائم کئے تعلیمی معیار تو جہاں سے تھا اس سے زوال پزیر ہوا لیکن ان کی مالی حآلت اور آسودگی میں ہر آن و ہر لمحہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

تعلیم کے نام پر وقت اور پیسہ کا ضیاع۔

تعلیمی نصاب و نظام پر توجہ دیں تو پتہ چلتا ہے تعلیم کے نام پر قوم کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ایسے علوم و فنو پڑھائے جاتے ہیں جن کی طبعی زندگی ختم ہوچکی ہے۔دنیا بھر میں کیا ہمارے اندر بھی ان کی اہمیت زیرو ہوچکی ہے۔بھیڑ چال ہے۔جہاں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ایک کاغذ کا ٹکڑا اور بے شمار وسائل صرف کرکے سولہ اٹھارہ سال میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دیا جائے گا۔جس کے اپلائی کرنے کے لئے الگ سے ہنر سیکھنا پڑے گا۔وہ ڈگری یا سند اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ تعلیم کے نام پر کتنا نقصان برداشت کرچکے ہیں۔

ہماری تعلیمی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ ایک ڈاکٹر یا طبیب کے سامنے علاج و معالجہ کے سلسلہ میں حاضری دیتے ہیں تو کچھ قسم کے مکالمات روز مرپہ کا معمول بن چکے ہیں۔
مجھے کیا ہوا ہے؟۔۔مجھے کونسا مرض لاحق ہے۔۔۔مجھے کونسی غذا کھانے چاہئے؟کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے؟۔۔میرا علاج کتنے دن کا ہے۔۔۔مجھے ایسی دوا دیں کہ بعد میں کسی دوسری دوا کی ضرورت محسوس نہ ہو۔۔۔

یہ باتیں ایک دہقان سے لیکربادشاہ تک ایک نوکر سے لیکر مالک تک۔ایک مزدور سے لیکر انجینئر تک۔
بالفاظ دیگر ہمارا تعلیمی نظام ہمیں صحت سے اس قدر اندھیرے میں رکھتا ہے کہاپنی غذا و دوا کے بارہ میں بھی سوالات کرنے پر مجبور ہیں۔۔رہا مذہنی مدارس اور مکاتیب کا انداز تعلیم ۔گو کہ اس کے ساتھ تقدس کے جذبات اور عقیدت کے روابط بہت گہرے ہیں۔لیکن تعلیمی نظام و نصاب فرسودگی میں اپنی مثال آپ ہے۔قران و حدیث کو نکال دیا جائے تو سوائے ہونٹ گھسائی کے بچتا کچھ نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اس نصابی دورانہ میں قران و احادیث کو بہت کم وقت دیا جاتاہے۔ایسی ابحاث میں زندگی کے قیمتی ایام براباد کئے جاتے ہیں جن کا معاشرہ مین کوئ کردار ہے نہ پڑھنے پڑھانے والوں کو فائدہ۔لیکن ایک سلسلہ ہے جسے برقرا ررکھنا نظام کے تسلسل قائم رکھنا لازم ہے۔

ہم طب کے حوالے سے ایک خلجان پی کرتے ہیں کہ۔قران کریم میں صحت و تندرستی کے جو اصول و مسائل بیان کئے گئے ہیں۔احادیث مبارکہ میں کتاب الطب کے عنوان اور فصول موجود ہیں ۔اگرانہیں علمی طورپر اپنا لیا جائے تو ہماری صحت بہتر ہوسکتی ہے۔اور طبی مسائل کا ازالہ ہوسکتا ہے۔

راقم الحروف کے کے مطالعہ میں قران کریم کی تین سو آیات ایسی ہیں جن میں طبی مسائل بیان ہوئے ہیں۔اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو زندگی کے طبی مسائل اور ضروریات کا احاطہ کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت کتاب الطب میں بیان کردہ احادیث کو عملا ترک کیا جاچکا ہے ۔جو کچھ بھی ہے وہ بطور تبریک موجودہے۔۔۔اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے ساتھ سے زائد اھادیث مبارکہ جن میں کھلے انداز میںصحت سے متعلقہ مسائل بیان ہوئے ہیں، کو بےکار محض بنا کر رکھ دیا گیا ہے گوکہ کہنے کو دین کے محافظ ہیں۔دین دین کا مفہوم ایسا ادھورا ہے جیسے ہمارےملک کا آئین و قانون ہے کہ جس کو جتنی ضروت محسوس ہوئی کام میں لے آئے۔باقی ۔۔۔۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply