سائنس قران کے حضور میں
سائنس قران کے حضور میں طارق اقبال سوہدروی
سخن مؤلف جو تتلیوں کے پروں پر بھی پھول کاڑھتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں اس کی کوئی نشانی نہیں مارچ 2004ء میں ایک دن ٹیلی ویژن پر محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک کا لیکچر “اقرآن اور ماڈرن سائنس کے درمیان مطابقت یا عدم مطابقت سنا تو ایک عجیب سا سکون محسوس کیا۔ پھر جوں جوں ان کے دوسرے لیکچر ز سنے تو قرآن مجید کی حقانیت کا یہ منفرد پہلو روز روشن کی طرح مجھ پر عیاں ہو گیا۔ ایسے محسوس ہوا جیسے پیاسے کو پانی میسر آجائے، یاس میں ڈوبے ہوئے کوامید کی کرن نظر آجائے اور بے قرار دل کو یکا یک قرار آجائے۔ در حقیقت آج کے اس سائنسی اور مشینی دور میں دعوت کے اس انداز کی اشد ضرورت ہے تاکہ دلائل کی زبان سمجھنے والوں کو قائل کیا جاسکے۔ موجودہ دور میں جدید سائنس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم عام طرز دعوت کے ساتھ جدید طرز دعوت کو بھی اپنائیں اور اسے منظم انداز سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اس بات کا اعتراف کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ دعوت کی یہ طرز انتہائی کٹھن اور مشکل ہے اور ہمیں اپنے قدم احتیاط کے ساتھ اٹھانا ہوں گے۔ میرے خیال میں اس کے لیے درج ذیل باتوں پر توجہ مرکوزرہنی چاہیے : 1) یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید کیا ایک ہزار سے زاید آیات کا تعلق سائنس اور سائنسی امور سے ہے ۔ جن میں اللہ تعالی نے اپنی بے مثال قدرت اور اسرار ورموز کے متعلق انکشافات کیے ہیں۔ ان کو بعض جگہ مفصل اور بعض جگہ اشارہ بیان کرنے کے بعد انسان کو دعوت فکر دی ہے۔ 2) ہمیں سائنس کو بطور کسوٹی قرآن مجید کو سچا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ قرآن سائنس کی دلیلوں کا محتاج نہیں بلکہ سائنسی نظریات کی حقانیت یا ابطال کو پر سکھنے کے لیے قرآن کریم سے رجوع کرنا نہایت ضروری ہے۔ سائنسی نظریات انسان کی جانب سے کی جانے والی مادی تحقیق پر مبنی ہیں جن کا کسی ممکنہ نقص سے پاک ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جن میں سائنسی بنیادوں پر پیش کیے جانے والے نظریات کو سائنس نے ہی باطل قرار دے دیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان کے لیے کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے اور پر کھنے کے لیے اصل کسوٹی “قرآن مجید ” ہی ہے، سائنس نہیں۔ چنانچہ ہمیں صرف انہی سائنسی دریافتوں کا ذکر کرنا چاہیے جو واقعی دلائل اور ثبوت رکھتی ہیں، جبکہ سائنسی مفروضوں کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔ 3) اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے جو قرآن اور سائنس کے مضمون کو پڑھتے ہوئے کسی کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ قرآن مجید میں پہلے سے ہی موجود تھا تو تفاسیر میں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا اور آج سائنس کے بتانے کے بعد یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ یہ باتیں تو 14 سو سال پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھیں۔ در حقیقت عربی زبان بڑی جامع اور وسیع زبان ہے۔ ایک لفظ کے کئی کئی معانی ہیں نیز کائنات کے اسرار ورموز سے اس وقت کے مسلمان ناواقف تھے۔ علاوہ ازیں کسی بھی انو کبھی چیز کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے کسی قرینے یا علم کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قرینہ یا علم جو آج ہمیں سائنس کی صورت میں اللہ تعالی نے عطا کیا ہے۔ سابقہ ادوار کے مفسرین کرام اس سے محروم تھے چنانچہ ہر مفسر نے اپنے دور کے علم اور حالات کے حساب سے قرآنی آیات کی تشریح کی