- Home
- میواتی ادب
- خانزادے اور میو ...

میوات کی تاریخ کے آئینے میں ایک تحقیقی جائزہ

خانزادے اور میو قوم
میوات کی تاریخ کے آئینے میں ایک تحقیقی جائزہ
از
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
(یہ مضمون محترمہ صفیہ میو صاحبہ( ایڈمن ،المیوات ڈیجیٹل لائبریری) کے ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا ہے۔راقم الحروف کی ایک ٖضخیم کتاب” میوات کی تاریخ اور میو قوم ایک تہذیبی و تمدنی مطالعہ” میواتی زبان میں طباعت کے مراحل میں ہے۔بہت جلد میو قوم کے لئے پیش کی جائے گی”
:
حصہ اول: تعارف اور تاریخی پس منظر تمہید
میوات کا تاریخی خطہ اور شناخت کا سوال میوات، جو تاریخی طور پر دہلی، آگرہ اور جے پور کے تزویراتی مثلث کے درمیان واقع ہے، ایک منفرد جغرافیائی اور ثقافتی خطے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ خطہ اپنی خشک اور بنجر زمین اور اراولی کے پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، جنہوں نے یہاں کے باسیوں کو نہ صرف وسائل فراہم کیے بلکہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ایک قدرتی پناہ گاہ کا کام بھی دیا ۔ اس سرزمین نے ایک ایسی قوم کو جنم دیا جو اپنی سخت کوشی اور آزادی پسندی کے لیے مشہور ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ کا بنیادی مقصد
میوات کے سابق حکمرانوں، یعنی خانزادوں، اور خطے کی اکثریتی آبادی، یعنی میو قوم، کے درمیان تاریخی تعلق کی نوعیت کو واضح کرنا ہے۔ یہ سوال اس لیے پیچیدہ ہے کیونکہ تاریخی ذرائع، جن میں فارسی تواریخ ، نوآبادیاتی دور کے ماہرینِ بشریات کی تحریریں ، مقامی روایات اور جدید علمی تحقیقات شامل ہیں، اکثر متضاد معلومات فراہم کرتے ہیں۔ یہ رپورٹ ان تمام ذرائع کا تنقیدی جائزہ لے کر ایک مدلل اور جامع نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔
اس بحث کے مرکز میں ‘میواتی’ کی اصطلاح ہے، جو تاریخی طور پر ابہام کا شکار رہی ہے۔ بعض اوقات یہ اصطلاح خطے کے تمام باشندوں، بشمول خانزادوں اور میوؤں، کے لیے استعمال ہوتی تھی، جبکہ دیگر مواقع پر یہ خاص طور پر حکمران طبقے (خانزادوں) کی نشاندہی کرتی تھی ۔ اس اصطلاح کا یہی ابہام خانزادہ-میو تعلق کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
میوات کی تاریخ محض ایک مقامی داستان نہیں، بلکہ یہ دہلی کے شاہی عزائم کے ساتھ گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ دہلی کے سلطانوں، جیسے غیاث الدین بلبن، کے ساتھ مسلسل تصادم نے اس خطے کے باشندوں کی شناخت کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی مزاحمت کی وجہ سے انہیں اکثر ‘سرکش’ اور ‘باغی’ قرار دیا گیا۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بیرونی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی یہ مشترکہ تاریخ خانزادوں اور میوؤں کے اندرونی سماجی ڈھانچے پر اثرانداز ہوئی۔
اسی بیرونی دباؤ نے ایک اجتماعی ‘میواتی’ شناخت کے پنپنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا، جو ان کے داخلی رشتوں سے زیادہ قدیم اور بنیادی تھا۔ مزید برآں، میوات کا جغرافیہ خود اس کی تاریخ کا ایک اہم محرک رہا ہے۔ بنجر میدانوں اور ناہموار پہاڑیوں نے نہ صرف ایک محنتی اور جفاکش قوم کو پروان چڑھایا بلکہ انہیں ایک قدرتی دفاعی حصار بھی فراہم کیا جس کی بدولت وہ صدیوں تک دہلی کے تسلط کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ۔
حصہ دوم:
خانزادوں کی اصلیت اور شناخت ‘خانزادہ’ کے لقب کی تحقیق
شاہی نسل یا غلامی کی علامت؟ خانزادہ کے لقب کی اصلیت اور معنی کے بارے میں تاریخی طور پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی سماجی حیثیت پر مختلف نظریات قائم ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے تین اہم آراء موجود ہیں:
“خان کا بیٹا” نظریہ: یہ نظریہ، جس کی تائید الیگزینڈر کننگھم جیسے مؤرخین نے کی ہے، یہ بتاتا ہے کہ ‘خانزادہ’ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب “خان کی اولاد” یا “خان کا بیٹا” ہے۔ یہ سنسکرت لفظ ‘راجپوت’ (راجا کا بیٹا) کا براہِ راست ترجمہ ہے ۔ یہ تشریح خانزادوں کے اس دعوے سے مطابقت رکھتی ہے کہ وہ ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
“غلام” نظریہ: اس کے برعکس، پالیٹ (Powlett) اور فریزر جیسے نوآبادیاتی دور کے مصنفین کا خیال ہے کہ یہ لقب دراصل ‘خانہ زادہ’ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کا مطلب “گھر کا غلام” ہے۔ ان کے مطابق، یہ ایک تضحیک آمیز نام تھا جو خانزادوں کے جدِ امجد بہادر ناہر کو ان کے بھائیوں نے اس وقت دیا جب انہوں نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے غلاموں سے قریبی تعلقات استوار کیے ۔
“خان جادو” نظریہ
یہ دعویٰ خود خانزادے کرتے ہیں کہ یہ لقب ‘خان جادو’ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب “جادو قبیلے کا سردار” (یعنی یادوونشی قبیلے کا سردار) ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام ‘خانزادہ’ میں تبدیل ہو گیا ۔
ان نظریات کا اختلاف محض علمی بحث نہیں بلکہ میوات کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے کی عکاسی کرتا ہے۔ “غلام” کا نظریہ خاص طور پر اس وقت مقبول ہوا جب خانزادوں کا سیاسی اقتدار ختم ہو گیا اور میوات کا کنٹرول الور اور بھرت پور کی ہندو ریاستوں کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ نئے حکمرانوں کے لیے یہ فائدہ مند تھا کہ وہ سابقہ مسلم حکمرانوں کی عزت اور وقار کو کم کریں تاکہ اپنے اقتدار کو مزید مستحکم کر سکیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ‘خانزادہ’ کے معنی پر بحث دراصل سماجی حیثیت اور سیاسی قانونی حیثیت کی ایک تاریخی جنگ تھی، جہاں ہر نظریہ کسی خاص گروہ کے مفادات کی نمائندگی کرتا تھا۔
شجرہ نسب کا دعویٰ
جادون راجپوت سے تعلق خانزادوں کا غالب بیانیہ انہیں جادون (یادوونشی) راجپوتوں کی نسل سے جوڑتا ہے ۔ ان کے جدِ امجد راجہ سونپڑ پال آف کوٹلہ تھے، جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ناہر خان کا نام اختیار کیا ۔ ان کا شجرہ نسب تہن گڑھ قلعے کے بانی راجہ تہن پال سے ملتا ہے ۔ اس دعوے کی تائید تاریخی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ ابوالفضل نے “آئین اکبری” میں انہیں مذہب تبدیل کرنے والے “جنوہا راجپوت” کہا ہے، جبکہ احمد یادگار نے “تاریخ سلاطین افغانہ” میں لکھا ہے کہ حسن خان میواتی کا خاندان کئی نسلوں سے شاہی طاقت کا مالک تھا ۔
تاہم، اس غالب بیانیے کے برعکس ایک اور روایت بھی موجود ہے جو انہیں ایک نچلی ذات (دھانک) سے منسوب کرتی ہے اور ان کا جدِ امجد بیجل نامی شخص کو بتاتی ہے ۔ یہ متضاد روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خانزادوں کی اصلیت ہمیشہ سے ہی ایک متنازعہ موضوع رہی ہے۔
قبولِ اسلام اور سیاسی عروج
خانزادوں کے جدِ امجد نے 1355ء کے قریب سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور میں اسلام قبول کیا ۔ ان کے قبولِ اسلام کے پیچھے دوہری وجوہات کارفرما تھیں۔ ایک طرف صوفی بزرگ حضرت نصیر الدین محمود جیسے روحانی پیشواؤں کا اثر تھا ، تو دوسری طرف سیاسی مصلحت پسندی بھی شامل تھی۔ دہلی کے سلطان سے اتحاد کر کے وہ اپنی آبائی جاگیریں واپس حاصل کرنے اور خطے میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
یہ واقعہ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں ایک عام رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مقامی سردار شاہی طاقت کے مذہب (اسلام) کو اپنا کر اپنے مقامی وقار کو ریاستی سرپرستی میں بدل دیتے تھے۔ 1372ء میں فیروز شاہ تغلق نے ناہر خان کو باقاعدہ طور پر میوات کا حاکم مقرر کیا اور انہیں ‘والیِ میوات’ کا خطاب دیا ۔ اس کے بعد ان کی نسل نے 1527ء میں خانوا کی جنگ میں حسن خان میواتی کی شہادت تک میوات پر ایک موروثی حکمران خاندان کے طور پر حکومت کی ۔
یائے بھی پڑھو
میو قوم کا تاریخی کردارسلطنت ہند اور مغلیہ ادوار میں
جدول 1: خانزادہ حکمرانانِ میوات (1372ء – 1527ء)
شمار
حکمران کا نام (اصل ہندو نام)
دورِ حکومت
اہم کارنامے/واقعات
1
راجہ ناہر خان (راجہ سونپڑ پال)
1372–1402
ریاست میوات اور خانزادہ خاندان کے بانی
2
راجہ خانزادہ بہادر خان
1402–1412
1406ء میں بہادر پور کی بنیاد رکھی
3
راجہ خانزادہ اکلیم خان
1412–1417
4
راجہ خانزادہ فیروز خان
1417–1422
1419ء میں فیروز پور جِھرکہ کی بنیاد رکھی
5
راجہ خانزادہ جلال خان
1422–1443
دہلی سلطنت کے خلاف بغاوت کی قیادت کی
6
راجہ خانزادہ احمد خان
1443–1468
7
راجہ خانزادہ زکریا خان
1468–1485
8
راجہ خانزادہ اولوال خان
1485–1504
انسانی قربانی کی رسم روکنے کے لیے بالا قلعہ جیتا
9
راجہ خانزادہ حسن خان میواتی
1504–1527
میوات کے آخری خانزادہ حکمران، جنگِ خانوا میں شہید ہوئے
حصہ سوم: میو قوم کی اصلیت اور شناخت نسلی دعوے اور نظریات
راجپوت چھتری سے فارس کے ‘مید’ تک میو قوم کی اصلیت کے بارے میں کئی دلچسپ اور متنوع نظریات پائے جاتے ہیں، جو ان کی پیچیدہ تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں:

راجپوت/کشatriya نسب: میو قوم کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ وہ ہندو کشتری قبائل کی اولاد ہیں، خاص طور پر سوریہ ونشی اور چندرونشی نسلوں سے، جن کا تعلق بھگوان رام اور کرشن سے ہے ۔ یہ دعویٰ انہیں شمالی ہندوستان کے وسیع تر راجپوت سماجی ڈھانچے سے
جوڑتا ہے۔
فارس کے ‘مید’ کا نظریہ: بعض محققین لسانی اور نسلی مماثلتوں کی بنیاد پر یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ میو قوم کا تعلق قدیم فارس اور یونان کے ‘مید’ (Mede) قبیلے سے ہے، جو سکندر اعظم کے حملے کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئے تھے ۔
مخلوط اصلیت: ایک اور نظریہ یہ ہے کہ میو کسی ایک نسل سے نہیں ہیں، بلکہ وہ راجپوت، مینا، اहीर اور گجر جیسے مقامی گروہوں کا ایک مرکب ہیں، جنہوں نے صدیوں کے دوران بتدریج اسلام قبول کیا ۔
میو قوم کے یہ دوہرے دعوے (راجپوت اور مید) متضاد ہونے کے بجائے سماجی حیثیت کے حصول کی دو مختلف حکمت عملیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ راجپوت ہونے کا دعویٰ انہیں خطے کے معزز ذات پات کے نظام میں شامل کرتا ہے، جبکہ مید ہونے کا دعویٰ انہیں ایک منفرد، قدیم اور بیرونی جنگجو شناخت فراہم کرتا ہے جو انہیں اپنے پڑوسیوں سے ممتاز کرتی ہے۔
معاشرتی ڈھانچہ اور ثقافتی تسلسل میو معاشرے کی بنیاد 12 ‘پالوں’ (بڑے قبائل) اور 52 ‘گوتوں’ (ذیلی قبیلوں) کے نظام پر ہے، جو ہندو جنگجو برادریوں سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ان کا رشتہ داری کا نظام، جو اپنی گوت میں شادی کی ممانعت کرتا ہے، مسلم روایات کے بجائے ہندو/جاٹ نظام سے زیادہ قریب ہے ۔
تاریخی طور پر ان کی ثقافت اسلامی عقائد اور ہندو روایات کا ایک خوبصورت امتزاج رہی ہے۔ وہ عید کے ساتھ ساتھ ہولی اور دیوالی جیسے تہوار بھی مناتے تھے ، ہندو ناموں سے ملتے جلتے نام رکھتے تھے ، اور شادی بیاہ کی بہت سی قبل از اسلام رسومات کو برقرار رکھتے تھے ۔ ان میں اسلام کی اشاعت صوفیائے کرام کے ذریعے بتدریج ہوئی اور اس عمل نے ان کی سابقہ شناخت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ۔ میو قوم کی تاریخ جنوبی ایشیا میں “مخلوط اسلام” کی ایک بہترین مثال ہے، جہاں مذہب کی تبدیلی ایک مکمل تبدیلی کے بجائے سابقہ روایات پر ایک نئی تہہ چڑھانے کا عمل تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدیوں تک ایک میو کے لیے “مسلمان” ہونا ایک ایسی مشترکہ علاقائی ثقافت میں شرکت سے متصادم نہیں تھا جس پر ہندو روایات کا گہرا اثر تھا۔
حصہ چہارم: خانزادے اور میو
ایک پیچیدہ تعلق کا تجزیہ کیا خانزادے میو ہیں؟ مشترکہ شناخت کے تاریخی شواہد ایسے متعدد تاریخی شواہد موجود ہیں جو اس نظریے کی تائید کرتے ہیں کہ خانزادے بنیادی طور پر میو نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
‘میواتی’ کی مشترکہ اصطلاح: فارسی مؤرخین جیسے یحییٰ بن احمد نے بہادر ناہر کے پیروکاروں کو “میواتی” یا “میوان” کہا ہے، اور خود بہادر ناہر کے پوتے کو جلال خان “میو” کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ قرون وسطیٰ کی تواریخ میں اکثر “میواتی” کی اصطلاح دونوں گروہوں کے لیے اجتماعی طور پر استعمال ہوتی تھی ۔
شجرہ نسب کے روابط
کننگھم نے خانزادوں کی زمینوں کو “میوؤں کی جادون شاخ” سے منسوب کیا ہے ۔ مقامی میو مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ خانزادے میوؤں کی ایک گوت “خانجدو” کی شاخ ہیں ۔ اردو وکی پیڈیا کے مطابق “گوروال خانزادہ” میوؤں کی ایک گوت ہے ۔
فوجی اور سماجی اتحاد: میوات کے آخری خانزادہ حکمران حسن خان میواتی کی فوج کی اکثریت کسانوں اور سپاہیوں پر مشتمل تھی جو میو تھے، جو دونوں گروہوں کے درمیان گہرے اتحاد کی نشاندہی کرتا ہے ۔
باہمی شادیاں
ابتدائی دور میں خانزادوں اور میوؤں کے درمیان شادی بیاہ کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کچھ خانزادہ خاندان جنہوں نے میوؤں میں شادیاں کیں، بعد میں خود بھی میو کہلانے لگے ۔
جدول 2: خانزادہ-میو تعلق پر تاریخی نظریات کا تقابلی جائزہ
ماخذ کی قسم
اہم شخصیت/متن
تعلق پر نظریہ
پیش کردہ ثبوت
فارسی تواریخ
یحییٰ بن احمد سرہندی
مشترکہ شناخت (میواتی)
بہادر ناہر کے پیروکاروں کو “میواتی” اور پوتے کو “میو” کہا۔
نوآبادیاتی ماہرینِ بشریات
پی۔ ڈبلیو۔ پالیٹ
الگ اور اعلیٰ شناخت
خانزادوں کو سماجی طور پر میوؤں سے برتر قرار دیا؛ “میواتی” حکمرانوں کے لیے، “میو” عوام کے لیے۔
جدید محققین
شیل مایارام
مشترکہ اصل، بعد میں تفریق
شواہد بتاتے ہیں کہ خانزادے وسیع تر “میواتی” گروہ کا حصہ تھے جس میں میو بھی شامل تھے۔
مقامی میو مؤرخین
صدیق احمد میو
خانزادے میوؤں کی شاخ ہیں
خانزادوں کو میو گوت “خانجدو” کی ایک شاخ قرار دیا۔
سماجی تفریق اور حکمران طبقہ: علیحدہ شناخت کے دلائل دوسری طرف، ایسے مضبوط دلائل بھی موجود ہیں جو خانزادوں کو ایک الگ اور ممتاز برادری کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
سماجی درجہ بندی
پالیٹ جیسے نوآبادیاتی مصنفین نے واضح طور پر لکھا ہے کہ خانزادے “سماجی طور پر میوؤں سے کہیں برتر تھے” اور دونوں گروہوں میں “کوئی محبت نہیں تھی” ۔ ان کے مطابق، فارسی مؤرخین نے “میواتی” کی اصطلاح حکمران طبقے (خانزادوں) اور “میو” کی اصطلاح نچلے طبقے کے لیے استعمال کی۔
مذہبی اور ثقافتی فرق
خانزادوں کو “بہتر مسلمان” سمجھا جاتا تھا جو زیادہ اسلامی روایات پر عمل پیرا تھے۔ وہ نماز پڑھتے تھے اور اپنی عورتوں کو کھیتوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، جبکہ میوؤں میں ایسا نہیں تھا ۔ ایک اور اہم فرق یہ تھا کہ خانزادے اپنی شادی کی رسومات کے لیے برہمنوں کو بلاتے تھے، جو ایک اعلیٰ طبقے کی مخصوص روایت تھی ۔
سیاسی علیحدگی
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں گروہوں کے سیاسی مفادات بھی الگ ہو گئے۔ 19ویں صدی تک خانزادے اکثر زمیندار تھے جبکہ میو کسان تھے ۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں نوح کے خانزادے انگریزوں کے وفادار رہے جبکہ میوؤں نے بغاوت کی ۔ اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد، خانزادے مغل اشرافیہ میں ضم ہو گئے اور سماجی تنہائی سے بچنے کے لیے دیگر اعلیٰ مسلم گھرانوں میں شادیاں کرنے لگے ۔
ایک ارتقائی تعلق
حکمران اور رعایا سے الگ ہوتی برادریاں ان متضاد شواہد کو یکجا کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خانزادوں اور میوؤں کا تعلق ایک ارتقائی عمل سے گزرا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خانزادے اسی وسیع نسلی گروہ سے نکلے تھے جسے “میواتی” کہا جاتا تھا اور جس کی اکثریتی آبادی آج میو کہلاتی ہے۔ وہ ایک الگ قوم نہیں تھے، بلکہ اسی قوم کا حکمران خاندان تھے۔
ان کا حکمران طبقہ ہونا، اسلام قبول کرنا، اور بعد میں دہلی سلطنت اور مغل دربار کے شاہی ڈھانچے میں ضم ہو جانا، ان عوامل نے ایک سماجی اور ثقافتی تفریق کے عمل کو جنم دیا۔ یہ تفریق نوآبادیاتی دور میں مزید پختہ ہو گئی جب انگریز ماہرینِ بشریات نے، جو واضح درجہ بندی کے شوقین تھے، “خانزادہ” اشرافیہ اور “میو” عوام کے درمیان فرق کو باقاعدہ شکل دے دی ۔
یہ رشتہ بنیادی طور پر طبقے اور نسل کے درمیان فرق کی ایک بہترین مثال ہے۔ ابتدا میں، یہ فرق ایک ہی نسلی گروہ (میواتی) کے اندر بنیادی طور پر طبقاتی تھا (حکمران بمقابلہ رعایا)۔ لیکن صدیوں کے دوران، یہ طبقاتی تقسیم اس قدر گہری ہو گئی کہ آج اسے دو الگ الگ برادریوں کی شناخت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس تفریق کا سب سے بڑا محرک 1527ء میں خانزادہ سلطنت کا خاتمہ تھا۔ ایک مشترکہ سیاسی اکائی کے بغیر، ان کے راستے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ حسن خان میواتی کی قیادت میں دونوں گروہ ایک مشترکہ مقصد کے لیے لڑے ، لیکن ان کی شکست کے بعد خانزادے مغل اشرافیہ کا حصہ بن گئے جبکہ میو مقامی ثقافت سے جڑے رہے۔
حصہ پنجم: نتیجہ خلاصہ تحقیق اور حتمی تجزیہ
اس تفصیلی جائزے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب سادہ “ہاں” یا “نہیں” میں نہیں دیا جا سکتا۔ تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خانزادے اور میو گہرے آبائی رشتوں میں بندھے ہیں اور ان کا تعلق اسی وسیع نسلی و جغرافیائی گروہ سے ہے جسے قرون وسطیٰ کی تواریخ میں “میواتی” کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے، خانزادے بلاشبہ اسی نسل سے ہیں جس سے میو ہیں۔
تاہم، خانزادے ایک مخصوص حکمران خاندان تھے جنہوں نے سیاسی عروج اور ثقافتی ارتقاء کے ذریعے خود کو میو عوام سے الگ ایک ممتاز اور اعلیٰ سماجی طبقے کے طور پر قائم کیا۔ لہٰذا، خانزادوں کو محض “میو قوم کی ایک شاخ” قرار دینا ایک تاریخی سادہ لوحی ہوگی۔
ایک زیادہ درست اور جامع تعریف یہ ہوگی کہ خانزادے میواتی قوم (جو آج میو کہلاتی ہے) کی تاریخی اشرافیہ تھے، ایک ایسا طبقہ جو صدیوں کی حکمرانی، سیاسی وابستگیوں اور ثقافتی ارتقاء کے نتیجے میں ایک الگ سماجی اکائی بن گیا۔ ان کا رشتہ مشترکہ اصلیت سے شروع ہو کر ایک گہری اور پائیدار سماجی اور سیاسی علیحدگی پر ختم ہوا۔