You are currently viewing جواب کا صحیح حکمیانہ انداز
جواب کا صحیح حکمیانہ انداز

جواب کا صحیح حکمیانہ انداز

جواب کا صحیح حکمیانہ انداز

جواب کا صحیح حکمیانہ انداز
جواب کا صحیح حکمیانہ انداز

ایک آدمی نے ایک بزرگ کی تعریف کی اس نے کہا کہ
وہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ تھے کہ وہ نماز کی حالت میں مرے
گویامیں ان کی موت خدا کی گود میں ہوئی
سننے والا کچھ دیر تک چپ رہا
۔اس کے بعد بولا ۔اللہ کے رسول کی وفات ہوئی تو وہ اپنی اہلیہ کی گود میں تھے
اور بزرگ کی وفات خدا کی گود میں ہوئی
اس کا مطلب تو یہ ہے کہ گزرو خدا کے رسول سے بھی زیادہ پہنچے ہوئے تھے۔
یہ جواب اتنا وزنی تھا کہ اس کو سن کر آدمی خاموش ہوگیا
سننے والے نے مذکورہ بزرگ کے حالات پڑھے تھے
اس میں اس کو کہیں یہ بات نہیں ملی تھی کہ بزرگ کی موت نماز کی حالت میں ہوئی
تاہم اس نے سوچا کہ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات کہاں لکھی ہے
یا کس ذریعہ سے ثابت ہوتی ہے
تو وہ خان بحث شروع ہو جائے گی اور وہ کہیں ختم نہ ہوگی
چنانچہ اس نے اس سوار کو نہیں چھوڑا اس نے ایسی بات کہی
جو صرف یقینی تھی بلکہ عمومی پہلو کی بنیاد پر وہ آدمی چپ کر دینے والی تھی
چناچہ لمبی بحث کی نوبت نہیں آئی
اور ایک ہی جملہ سارے سوال کا جواب بن گیا
یہی ایسے معاملات میں جواب دینے کا صحیح طریقہ ہے
اگر آدمی ایسا کریں کہ وہ مخالف کی بات سنتے ہی فوراً اس سے الجھ نہ جائے
بلکہ ہم کر سوچے کہ اس کا صحیح اور موثر جواب کیا ہو سکتا ہے۔
تو یقینی طور پر وہ ہر سوال کا ایسا جواب پا لے گا
جو اس قدر فیصلہ کن ہو کہ لمبی بحث و تکرار کی نوبت نہ آئے
اور صرف ایک جملہ پورے سوال کے لیے فیصلہ کن بن جائے
سب سے برا جواب وہ ہے
جس میں سوال کرنے والا اور خود جواب دینے والا دونوں الجھ جائیں
بالآخر اس طرح الگ ہوں کہ دونوں میں سے کوئی ہار ماننے کے لئے تیار نہ ہوتا ہو
اور سب سے اچھا جواب وہ ہے کہ جب جواب دینے والا
ایسا سوچا سمجھا ہوں وزنی جواب دیں
جس کے بعد سوال کرنے والے کی سمجھ میں ہی نہ آئے
کہ اس کے آگے وہ کیا کہہ سکتا ہے

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply