- Home
- Uncategorized
- چشمہ رحمت


تعارف
چشمہ رحمت
محترم حکیم شیخ احمد علی نارووال میں 1897ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ محمد حسن عطاری کی دوکان چلاتے تھے۔ چار بھائیوں میں حکیم صاحب قبلہ دوسرے نمبر پر تھے۔ اُن کے بڑے بھائی شیخ ناصر علی بھی حکمت کا کام کرتے تھے۔ مگر چونکہ وہ مستند حکیم نہیں تھے لہٰذا اُنہوں نے عطاری اور حکمت کا کام چھوڑ کر کپڑے کی دکان کھول لی اور اس کا روبار سے آخر عمر تک منسلک رہے۔
حکیم شیخ احمد علی نے باقاعدہ طبیہ کالج لاہور سے حکیم حاذق کی ڈگری حاصل کی اور مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے ہاتھ میں شفا دی اور تمام علاقے کے لوگ اُن کے پاس جوق در جوق آنے شروع ہو گئے ۔
حکیم صاحب نے اس پر اکتفا نہیں کیا اور دہلی سے مزید تعلیم حاصل کر کے حاذق الاطبہ کی ڈگری حاصل کی اور اپنے طور پر مسلسل مزید مطالعہ کرتے رہے۔
مطالعہ کی عادت آخری دم تک نہیں چھوڑی۔ حکمت کی کتابیں پڑھنے
کے علاوہ اُنہوں نے دین کی کتابوں کا بھی مطالعہ جاری رکھا اور اپنی مجالس میں درس بھی دینا شروع کر دیا۔ فارسی کی تعلیم تو پہلے ہی حاصل کر چکے تھے۔ اس لئے جب کوئی عالم دین ایران سے آتا۔ حکیم صاحب موصوف اُس کے مترجم کے طور پر حق ادا کرتے رہے۔
عربی اور فارسی کے عالم ہونے کے باعث ان زبانوں میں بھی حکمت کی کتابیں جو تھیں اُن کا بھی دقیق مطالعہ کر کے اپنے علم میں مزید وسعت حاصل کی اور طب کے میدان میں یکتا ہو گئے۔
دن رات مریضوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ نیند بہت کم کرتے تھے لہذا رات کو بھی اگر کوئی مریض آس پاس کے گاؤں سے آجاتا تو فوراً اُس کے ساتھ چلے جاتے اور قطع نظر اس کے کہ اُن کی نیند پوری ہوئی یا نہیں ہوئی۔
علی الصبح مسجد میں چلے جاتے اور نماز ادا کرنے کے بعد باہر سیر کو باقاعدگی کے ساتھ چلے جاتے اور کیکر کی مسواک لے کر دانت صاف کرتے ہوئے گھر میں واپس آتے۔ تازہ پانی سے نہانا روز کا معمول رکھا۔ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اپنے مطب میں جا بیٹھتے جہاں بے شمار مریض انتظار میں ہوتے۔ تھوڑا کھاتے اور ضرورت کے بغیر بات کرنے کے کبھی بھی عادت نہ تھی ۔ اپنا علاج فاقوں سے اور مناسب غذا سے کرتے خود دوائی کھانے کی بھی ضرورت نہ

پڑی۔ اور یہی تلقین ہمیشہ اوروں کو بھی کرتے رہے۔
کچھ مجربات اُنہوں نے ایجاد بھی کئے اور وہ ہمیشہ تیر بہ ہدف ہوئے ۔ آخری ایام میں ہماری درخواست پر حکیم صاحب موصوف نے، جو
ہمارے والد محترم تھے، اپنے چند مجربات تحریر کر دیئے جن کو ہم نے اس کتاب کی شکل میں ترتیب دے دیا ہے۔
جن اصحاب کو اس کتاب سے فائدہ پہنچے اُن سے درخواست ہے کہ وہ اُن کے لئے دعا کریں۔
مولفین اور مصنفین نے از خود بھی کچھ دیگر علاج کے طریقوں کا مطالعہ کیا ہے اور اُن میں کچھ کو آزمایا بھی ہے اور کئی انداز سے مفید پایا ہے۔ ان طریقوں کا بیان بھی اس کتاب کے آخری حصہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ہمیں قوی امید ہے کہ ان طریقوں کو استعمال کر کے قارئین اپنی صحت کو مزید بحال رکھ سکیں گے۔
ڈاکٹر شیخ محمد نقی
بیگم منور نقی