- Home
- میواتی ادب
- میری منجل پار لگ ...

میری منجل پار لگادے۔میواتی ادب
سکندر سہراب میو۔ایم اے

میری منجل
زاد راہ
ایک سوچ تھی مرکے زندہ رہنے کی ۔ لڑکپن میں ایک جنون تھا، کچھ کر گزرنے کا ۔ عالم شباب سے پہلے عہد پیری نے آلیا۔ مگر جذبوں کی سرکشی نہ گئی ۔ فنکار کی انا پرست نازک مزاجی اور میو قوم کی خوداری ، احساس تفاخر اور جنگ جویانہ فطرت کے ساتھ سادگی نے مل جل کر ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کی، جس کا مقدر قدم قدم زخم کھانا ٹھہرے ۔کسی پر اپنے درد کا اظہار کرنا اور زخم کا مرہم مانگنا توہین عظمت لگے تو ایسے انسان کی فطرت کے لئے تو مرنے کے سوا کونسا راستہ رہ جائے گا ۔ مگر ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ اپنے پرائے سب کے ہاتھوں ان گنت زخم کھائے اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ مگر زخموں سے چور ہونے کے با وجود نڈھال ہوں نہ بے دم، ہر ماحول ، ہر موسم اور ہر قسم کے حالات میں زندہ رہا۔ اور آج بھی ہوں۔ جینے کا یہ ہنر ہی دراصل مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ مجھے اس کا احساس بھی ہے اور اس پر ناز بھی ہے کہ زندگی نے یہ سلیقہ دنیا میں کم لوگوں کو دیا۔ جو کرنا چاہا اور جب۔.10۔۔کرنا چاہا کر گزرا۔ انجام کی پرواہ کئے بغیر۔ تم سود و زیاں سے بے نیاز ۔ ایک مرکز پر رہ کر نئے نئے راستے ترا شے اور سفر کا عمل جاری رکھا اور آج بھی جاری ہے ۔
۱۶ اکتوبر ۱۹۴۲ء جمعہ کا مبارک دن صبح آٹھ بجے عالم بالا سے گنگوانی گاؤں کے باہر بیسوئے دار چودھری میو خان کی قریب قریب ایک ایکڑ میں پھیلی ہوئی حویلی کی کھلی فضا میں چودھری سہراب خان میں کے گھر آنا مقدر ٹھہرا۔ میرے اندر یہ احساس کہیں ضرور چھپا بیٹھا ہے کہ میرے اجداد کا شمار میوات کے بڑے لوگوں میں ہوتا ہے۔ میرے و ا و ا مرحوم میو خاں ایک خودار انسان تھے ۔ جس نے مہا راجہ الور کی طرف سے قلم دان وزارت کی پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں اپنے آپ کو کسی مہاراجہ سے کم نہیں سمجھتا ۔ دادا مرحوم خوبصورت بھی تھے۔ وجیہہ شکیل، طاقت در ، دلیر اور ایک تعلیم یافتہ ذہین انسان تھے ۔ جب کہ اس زمانے میں میوات میں سکول نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ کروڑوں کی آبادی کا خطہ جس میں ریاست الور، بھرت پور ، جودھ پور اور پنجاب اور ہریانہ کا کافی علاقہ شامل ہے ۔ ہمیشہ ہندوستان کے حکمرانوں کے بغض و عناد کا شکار رہا۔ وہ خطہ جس نے حسن خاں میواتی ، کالے خاں توپچی ، علی خاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالار صدر الدین اور جرنل بخت خاں جیسی تاریخی شخصیتوں کو جنم دیا۔ یہ اور ان جیسی بہت سی ایسی شخصیتیں ہیں ، جن کے بغیر ہندوستان کی تاریخ نامکمل رہ جاتی ہے ۔ مگر متعصب مورخوں نے ان کے حوالے سے کہیں میوات کا ذکر نہیں کیا اور نہ ان کی سوانح حیات تفصیل سے قلمبند کی بلکہ کسی کو روحیلہ میو لکھا کسی کو خالص روحیلہ نواب خاندان سے جا ملایا ۔ مگر تاریخ کا طالب علم جب جرنل بخت جو کہ جنگ آزادی ۱۸۵۷ کا عظیم اور اپنے قد کاٹھ کا واحد ہیرو تھا، کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاریخ کے سینے میں رقم دیکھے گا اور پڑھے گا کہ ” ہم جا کی مونڈی یہ پنہاں دھر دیاں او بادشاہ بن جاوے ہے ، تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہے گا۔ یہ زبان روحیلوں کی ہے نہ پٹھانوں کی یہ خالص میواتی ہے ، اور جرنل بخت میوات کا سپوت تھا۔ جسے فیروز شاہ نے مدینہ سے واپسی پر میوات ہی سے جزا بجنت کے اپنے پر گیوں سمیت اپنے ساتھ لیا ۔ جنرل بخت جس نے مغل حکمرانوں کو جنگ جیت دی تھی جس نے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیے ، مغل شہزادوں کی حماقتوں اور محلاتی نمک حراموں کی غداریوں نے میدان جنگ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔12۔۔۔سالار صدر الدین اور جرنل بخت خاں جیسی تاریخی شخصیتوں کو جنم دیا۔ یہ اور ان جیسی بہت سی ایسی شخصیتیں ہیں ، جن کے بغیر ہندوستان کی تاریخ نامکمل رہ جاتی ہے ۔ مگر متعصب مورخوں نے ان کے حوالے سے کہیں میوات کا ذکر نہیں کیا اور نہ ان کی سوانح حیات تفصیل سے قلمبند کی بلکہ کسی کو روحیلہ میں لکھا کسی کو خالص روحیلہ نواب خاندان سے جا ملایا۔ مگر تاریخ کا طالب علم۔۔۔۱۲
حاصل کی ہوئی فتح کو شکست میں بدل دیا ۔ مگر بخت آج بھی زندہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ متعصب یا بے خبر مورخوں نے جو بات نہ بتائی یا نہ بتانا چاہی وہ چھپ نہ سکی ۔ جرنل سخت کی زبان چال ڈھال ، لباس اور انداز پر جگہ جگہ گفتگو کر کے نادانستہ طور پر سب کچھ بتا گئے۔ اس تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اس کا تذکرہ صرف اس لئے کیا ہے کہ یہ فخر و غرور کہ میں ایک عظیم، خودار اور بہادر قوم کا بیٹا ہوں ۔ اس احساس نے میری زندگی پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اور جینے کی راہیں متعین کرنے اور جینے کا سلیقہ اختیار کرنے میں اس کا بہت دخل ہے۔ یہی انا، یہی خوداری مجھے کہیں جھکنے سے منع کرتی رہی، اور میں اپنی تمام تر صلا حیتوں اور حوصلوں کے با وجود اس منزل پر نہ پہنچ سکا جو قدم قدم پر میری ٹھو کر میں ہونا چاہیے تھی جسکے دامن فطرت میں سادگی کے ساتھ احساس تفاخر کاایسا زادِ راہ ہو اس کی زندگی کا سفر اس افراتفری اور اصول و اخلاق سے عاری ماحول میں کیسے کٹا ہوگا اس کا اندازہ لگانا کسی ذی شعور کے لئے مشکل نہیں ۔
فلم انڈسٹری – ۱۹۶۶ء میں باری سٹوڈیو شوٹنگ دیکھنے کے شوق میں گیا اور پہلے دن ہی وہ کردار لیا اور کیا جس کے لئے اس زمانے میں پرسوں مجھ جیسے لوگ دھکے کھاتے تھے ۔ مگر اس کا ماحول پسند۔۔۔۱۳۔۔نہ آیا ۔ ۱۹۶۷ء میں ریڈیو پاکستان کے اوڈیشن میں شامل ہوا۔ سینکڑوں امیدواروں میں سے سلیکٹ ہوا ، اور یوں سلیکٹ ہوا کہ فائنل اور میشن کی ضرورت ہی پیش نہ آئی، چند پروگرام کئے مگر یہ مغرور فراعین کی دنیا تھی۔ ایک آدھ پروگرام کر کے اسے بھی خیر باد کہا۔ تھوڑے ہی دن بعد ٹی وی پر ستاسی امیدواروں میں سے سات کامیاب ہونے والوں میں ایک میں لیا گیا تھا۔ مگر یہاں بھی وہی فطرت اور دہی ذہن تھا۔ دو چار چکر لگانے کے بعد پھر نہ گیا۔ کچھ عرصہ بعد اوپن ائیر تھیٹر لاہور میں اپنا ڈرامہ ” پھر وہی راہیں ” کے نام سے کیا۔ جس کے آرٹسٹ بعد میں فلم اور ٹی وی میں اپنا نام بنا گئے، پھر کئی دوستوں کے ساتھ مل کر ڈرامےسٹیچ کئے جن میں ضیا ندیم شجاع عمر انور اور پروفیسر ارشد صدیقی کے نام مجھے یاد ہیں۔ لڑکیوں میں بابری اور نمی جو بعد میں فلمی دنیا کی مقبول ادکارہ رہی۔ مجھے یاد ہے ۔ اس کا یہ ” فقرہ مجھے آج تک یاد ہے ” اگر میں لڑکا ہوتی تو آپ کو دوست بنائی مگر سٹیج کی دنیا سیاست اور گروہ بندیوں سے پاک نہ تھی ۔
شعر و ادب کی جانب آیا تو جس کسی نے ایک بار سنا پھر نہ مجھول ۔ سامعین اور شعراء کے کان سکندر سہراب میو کا نام سننے کے منتظر رہتے ۔ رائٹرز گلڈ کے پروگراموں میں احباب فرمائش کر کے میواتی غزل سنتے – میواتی زبان میں غزل کی صنف نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد
۔۔۔۔۱۴۔۔میری پہلی میواتی غزل کا شعر یہ ہے ۔
مو پہ جوبی میبرد ہے منتر او سب تیرو ہے
اکثر پروگراموں میں اس کی فرمائش ہوتی ، اور لوگ سہراب میو اور کئی دوست صرف میو کے نام سے پکارتے تھے ۔ پہلا مجموعہ کلام ” چیختے پتھر” کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں میواتی اور اردو کلام شامل ہے۔ اس کے بعد بچوں کے ناول لکھے۔ پھر تین شعری مجموعے، ہوئے آوارہ – آلاؤ ۔ مہکے گھاؤ کے بعد بھی یہ سلسلہ رہا اور کئی چھوٹی بڑی کتابوں کی ترتیب و تالیف کے ساتھ ” مصباح غم کے نام سے سلاموں کو کتابی شکل دے کہ کتابت کروا دیا ۔ مگر شائع ہونے کی نوبت نہ آئی ۔ اس سے پہلے ایک کتاب ” انگشت بدنداں کے نام سے شائع کی۔ انسان اور نظام کائنات کو سمجھے کہ آگے قدم بڑھانے کے لئے اپنی مثال ایک ہی کتاب ہے، جس میں بڑی پیچیدگیوں کو میں نے بڑی سادہ زبان میں سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ میرا یقین ہے کہ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد اس میں دیئے گئے اصولوں پر عمل کرنے والا کبھی دکھی نہیں ہو سکتا۔ کبھی ناکام نہیں ہو سکتا. اب یہ میواتی گیت اور غزلیں ” میری منجل پار لگا دے” کے نام سے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ نعتوں کا مجموعہ۔۔کتابت کے مرحلے میں ہے ۔ حرص و ہوا کے اس دور میں کئی اچھے لوگ بھی ملے ۔ بعض دوست تو۔۔۔۔۔۱۵۔۔۔اتنے اچھے تھے کہ ان پر کسی اور دنیا کی مخلوق کا گمان ہوتا تھا۔ فلم” کافر” کی شوٹنگ کے دوران دیکھنے والوں کو یہ گمان بھی نہ ہوا کہ اتنے اعتماد سے ایک ہی سانس میں اتنے لمبے مکالمے بولنے والا یہ لڑکا دور دراز کے ایک گاؤں سے پہلی بار سٹوڈیو میں آیا ہے، اور بغیر ری ٹیک کرائے سین فلمبند کرانے والا یہ نوعمر لڑکا پہلی بار فلم کیمرہ کے سامنے آیا ہے ۔ اس قسم کی چہ مگوئیاں اونچی آوازوں میں ہو رہی تھیں ۔ ” ابے آرٹس ہے!۔ کراچی سے آیا ہے ” ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں تعریف کر رہا تھا۔ اس اعتماد اور فنکارانہ صلاحیت سے متاثر ہو کہ اگلے دن ایک اور مختصر رول اسی فلم میں دے دیا گیا، اور ڈاریکٹر سلیم چودھری نے خزانہ بھی مجھ پر پکچرائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس کی خبر مجھے بعد میں ہوئی تب تک میں نے سٹوڈیو جانا بند کر دیا تھا۔ احسان چودھری جو سلیم چودھری کو اسسٹ کر رہے تھے دوست بن گئے اس کی خواہش تھی میں انڈسٹری میں اسٹیبلش ہو جاؤں ۔ اسٹنٹ کیمرہ مین اور میں لودھی مرحوم خدا اسے غریق رحمت کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ مجھ سے محبت کرنے لگا تھا۔ وہ بہت سے ڈاریکٹروں اور پروڈیوسروں کے پاس مجھے لے کر گیا۔ اس کی انتہائی خواہش تھی کہ مجھے کسی فلم میں مرکزی کردار مل جائے مگر فلم انڈسٹری کا اپنا مزاج ہے اور خاص کر اس دور میں تو سٹوڈیو کا
۔۔14..۔۔چپڑاسی بھی اپنے آپ کو وزیر اعظم سے کم نہیں سمجھتا تھا . آج تو پھر بھی مزاج کچھ نرم ہے۔ ہمارا اپنا انداز تھا۔ را جیونیت میوپنا مجھے جھک کر سلام کرنا نہ آیا اور ادھر ہر گردن میں جیسے سریا دیا ہوا تھا۔ جلد ہی طبیعت اچاٹ ہو گئی۔ سلمیٰ ممتاز بہت اچھی عورت تھیں۔ ان کے خاوندان دنوں ریڈیو پاکستان پر پروگرام سیکرٹری تھے وہ دونوں مجھے یاد رہیں گے۔ ان کی بیٹیــ( لے پالک)، ندا ممتاز نے میرا ڈرامہ جو میں نے ٹی وی کے لئے لکھا تھا۔ ”ارے اب تو مان جاؤؔ” کے نام ہے ۔ اپنے کالج میں سٹیج کرنے کے لئے لیا۔ اور اب تک اس کے پاس ہے۔ اب وہ ٹی وی کی معروف اداکارہ ہے لاہور ریڈیو اسٹیشن پر ایک عبد الحئی صاحب تھے۔ اچھے انسان تھے ۔ ادب کی دنیا میں پروفیسر نعمان صاحب نبیرہ آزاد ۔ انہیں اردو ، فارسی ھندی اور عربی ادب پر عبور حاصل تھا۔ ڈاکٹر عبدالرشید تبسم ڈاکٹر تبسم رضوانی، عارف عبدالمتین صاحب خاص کر یاد رہینگے بیحد محبت کرتے تھے ان کے یہ الفاظ مجھے کبھی نہیں بھولیں تھے۔ کہ لوگ مجھ سے اپنی کتابوں پر تقریظ لکھوانے آتے ہیں، اور میری خواہش ہے کہ میں آپ کی کتابوں اور آپ پر کچھ لکھوں کبھی فرصت ہو تو آپنے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ سلیم صاحب، اعجاز صاحب ، یونس حسرت سے دوستی ہو گئی ، زندہ دل دوست تھے ۔ زیبا ناروی مرحوم فلم ڈائرکٹر خالد پرویز صاحب ” مان جوانی دا “,مسافر….17بنگلہ نمبر 9 مس نمبر ۵۶ جیسی فلموں کو اس نے ڈاریکٹ کیا ہے۔ بی اے، ایل ایل بی ہیں، پڑھے لکھے ڈایکٹر ہیں ۔ہم دونوں نے مل کر ایک فلم ” شریف ڈاکو شروع کی کہانی ، مکالمہ سکرین پہلے گانے وغیرہ میں نے لکھے تھے ۔ اس کے کچھ سین شاہ نور سٹوڈیو میں قلمبند کئے۔ پھر پروین صاحب کی بیماری اور گھریلو مسائل کی وجہ سے یہ فلم مکمل نہ ہو سکی ۔ اس کے دوران ہی میں سے میواتی زبان میں وڈیو فلم بنانے کا فیصلہ کیا ” قافلو” کے نام سے ۱۹۴۷ء میں میو قوم کی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کو اس کہانی کا موضوع بنایا. ہیر میں کوئی دو ہفتے ہم نے شوٹنگ کی۔ اس فلم میں رفیق ، صابر ، ظہور خاں نے کام کیا اور کئی لوگ تھے۔ مگر سبحان اور اس کے گھر والوں کی محبت میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ اس نے پوری ٹیم کا کھانے پینے اور رہائش کا انتظام اپنے ذمہ لیا ۔ سط تو یوں ہے کہ اس نے مہمانوں کی طرح ہماری خدمت کی اور کبھی اس کے اور اس کے گھر والوں کے چہرے کوئی ایسا تاثر نہیں دیکھا جس سے یہ احساس ہو کہ ہم سے تنگ آگئے ۔ اس شخص کو میو قوم سے عشق ہے ۔ اس کے نام پر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے اس قوم میں پچیس سبحان خان مل جائیں تو ہند دستان سے لے کر پاکستان تک بلکہ پوری دنیا میں میو قوم کا نام زندہ کر دوں ۔ خدا اس شخص کے جان مال میں برکت دے۔ ایسے لوگ اس قوم۔۔۔۔کے لئے با عث فخز ہیں ۔ یہ فلم مکمل ہوئی مگر اس کی ایڈیٹنگ کرنے والے نے ایسی تیسی کر دی ۔ اس کا ایک شو ہم نے قادی دنڈ قصور میں چلایا۔ ایڈیٹنگ کے بعد میں فلم کو نہیں دیکھ سکا تھا۔ ہوا یوں کہ قادی ونڈ کا ایک نوجوان اقبال اس فلم میں ایک رول کرچکا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ یہ فلم سب سے پہلے اس کے گاؤں میں لگے ۔ ایڈیٹنگ کے دوران مجھے چوٹ لگی جس کی وجہ سے میرا چلنا مشکل ہو گیا۔ اس طرح فلم پوری طرح ایڈیٹر کے رحم و کرم پر رہ گئی ۔ اقبال نے مجھے سے مشورہ کئے بغیر فلم کے اشتہار بانٹ دیئے۔ وقت پر ہم فلم نہ لے جا سکے ۔ دوسری بار پھر ایسا ہی ہوا۔ اس طرح بہت تیزی میں کام کرنے کی وجہ سے یہ ہوا کہ بمشکل آخری دن آخری لمحوں میں کام ختم ہوا، اور فلم کا فائنل پرنٹ دیکھنے کا مجھے موقع نہ مل سکا اور ہم پرنٹ اٹھا کر قادی ونڈ پہنچے گئے اور رات دس بجے جب سب لوگ مایوس کے ہو کر لوٹ چکے تھے ہم فلم چلا سکے ۔ مگر وعدہ خلافی اور آندھی اور بارش کے اباوجودذراسی بھنک پڑتے ہی دیکھتے ہی دیکھتے بہت لوگ اکٹھے ہو گئے جب میں نے فلم دیکھی تو اس کا حشر دیکھ کر درمیان میں بند کرنے کا مشور دیا، مگر لوگوں کا اصرار تھا کہ ہم پوری فلم دیکھیں گے۔ اسلم کا اس فلم میں ایک جاندار کردار تھا۔ اسمعیل ٹونٹا کی مزاحیہ اداکاری پر لوگوں نے جی بھر کر داد دی۔ اس کے بعد میں نے یہ فلم کہیں دوسری جگہ نہیں چلائی مجھے۔۔19…۔۔
اس میں مکمل نقصان اٹھانا پڑا۔ مگر یہ نقصان مجھے یہ ضرور بتا گیا کہ قوم ابھی زندہ ہے۔ اس مٹی کو ذرا نم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں بڑی زرخیزی ہے، اور یہی سوچ کر میں نے دوسری فلم ” سفر ” بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اور اس میں وہ تمام خامیاں دور کرنے کی کوشش کی جو نے تجربے میں رہ گئی تھیں ۔ اس کیلئے نو گانے ریکارڈ کئے جس کی موسیقی فلم انڈسٹری کے معروف موسیقار طالب حسین نے دی ۔ گیت مسرت جہاں اور اسمعیل ٹونٹا نے گائے ۔ جس سٹوڈیو میں گانوں کی ریکارڈنگ کی اسکے مالک منظور حسین فلم انڈسٹری کے معروف میوزیشن تھے ۔ اسے یہ گیت ایسے پسند آئے کہ اس نے بغیر معاوضہ لئے ایک گانے میں میوزک دیا ۔ یہ فلم کافی مکمل ہو گئی تھی۔ مگر اداکار فنکاروں میں آپس میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہونے کی وجہ سے یہ فلم نا مکمل رہ گئی ۔ یہ دوسرا بڑا نقصان تھا۔ جس کے لئے میں تیار نہیں تھا۔ اور یوں دل برداشتہ ہو کر خاموش ہو گیا۔ اس فلم میں، اسمعیل ٹونٹا ۔ اسلم ۔ اقبال احمد اور محبوب نمایاں اداکار تھے ، ایسے میو جوانوں کو اگر آرٹ کی دنیا میں آنے کا موقع ملے تو یہ قوم کی بہت خدمت کر سکتے ہیں اور اپنے فن کا لوہا منوا سکتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کو بذات خود برا نہیں کہا جا سکتا ۔ وہ فلم ہے ٹیلیویژن یا ریڈیو، اخبارات اور جرائد ہیں۔ خوبی یا خرابی ان کے استعمال میں ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے بغیر کسی قوم کا نہ ندہ رہنا یا اپنی موجودگی کا احساس دلانا۔ بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہے ہمیں ادھر آنا پڑے گا اس کو کفر کہہ کر دھتکارنا قوم کی موت پر منتج ہوگا ۔ افسوس ایک عظیم قوم آج مردوں میں شمار ہے ۔ اگلی فلم بنانے سے پہلے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ غیر معیاری میواتی ادب اور گانوں کے ذریعہ قوم کے امیج کو ڈاؤن کرنے والوں کے مقابلے میں زبان وبیان کے اعتبار سے ایسی تخلیق قوم کو دی جائے جو کسی بھی زبان کے ادب کے مقابلہ میں بے جھجک لائی جا سکے۔ اس سے نئی نسل کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ اپنی قومی عظمت کے گیت بھی سنائے جائیں کہ وہ اپنی حقیقت جان سکیں۔ دوسری زبانوں کے گیت اور مکالموں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زبان کے گیت اور مکالمے بھی بولیں اس کے لئے ” میں سبھا ” کے نام سے ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جس کا چندا فیس کچھ نہیں۔ سبھا کے ممبران آپ دوسرے کی مدد کریں گے۔ نجی اور سماجی زندگی میں اور اجتماعی مفاد کے لئے مل کر کام کریں گے۔ میرے گانوں کی میواتی کیسٹ میوسبھا کے تحت ” میری منجل پارلگادے “کے نام سے والیم نمبر ابھی اورنمبر2 عید کے بعد مارکیٹ میں یہ آجائیگا ۔ مجھے یقین ہے قوم کو مایوسی نہیں ہوگی، اور اس کی خامیوں اور خوبیوں سے متعلق خطوط اور۔۔۔۔۲۱۔۔۔
بالمشافہ مجھے آگاہ کرتے رہیں ۔ تاکہ آئندہ اس کی روشنی میں کام کیاجاسکے۔
میوسبھا کے تحت ہم کلچرل پروگرام ٹی ، وی اور ریڈیو ڈرامے اور فلمیں بنائیں گے ۔ امید ہے اللہ تعالٰی اس سلسلے کو آگےبڑھائے گا ۔ میو قوم اور میواتی ادب اور زبان سے لگاؤ کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اس جذبے میں یہ احساس کار فرما ہے کہ جسد قومی کا ایک عضو ناکارہ اور معطل کیوں رہے ۔ پاکستان میں کروڑوں کی تعداد میں آباد یہ قوم قومی زندگی میں فعال ہو ۔ بھارت میں کتنے کروڑ میں آباد ہیں۔ جن کی ایک تہذیب سے کلچر ہے زبان ہے۔ ایک بہت بڑا خطہ ہے ۔ یہاں کی آواز وہاں بھی سنائی دے ۔ ان میں حرکت پیدا ہو اور بھارت کے مسلمانوں کے لئے وہ علاقہ ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر کے اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ثابت ہو ۔ اسی خیال کے تحت میری یہ کوشش رہی کہ اس زبان کو اس قوم کی تاریخ اور تہذیب کو زندہ رکھا جائے اور نئی نسل کو میو قوم کے کارناموں سے روشناس کرایا جائے ۔ جہاں بھی موقع ملا میں نے اس کے لئے کام کیا، ایک فزیکل کالج کی پرنسپل صاحبہ نے کشمیر پر ایک وڈیو فلم بنانے کے لئے مجھ سے کہا اسی دوران فلم انڈسٹری کے میو فائٹر یا راہو مرحوم ۔۔۔۲۲۔۔
سے ملاقات ہوئی جو بہت اچھا انسان تھا۔ اس فلم میں بھی اسلم را ہو اسمعیل ٹونٹا اور اسلم کو میں نے کاسٹ کیا۔ میری کوشش تھی اس فلم میں میو قوم کا تذکرہ ہو ۔ مگر کیسے ۔ پھر میں نے ایک میو کر دار ڈاکو کے روپ میں مجاہدین میں شامل کیا۔ اس پر ان لوگوں نے کچھ اعتراض کیا مگر میں نے مطمئن کر دیا۔ وہ کردار کیا خوب تھا۔ دوستوں میں اگر رفیق شاہ صاحب اور قاضی امداد الحق کا تذکرہ نہ کروں تو یہ باب نامکمل رہے گا۔ شاہ صاحب عجیب زندہ دل انسان تھے کہ اس کے در سے مانگنے والا شاید ہی خالی گیا ہو ۔ وہ کوئی بڑے سرمایہ دار نہیں تھے ۔ مگر سادات کی سخاوت انہیں ورثے میں ملی تھی۔ جب تک وہ زندہ رہے ۔ مجھے مالی طور پر کبھی پریشانی نہ ہوئی۔ جب بھی ضرورت بڑی شاہ صاحب کو پیغام بھیجا اور بس ۔ یہ کبھی ہوا ہی نہیں کہ انہوں نے کبھی مایوس کیا، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے ۔ ان کے حالات کو خدا خیر و برکت سے نوازے۔
قاضی امداد الحق اللہ کے فضل سے حیات ہیں ۔ ان کے ہوتے میں خود کو ایک سائبان کے نیچے محسوس کرتا ہوں ان کو ذرا معلوم ہو کہ مجھے کوئی الجھن ہے تو وہ مجھ سے زیادہ میرے لئے پریشان رہتے ہیں اللہ تعالٰی ان کی عمر دراز کرے ۔ جان اور مال میں خیر و برکت دے ۔ ہماری یہ دوستی تقریبا تیس سالوں کو محیط ہے ۔ عمر میں مجھ سے بڑے۔۔۲۳۔۔۔
ہیں اور میں انہیں بزرگوں کی طرح احترام دیتا ہوں ۔ ان کے ہونے سے دل کو بہت ڈھارس ہے، اور جو جی میں آئے ا س بھرو سے سے کر گزرتا ہوں کہ خیر ہے۔ خدا نے مجھے قاضی امداد الحق سا دوست دیا ہے اور کیا چاہئے؟۔ ان کے چھوٹے بھائی قاضی نصیر الحق نے میری هکتاب ” مہکے گھاؤ” بغیر کسی لالچ اور طمع کے چھپوائی ۔ میں پیار سے اکثر پنڈت جی کہا کرتا ہوں ۔ لٹریری آدمی ہیں ۔ تیز مزاج خود دارا س کے مقابلہ میں امداد صاحب متحمل مزاج اور نرم طبیعت مگر جب گر می آئے تو پھر مقابل کی قوت کا اندازہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر ٹکرا گئے تو ٹکرا گئے ۔ جہاں گردش زمانہ نے زخم دیئے وہاں دوستوں نے محبتیں اور خلوص بھی نچھاور کیا ایسے اچھے لوگوں کی تعداد کم ہی سہی مگر غنیمت ہے ان سے مجھے حوصلہ ہے خدا انہیں سلامت رکھنے اور ہماری منزل آسان کردے ۔ آمین
مولا میری منجل پار لگا دے
-سکندر سہراب میوایم اے۔۔
سہراب منزل مکی سٹریٹ نمبر ۳ ،بالمقابل فائر بریگیڈ بند روڈ لاہور۔ یکم جنوری 96ء۔