You are currently viewing عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ
عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ

عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ

عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ

عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ
عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ

عہد نبوی میں طب و ادویہ کا مطالعہ
تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان

 

قرآن کی طرح پیغمبر اسلام (632- 570ھ)نے بھی مسلمانوں میں علوم کی محبت اور شیفتگی پیدا کی ہےاور انسان کی فکری و ذہنی صلاحیتوں کوابھاراہے۔ان علوم میںطب بطورخاص شامل ہے۔ مطالعہ طب کو فروغ اور طب و ادویہ کے ذوق کو عام کرنےمیںان کے ارشادات کی اہمیت تاریخ کےطالب علم سے نظر انداز نہیںہو سکتی ”ما انزل الله داء الا انزل له شفاء (خدانے کوئی مرض ایسا نہیںپیداکیاہےجس کا علاج نہ اتاراہو)صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 5678 |
۔”لكل داء دواء . فاذا اصيب دواء الداء برء باذن الله تعالی(مسلم) ‘‘ (ہر مرض کی دوا ہے۔ جب کسی مریض کے لیے دوا استعمال کی جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے فائدہ ہو تا ہے۔)
طب کی طرف ان کی خصوصی توجہ کی وجہ سے امام شافعی کا یہ جملہ العلم علمان علم الابدان و علم الادیان‘‘ ان کی طرف منسوب ہو گیا۔تخريج أحاديث الكشاف (1/ 459)
انسان کی بدنی و دماغی صحت پوری طرح آنحضرتﷺ کے پیش نظر تھی۔ صحت وعافیت کی فضیلت ان کے مختلف اقوال سے ظاہر ہوتی ہےمثلا ”سلو الله العفو والعافية والمعافاة ۔فما اوتی احد بعد اليقين، خير من معافاة ۔عليك لك جسمك سل الله العافية” أخرجه الترمذي (3558)، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (10717)، وأحمد (6) بنحوه، والمروزي في ((مسند أبي بكر)۔
کبھی تنہائی میں غور فرمائے کہ صحت وعافیت کتنی بڑی نعمتیں ہیں،اور انسان کتنابےپرواہے کہ انہیں نعمتیں ہی شمار نہیں کرتا۔اس وقت احساس ہوتا ہے جب یہ نعمتیں ہاتھ سے کھسک جاتی ہیں،طب نبوی انسانی نفسیات کو اس وقت بیدار کرتی ہےجب یہ لاابالی پن اور بے فکری میں مگن ہوتا ہے،واقعہ ہونے کے بعد تو سب ہی پند و نصائح کرتےہیںاورغفلت پرعاردلاتےہیں،بروقت آگاہی انسان کو بڑے خطرے سے محفوظ رکھتی ہے،پچھتانے سے بہتر ہے کہ بروقت توجہ کرلی جائے۔
اگر ہم گہرائی اور باریک بینی سے اللہ کی نعمتوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے بعد صحت خدا کی عظیم نعمت ہے۔ اس نعمت سے لاپروائی برتنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت اللہ کی امانت ہے۔ لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کیلئے اس کے ذاتی فائدے کے علاوہ اس کا دینی فریضہ بھی بنتا ہے۔ صحت کے بارے میں لا پرواہی ایک لحاظ سے امانت میں خیانت کے مترادف ہوگی۔ صحت کی حفاظت کےبارے میں ہزاروں حکماء، ڈاکٹروں اور فلاسفروں کےاقوال موجود ہیںمگر ہمارے لئے اصول ہمارےنبی پاک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھوڑےہیں۔ جن پر عمل کرکے ہم اچھی صحت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سی بیماریوں سے بچ سکتےہیں صفائی کی اہمیت نبی کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے۔کہ ”صفائی نصف ایمان ہے“یعنی صفائی کے بغیر مومن کاایمان مکمل نہیں ہوتا۔ صحت کی حفاظت کےچیدہ چیدہ اصولوںمیںجسمانی صفائی،ذہنی پا کیزگی، ماحولیاتی صفائی، صحت مند عادات، صحت بخش خوراک اور بر وقت علاج شامل ہیں۔
گوکہ آپ کی ذات گرامی اس سے ارفع و اعلی ہے کہ آپ کو عرف عام میں طبیب کہاجائےاور آپ کے علم طب کا کسی سے مقابلہ کیا جائے۔آپ طبیب الارواح نے طبیب الابدان بن کر تشریف نہیں لائے تھے۔ لیکن آپ کی جامعیت کمالات کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ آپ کی تعلیم سےروحانی صحت کےساتھ جسمانی صحت کو بھی فائدہ نصیب ہوا۔شریعت کی وضع طبی قوانین صحت کےلیے نہیں ہوئی اور نہ اس میں طبی عنوانات اورمباحث قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن کوئی ایسی چیز نہیںہے جو مضر صحت ہو اور شریعت نے اسے ممنوع یا مکروہ نہ کہا ہو۔ اور کوئی مفید صحت چیز ایسی نہیں ہے جسے شریعت نے مباح نہ قرار دیاہو۔ اورہر چند کہ معالجے کا کام پیغمبر کانہ تھا مگر انسانیت کی بہبود اور عام لوگوں کی بھلائی کےلیے آپ نے علاجی فریضہ بھی انجام دیا۔ انہیں دراصل اسلام میںپہلے طبیب کا مرتبہ حاصل ہے،رینان کو دوسرے فضائل کے ساتھ ان کی طبی فضیلت کا اعتراف ہے۔ ہمعصر طبیب شمردل نے شہادت دی تھی کہ آپ مجھ سے زیادہ علم طب سےواقف ہیں(الاسلام والطب صفحہ3)

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply