حجرات ازواج مطہرات رضوان اللہ علیھن کے بارہ میں تحقیق
تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
عامر کہتے ہیں لم یوص رسول اللہ ﷺالابمساکین ازواجہ وارض ترکھا صدقۃ[ابن سعد ۸/۱۶۷] عطاء خراسانی کہتے ہیںمیں عمران بن ابی انس کی مجلس میں تھا وہ اس وقت قبر اور ممبر کے پاس تھے ہم نے دیکھا کہ حجرات کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے ہیںاور انکے دروازون پر بالوں کا بنا ہوا پردہ لٹک رہا ہے اسی دوران ولید بن عبدالملک کا حکم آیا کہ حجرات کو مسجد نبویﷺمیں شامل کردیا جائے میں نے اس دن سے زیادہ رونے والے کسی دن نہ دیکھے عطاء کہتے ہیں میں نے سعید ابن المسیب کو کہتے سنا قسم بخدا مجھے یہ پسند ہے کہ ان حجرات کو ان کی حالت پر رہنے دیا جائے [ابن سعد ۸/۱۶۷] کیونکہ انہیں تیار کرکے نبیﷺ نے جس طرح حق مہر ادا کردیا ایسے ہی انہیں گھر وں کے حقوق بھی تفویض کردئے گئے تھے کیا دیکھتے نہیں کہ روایات میں یوں آتا ہے نبی ﷺ فلاں زورجہ کے گھر تشریف لے گئے اور حجرہ عائشہ میں آج بھی اسودہ ہیں ازو ا ج مطہرات اپنے اپنے گھر و ں میں رہا کرتی تھیں اس لئے انکے حجرات میں کسی نے آج تک کوئی تصرف نہ کیا اگر یہ انکی ملکیت نہ ہوتے تو وراثت میں باغ فدک کی طرح ان میں بھی بحث و مباحثہ ہوتے۔ یہ وہ قطعات اراضی ہیں جونبیﷺ نے خرید کر ان کا حق ملکیت ازواج مطہرات بخش دیا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو مانورث ترکنا صدقۃ کی مد میں یہ بھی آتے۔ نبیﷺ کو جو ہدایا و تحائف آیا کرتے تھے انہیں تقسیم فرمایادیاکرتے تھے۔ اوربعد از وفات النبیﷺ نان و نفقہ کی ذ مہ داری تو وہ امت پر عائد ہوتی ہے [الکنز المدفون سیوطی]اس سے بڑا ملکیت کا کیا ثبوت ہوگا کہ ازواج مطہر ا ت نے اپنے حق ملکیت کو استعمال کیا اور اپنے حجرات کو جب جی چاہا فروخت کیا حضر ت سودہ نے اپنا حجرہ فروخت کیا [۶/ ۳۴ مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۴۹۳ التاریخ الکبیر ۱/۱۰۹ بخار ی تلخیص الخبیر۴/۱۱۷[المستدرک ۴/۲۵]
حضرت ابوبکر نے اپنا ایک گھر ضرورت کے تحت فرو خت کیا تو اسے چار ہزار میں حضرت حفصہ نے خریدا [الحاوی للفتاوی سد الابواب]اسی طر ح فتح الباری میں ہے کہ حضرت حفصہ سے چار ہزار درہم میں انکی جگہ خریدی گئی کیو نکہ مسجد کی تو سیع کے لئے ضروری تھی [فتح البار ی ۷/۱۴] مثلاََ حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنے گھر کے بارہ میں حضرت عائشہ کے لئے وصیت فرمائی اورانہوں نے اس گھر کو حضرت امیر معاویہ کے ہاتھ فروخت کیا ۔اسی طرح حضرت صفیہ کے وارثین نے انکے مکان کو حضرت امیر معاویہ ؓکے ہاتھوں (2,80,000)دولاکھ اسی ہزار میں فرو خت کیا۔ ابن سعد کہتے بعض اہل شام کا کہنا ہے حضرت امیر معاویہؓ نے اس مکان کو خرید ااور حضر ت عائشہ کو اس کا حق تفویض کردیا کہ جو چاہیں اس میں تصرف فرمایئں [الطبقات الکبری ابن سعد ۸/۱۶۴] ابن تیمیہ لکھتے ہیں:لما وسع المسجد فی خلافۃ الولید بن عبد الملک وکان نائبہ علی المدینۃ عمر بن عبد العزیز امرہ ان یشتر ی الحجر ویزیدھا فی المسجد[کتب ورسائل فی العقیدہ۱/۳۷مجموع الفتاوی ابن تیمیہ ۲۷ / ۸ ۴۱] ۲] کہ خلافت ولید بن عبد الملک میں جب مسجد نبوی کی توسیع کا خیال آیا تو خلیفہ نے مدینہ میں اپنے نائب عمر بن عبد العزیز کو لکھا کہ حجرات کو خرید کر مسجد کی توسیع کردی جائے اگرھجرات انکی ملکیت نہ تھے تو انہوں نے فروخت کیسے کردئے ؟ ذاد المعاد کی روایت کے مطابق ہر روز بعد نماز عصر ہر ایک بیوی کے پاس انکے گھروں میں تشریف لے جایا کرتے تھے ان کی ضرو ریا ت کا پوچھتے پھر جس بیوی کی باری ہوتی اس کے ہاں رات قیام فرماتے نبیﷺ کی وراثت صدقہ تھی لیکن حجرات میں کسی قسم کا دعوی دیکھنے میں نہیں آیا ایک اور نکتہ ذہن میں آیاہے۔ سورہ احزاب کے مطابق جب ازواج مطہرات نے اپنے نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ تو انہیں کہا گیا کہ اگر اس سے زیادہ کی ضرورت ہے تو آئو تمہیں کچھ لے دے کر فارغ کردیں یعنی جو ملتا تھا اس سے زیادہ کا مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن یہ مقصد تو ازواج مطہرات کی زندگیوں کا نہ تھا بلکہ انہیں تو ایک خاص مقصد کے لئے بیت نبوی ﷺ کی جمع کیا گیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ نبیﷺ ہر سال ہر بیوی کو ایک خاص مقدار میں کھجور اور جو دیا کرتے تھے ہر ایک بیوی کا ایک خاص حصہ مقرر تھا ہجر ت سے پہلے تو مال خدیجہ کام آتا رہا بعد از ہجرت تحائف و غنائم کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔اس کے علاوہ ازواج مطہرات میں کئی ایک امراء و روء سا کی بیٹیاں تھیں انکی مالی حالت کافی مضبوط تھی لیکن فیضان نبوت ﷺ کے سامنے دنیا کی ہر حقیقت ماند پڑ گئی تھی اور دنیا کی بے حقیقتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو بھی آیا فوراََ تقسیم کردیا حتی کہ شام کی افطاری کے لئے بھی کچھ نہ بچتا تھا ہر ایک زوجہ کے حالات میں سخاوت کے عنوان سے اس کی بہت دلیلیں اسی کتاب میں موجود ہیں۔