- Home
- قانون۔تہذیب و تمدن
- جنگ کے بعد قوموں ...
جنگ کے بعد قوموں کے حالات
قرآن، حدیث اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں
تعارف
جنگ انسانی تہذیب کے لیے ایک المیہ ہے جو نہ صرف زندگیوں اور وسائل کو تباہ کرتی ہے بلکہ معاشرتی، اخلاقی اور نفسیاتی طور پر دیرپا زخم چھوڑ جاتی ہے۔ قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور بین الاقوامی قوانین دونوں ہی جنگ کے بعد کے مصائب کو اہمیت دیتے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مضمون ان تینوں ذرائع کی روشنی میں جنگ کے بعد کے اثرات کا جائزہ پیش کرتا ہے۔
۔ قرآن مجید کی تعلیمات
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جنگی ظلم اور اس کے نتائج کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔ چند آیات درج ذیل ہیں:
فساد اور تباہی کی مذمت
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ”
(البقرہ 2:205)
ترجمہ: “اور جب وہ (ظالم) اقتدار پاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔”*
یہ آیت جنگ کے بعد معاشی اور سماجی تباہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
انسانی اعمال کا نتیجہ
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ”
(الروم 30:41)
ترجمہ: “خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے۔”
جنگوں کے بعد قدرتی آفات یا معاشرتی بگاڑ کو انسانی گناہوں کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
اجتماعی آزمائش
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً”
(الأنفال 8:25)
ترجمہ: “اور اس آزمائش سے بچو جو صرف تم میں سے ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گی۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جنگ جیسی تباہیوں میں صرف مجرم ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ مبتلا ہوتا ہے۔
۲۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں
رسول اللہ � نے جنگ اور اس کے بعد کی تباہیوں کے بارے میں واضح تنبیہات فرمائی ہیں:
ظلم کی مذمت
جب لوگ ظلم دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، تو قریب ہے کہ اللہ کا عذاب سب پر چھا جائے”* (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم)۔
یہ حدیث اجتماعی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
قیادت کا کردار
جب کسی قوم کے بزرگان فاسق ہو جائیں تو اللہ ان پر عام مصیبت نازل فرماتا ہے”* (المعجم الکبیر للطبرانی)۔
جنگ کے بعد قیادت کی نااہلی معاشرے کو مزید مشکلات میں دھکیل دیتی ہے۔
۳۔ بین الاقوامی قوانین کا موقف
بین الاقوامی قوانین بھی جنگ کے بعد کے مصائب کو کم کرنے کے لیے واضح ہدایات دیتے ہیں:
جنیوا کنونشنز (1949)
- آرٹیکل 27: غیر فوجیوں کی حفاظت اور ان کے انسانی حقوق یقینی بنانا۔
- آرٹیکل 33: اجتماعی سزاؤں اور انتقامی کارروائیوں کی ممانعت۔
لاء آف وار (ہیگ ریگولیشنز) - آرٹیکل 23: آبادیوں کو بھوکا رکھنے یا طبی امداد روکنے کی مذمت۔
- آرٹیکل 28: مقبوضہ علاقوں میں لوٹ مار کی ممانعت۔
روم اسٹیٹ آف ICC (2002) - آرٹیکل 8: جنگی جرائم پر فرداً فرداً ذمہ داری۔
- آرٹیکل 7: جنگی ماحول میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات۔
انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (1948) - آرٹیکل 25: جنگ زدہ علاقوں میں خوراک، رہائش اور طبی سہولیات کی فراہمی۔
تجزیہ اور موازنہ
قرآن و حدیث اور بین الاقوامی قوانین دونوں میں مشترکہ نکات ہیں:
1غیر فوجیوں کی حفاظت:
اسلام میں “لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ” (الأنعام 6:151) کا اصول جنیوا کنونشنز سے ہم آہنگ ہے۔
2اجتماعی ذمہ داری:
حدیث میں “ظلم کو روکنا” اور ICC میں “جرائم کی روک تھام” ایک ہی مقصد رکھتے ہیں۔
3انصاف کی فراہمی
قرآن میں “وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ” (النحل 16:126) کا حکم بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ہے۔
اختتامیہ
جنگ کے بعد کے مصائب صرف فوجی نقصان نہیں بلکہ انسانی وقار کی پامالی ہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات اور بین الاقوامی قوانین دونوں ہی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسانی زندگی اور حقوق کو فوقیت دی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری ان اصولوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور جنگ زدہ معاشروں کی بحالی کے لیے اجتماعی کوششیں کی جائیں۔
حوالہ جات:
- قرآن پاک: سورۃ البقرہ، الروم، الأنفال۔
- سنن ابی داؤد، المعجم الکبیر۔
- جنیوا کنونشنز 1949، ہیگ ریگولیشنز، روم اسٹیٹ آف ICC۔