جلق ایک موذی مرض
جس نے لاکھوں خواتین کوکھوکھلا کردیا ہے
جلق ایک موذی مرض
جس نے لاکھوں خواتین کوکھوکھلا کردیا ہے
از
مجدد الطب
ناقل۔تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
حلق اور نفرت جماع
جلق سے حس طبعی کی بجائے آلات تناسل میں سوزش اور خراش کی صورت بن جاتی ہے جس سے ایک خاص قسم کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے جو اس تحریک سے بالکل مختلف ہوتی ہے جوتحر یک جماع کے لئے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک نوجوان عورت کا ذکر ہے لیکن حالات عورت اور مرد دونوں پر منطبق ہو سکتے ہیں۔
ایک بورڈنگ سکول میں ایک لڑکی پڑھا کرتی تھی جہاں پر وہ حلق کی بد عادت سے روشناس ہوگئی۔ اس نے بغیر کسی پیش بندی اورپس و پیش کے جلق کو اپنا شعار بنا لیا۔ پھر17 سال کی عمر میں اس کی شادی ہوگئی ۔ اس کو بہت خوشی تھی کہ آئندہ اس کو ایک اعلی درجہ کی لذتوںسے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ لیکن آہ! نا امیدی کا ستیاناس ہو کہ شادی سے بجائے خوشی کے اس کو بے حد دکھ اور تکلیف حاصل ہوئی۔ شادی بجائے خوشی کے اس کے لئے درد وغم کا سرچشمہ بن گئی۔ کیونکہ خاوند کی بغل گیر یوں سے اس کو کوئی حظ حاصل نہیں ہوتا تھا اور جب بھی اس کا خاوند ہم بستری کی کوشش کرتا تو وہ تشنج میں مبتلا ہو جاتی اور کتنی دیر تک اس کا یہی حال رہتا۔
حقیقت یہ ہے کہ حلق کی تحریک چونکہ جماع کی تحریک سے مختلف ہوتی ہے اور حلق میں دوسرے کی پابندی نہیں ہوتی۔ جب چاہا اورجتنی بار چاہا اپنی مرضی کے مطابق جلق کر لیا۔ لیکن جماع میں دوسرے کی پابندی اور جنسی تحریکات مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں اس لئے جماع سے نفرت ہو جاتی ہے۔ یہ جلق کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس سے انسانی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاج میں بڑی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
جلق ،مستورات میں بڑھتا ہوا خطرناک رجحان
جلق کی بد عادت صرف مردوں ہی میں نہیں ہوتی بلکہ مردوں سے زیادہ عورتوں میں یہ بدی اپنا گہرا اثر کر لیتی ہے۔ یہ عادت کسی خاص قوم یا ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمگیر طور پر اس جنس میں یہ عمل کیا جاتا ہے۔ ہر عمر کی عورتیں اس بد عادت میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ بچپن سے لے کر ادھیڑ عمر تک کی عورتوں کو اس مرض میں مبتلا دیکھا گیا ہے۔ غیر شعوری عمر میں جو بچیاں اس مرض میں مبتلا ہو جاتی ہیں اس کی وجہ اکثر وراثتی امراض خصوصا آتشک و سوزاک اور خارش وغیرہ ہوتی ہیں یا ان کے والدین میں جنسی جذبات کی شدت ہوتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتاہے کہ بچیوں کو پیشاب کے بعد صاف نہیں کیا جاتا جس سے جسم میں سوزش ہو جاتی ہے اور خارش کی صورت بن جاتی ہے۔ اس طرح بچیوں کو بغیر جانگیہ کے مٹی پر کھیلنے کے لئے بٹھا دیا جا تا ہے۔ جسم میں خراب قسم کی مٹی خشکی اور سوزش پیدا کردیتی ہے۔ نتیجہ میں وہاں پر خارش کرنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے بلکہ بچیوں کو بے چینی سے خارش کرتے دیکھ کر مائیں یا نوکرانیاں خود اپنے ہاتھ سے خارش کرتی ہیں اور اس طرح بچیاں اس لذت کا شکار ہو جاتی ہیں۔
بعض جنسی بھوک میں مبتلا عورتیں لذت کی خاطر جس کو غلطی سے پیار کا نام دے کر بچوں کے جسم سے کھیتی ہیں اور پیار میں مبتلا رہتی ہیں، مگر اپنی جہالت سے یہ نہیں سمجھتیں کہ وہ ان کو کس مصیبت میں دھکیل رہی ہیں۔ ایک غریب گھرانے کی بچی کو اسی قسم کی خارش پیدا
////////////////////////////
ہوگئی جوشدید سوزش کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کی عمر دو سال سے زیادہ نہ ہوئی۔ جب اس کو اس تکلیف کا دورہ پڑتا تو وہ دروازہ کی دہلیز پر چلی جاتی اور شدت سے اپنے جسم کو رگڑتی۔ اس کا جسم زخمی ہو جاتا۔ اس کی ماں پاس کھڑی دیکھتی رہتی مگرکچھ نہ کرسکتی۔ معلوم ہوا کہ اس کے والدین میں اپنی بھوک کی شدت غالب تھی۔
نوجوان لڑکیاں شہوانی گفتگو با شہوانی نظاروں یا اس قسم کی کتابوں اور رسالوں کے پڑھنے یا تصاویر دیکھنے یا اس پر عادت میں مبتلا سہیلیوں کے ساتھ بے تکلف ہونے سے اس بدی میں پڑ جاتی ہیں۔ ااکثر نوجوان لڑکیوں کونوکرانیوں وغیرہ سے بھی اس کی تعلیم مل جاتی ہے۔ ایام حیض ایسا وقت ہے کہ اس قسم کی عادات بدکے واسطے آمادگی طبیعت میں پیدا ہو جاتی ہے بلکہ بسا اوقات طبیعت مجبور ہو جاتی ہے جیسے جسم کی شدید خارش اور سوزش میں رگڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
عورتوں میں جلق کی علامات
. لڑکیوں اور عورتوں میں جلق کی بد عادت پڑنے کے بعد فورا ہی ان میں اس کے نتائئج علامات کی صورت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ سب سے پہلے چہرہ پر آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ پہلے رنگ میں زردی پیدا ہونا شروع ہوتی ہے، پھر چہرہ پر ایک قسم کاخمیرا ابھرنے لگتا ہے ،آنکھوں کے گرد سیاہی مائل حلقے پیدا ہونے لگتے ہیں، آنکھیں بے رونق اور سست ہو جاتی ہیں۔ لب اور رخساروں کی مرضی ختم ہو جاتی ہے۔ اس طرح چہرے کی خوشگواری بالکل زائل ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ جرات اور بے باکی ختم ہو جاتی ہے اور ندامت و شرمندگی اور خوف کے ملے جلے اثرات جسم پر نمایاں ہو جاتے ہیں اور جسم کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
ان علامات کے علاوہ زنانہ اعضاء پر سخت اثر پڑ کر ان میں نقائص پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایام حیض میں بے قاعدگی اور ماہمیت میں فرق لاحق ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات حیض کی رنگت سیاہ ہو جاتی ہے اور اس سے سخت بدبو آنے لگتی ہے اور ساتھ ہی پشت اور رانوں میں سخت درد ہونے لگتا ہے۔ رحم اور اندام نہانی اور بیرونی حصے میں اکثرورم معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ رحم اپنی جگہ سے نیچےگر کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس سے اس قدر تکلیف رہتی ہے کہ بعض اوقات مریضہ کے ساتھ قبر تک جاتی ہے۔ ایک خاص قسم کی رطوبت جسے سیلان الرحم (لیکوریا) کہتے ہیں ۔ اندرون جسم سے برابر جاری رہتی ہے۔ بعض دفعہ اس کی کثرت کا یہ حال ہوتا ہے کہ اندر کے کپڑے وغیرہ تر ہو کر باہر بہنے لگتی ہے۔ جسم کے جن مقامات پر یہ رطوبت لگ جاتی ہے وہاں پر بھی سوزش وجلن اور خارش ہو جاتی ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی طور پر دماغ پریشان رہتا ہے۔ نفسیاتی قوتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ جو عورتیں یا لڑکیاں اس بد عادت میں پھنس جاتی ہیں وہ اپنے شوہروں سے، خواہ کیسے ہی خوبصورت اور جوان ہوں، سخت نفرت کرتی ہیں۔
آخر میں ایک خوفناک مرض پیدا ہو جاتا ہے جس کو ذکاوت شہوانی (نمفومینیا) کہتے ہیں۔ اس مرض میں اعضائے جنسی میں حد درجہ کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے اندام نہانی میں سخت تکلیف کا احساس قائم رہتا ہے۔ جب تک اس مرض کا علاج باقاعدگی سے نہ کیا جائے، آرام نہیں آتا۔
حیرت انگیز واقعہ
ایک مشہور ڈاکٹر جوطبی مصنف بھی تھا وہ اپنا تجربہ اور مشاہدہ لکھتا ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ کچھ عورتیں آئیں۔ ان سب میں جلق کے اثرات پائے جاتے تھے اور یہ بدعادت ان میں عرصہ سے چلی آئی تھی جس کا خود انہوں نے اپنی زبان سے میرے سامنے اقرار کیا۔ اتقا تاان کو اس مضمون کی ایک کتاب ہاتھ لگ گئی، جس کو دیکھ کر ان کو معلوم ہوا کہ وہ کیسے مہیب اور مصیبت کا سامان اپنے لئے تیار کر رہی تھیں۔ پھر انہوں نے میری طرف رجوع کیا۔ چونکہ میں نے بہت سی عورتیں دیکھی تھیں جو اس بد عادت کی وجہ سے لیکوریا (سیلان الرحم) ریڑھ کا درد، درد اعصاب، در و پشت میں مبتلاتھیں۔ مگر میں نے ان کو بتایا کہ یہ تمام امراض ان کی ایک ایسی غلطی اور بد عادت کا نتیجہ ہیں جس کو جلق کہتے ہیں۔ وہ یہ سن کر وہ سب دنگ رہ گئیں۔
دلچسپ واقعہ
ایک معروف ڈاکٹر لکھتے ہیں کہ کوئی دو سال گزرے ایک نوجوان عورت عمر تقریبا ۲۳ سال میرے زیر علاج رہی۔ یہ نہایت سخت جنون کے مرض میں مبتلاتھی۔ یہ انتہائی تند مزاج وطیش آور اور تقریبا دیوانی تھی۔یہ کئی ماہ سے اس مرض میں مبتلائی۔ جب تک میرے زیر علاج رہی زرد رو تھی خون کا تو اس میں گویا نام تک نہ تھا۔ بھوک بہت ہی کم تھی۔ بسا اوقات کھانا بالکل ہی نہ کھاتی تھی۔ اس کا جسم صرف پوست واستخواں باقی رہ گیا تھا۔ ایک دن میں نے اس کو معمول سے زیادہ برقرار اورصحیح مزاج پایا۔ میں نے موقعہ پا کر اس سے عادت جلق کا تذکرہ چھیڑا اور اس کو جتلا دیا کہ اگر یہ مجلوق ہے تو ہرگز آرام نہ ہوگا جب تک کہ یہ اس بد عادت سے کنارہ نہ کر لے گی۔
اس نے میری بات مان لی اور اقرار کیا کہ واقعی وہ اس عادت میں پھنسی ہوئی ہے اور ساتھ ہی وعدہ کیا کہ آئندہ وہ اس سے حسب ہدایت بالکل احتراز کرے گی اور دو تین ہفتے بعد اس کی حالت سدھر گئی۔ رفتہ رفتہ اس کی صحت اچھی ہوتی گئی۔ اس کا دل اور زبان اچھا ہوتا گیا اور چند ہفتوں بعد وہ بالکل تندرست ہوگئی۔
اس کا صحت یاب ہونا بالکل ناممکن تھا۔مگر جلق کی بدعات کے چھوڑ دینے میں اس کی صحت مندی کا راز مضمر تھا۔
جلق اور عزت نفس
ایک مشہور و معروف ڈاکٹر لکھتے ہیں کہ جلق جس طرح مردوں میں ہے اس سے بڑھ کر مستورات میں عام ہی نہیں بلکہ عالمگیر بھی ہے۔ لیکن ایسی عورتوں کی صحیح تعداد بتانا ناممکن ہے۔ لیکن سب سے بڑافسوس یہ ہے کہ اگر مردوں کو دیکھا جائے تو ان میں نوے فیصدی صاف صاف لکھ دیں گے کہ وہ اس مرض جاتا جانکاہ میں مبتلا ہیں۔ لیکن مستورات میں دس فیصدی سے بھی ایسی امید کرنا سراسر فضول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی ممالک میں ایسے واقعات کا علم اتفاقا ہوتا ہے۔
مسزگورڈ ایسے لیکچروں میں جو انہوں نے مستورات کے سامنے دیئے ہیں خود اپنی نسبت بیان کرتی ہیں کوئی آٹھ سال گزرے
کہ میری توجہ اس بد عادت کی طرف ایک طبی کتاب دیکھ کر مبذول ہوئی جس میں میری ہم جنس مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یہ پہلا واقعہ تھا کہ مجھ کو معلوم ہوا کہ میری ہم جنسوں میں بھی یہ بدی اس قدر پھیلی ہوئی ہے۔ اس وقت سے مجھ کو متواتر شہادتیں ملتی رہی ہیں کہ یہ بدی نہایت خوفناک حد تک عورتوں میں بھی پھیلی ہوئی ہے ۔ اگر یہ بدی صرف غربا میں ہوتی تو اتنا تعجب نہ تھا، مگر افسوس کہ یہ غریبوں سے لے کر امیروں اور شریفوں میں بھی بکثرت موجود ہے جو سوسائٹی کا فخر سمجھے جاتے ہیں۔ میں ایک اعلی درجہ کی معزز خاندان کی امیر اور درمیانہ عمرلیڈی کے ایک خط کا خلاصہ پڑھ کر سناتی ہوں جس سے معلوم ہوگیا کہ مستورات میں اس بدی کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
”جب میری عمر سولہ سال کی تھی تو ایک نوکرانی سے مجھ کو اس بدعادت کی تعلیم ملی اور جب تک میری شادی نہ ہوئی میں کوئی دوسال تک اس میں مبتلا رہی۔ اس اثناء میں میری صحت جو پچھلے دو سالوں میں کسی قدر خراب ہوگئی تھی مجھے کہ اس کی وجہ معلوم نہ تھی اچھی ہوگئی اور تندرست و توانابچے میرے بطن سے پیدا ہوئے کوئی چھ سال گزرنے کہ بدقسمتی سے میرے شوہر کو مجبور اََکاروبار کے سلسلہ میں ہندوستان کا سفر کرنا پڑا۔ اس کی عدم موجودگی میں پھر میں نے اپنی پچھلی بدی اختیار کر لی اور اس کی واپسی تک اس میں پھنسی رہی۔ چنانچہ اس سے مجھ کو مختلف اقسام کے امراض پیدا ہونے لگے اور اب بے اختیار مجھ کو معلوم ہونے لگا کہ میں غلطی کر رہی تھی۔ تاہم مجھ میں اتنی جرات نہ تھی اور نہ ہی اتنی دلیری کہ اس کو ترک کر دوں اور ڈاکٹر کا مشورہ لوں۔ آخر کار میرے شوہر کو میرا عیب معلوم ہو گیا اور مجھ کو مجبور کیا کہ میں اس بد عادت کو چھوڑ دوں۔ جواب اس کومیں نےلکھا کہ میری اب یہ حالت ہے کہ میری کمر اور رانوں میں متواتر درد رہتا ہے۔ رحم نیچے گر پڑا اور کسی قدر آگے بڑھ گیا ہے۔ علاوہ ازیں متواتر ایک قسم کے مادے کا اخراج ہوتا رہتا ہے جو رانوں میں جس مقام پرگرتا ہے وہاں پر ورم ہو جا تا ہے۔ ایام حیض میں بے قاعدگی ہوگئی ہے اور سیاہ رنگ کا غلیظ مادہ خارج ہوتا رہتا ہے جس سے تکلیف ہوتی ہے۔ مجھ کو بواسیر بھی ہے۔ شوہر کےساتھ ہم صحبت ہونا ناممکن ہے مگر تعجب ہے کہ پچھلے دنوں سے میرے دل میں قدرتی طور پر اپنے شوہر کی طرف سے سخت نفرت پیدا ہوگئی ہے جو ایک تندرست نوجوان اور خوبصورت شخص ہے اورجس پر کہ میں اپنی جان دیتی تھی۔ میرے بال جو پہلے میرے سر پر بکثرت تھے اب سفيد ہوتے جارہے ہیں اور جلد جلد گرنے لگے ہیں۔ میرے چہرے پر دانے نکل آئے ہیں اور میرے ہمسائے مجھ پر شراب خوری کا الزام لگاتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس قدر بدنصیبی میں مبتلا ہوں کہ بعض اوقات بے اختیار تنگ آ کر میرا دل چاہتا ہے کہ ہمارے باغ کے نیچے جو دریا بہہ رہا ہے اس میں کود پڑوں اور اس طرح اپنی جان دے دوں۔
جلق اور مستورات
ذیل کے امراض عورتوں کو صرف جلق کی وجہ سے لا حق ہونا ممکن ہیں: حد درجہ کا عصبی مزاج ہونا، حد سے بڑھ کر شرم، اختلاج قلب، آواز کا کم ہونا، طاقت کا زائل ہوتا،بدۃجمی، دردسر، بے قاعدہ اور بے سبب درد، زرد اور بے خون چہرہ نظر آنا، حلقہ دارآنکھیں، دانتوں کا درد، در واعصاب، بدن پر گوشت کی کمی۔
علاوہ ان کے بے شمار خفیف تکالیف کا ہونا، جو اس بدی کے شکار کو لاحق ہوتی ہیں۔سخت عصبی امراض، صرع، ہسٹریا ( اختناق الرحم)، ورم رحم، رحم کا بے قا عدہ محل وقوع، نفسانی قوع اور اعضاء کی سستی اور بالآخر قطعی بے کاری۔
پاک و ہند میں جب کنواری لڑکیوں کو جن بھوت اور چڑیلوں کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتیں نظر آتی ہیں تو سمجھ لو کہ یہ مجلوق ہے۔ اس قسم کی لڑکیاں شادی ہو جانے کے بعد بھی ان اثرات کے زیر اثر رہتی ہیں۔ اس قسم کی لڑکیوں اور عورتوں کی یہ اکثر عادت ہوتی ہے کہ وہ خوشی وغمی جیسے خاص موقعوں پر بے ہوش ہو جایا کرتی ہیں اور عالم بے ہوشی میں مختلف متبرک یا خوفناک صورتوں کا دیکھنا بیان کرتی ہیں۔ ایسی لڑ کیوں اور عورتوں کو ذرا ذرا سی بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ اگر ان کی مرضی کے مطابق کوئی بات نہ کی جائے تو کئی کئی دنوں تک غصے میں بھری رہتی ہیں اور غصے کی وجہ سے درد سر اور درد شکم میں مبتلا رہتی ہیں۔ جس کا اظہار وہ وہاں پر پٹی باندھ کر کرتی ہیں۔ بلکہ اکثر اپنی شدید بے چینی سےبے ہوش ہو جاتی ہیں ۔ یا ان کے پیٹ میں ہوا کا گولا بن جاتا ہے۔ پیٹ کا پھول جانا اور بدہضمی تو روزانہ کی بات ہوتی ہے اور ہمیشہ بھوک بند ہونے کی شکایت کرتی رہتی ہیں۔ لیکن جب کھانے کا وقت آتا ہے تو سب سے زیادہ کھانا کھاتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر لذیذ و مقوی اور مون اغذ یہ خاص طور پر کھائی جاتی ہیں۔ جن میں حلوہ پوری اور پراٹا، گھی میں تر بتر ، دودھ یا بادام کی کھیر، یہ، مغزیات کے لڈو، اسی قسم کی کوئی اور مٹھائی کھائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بھی کہا جاتا ہے کہ بیماری اور بھوک نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں کھایا جاتا۔ ایسی لڑکیاں اور عورتیں نہ کسی اور کے گھر رہ سکتی ہیں اور نہ کسی اور کو کھاتا دیکھ سکتی ہیں۔ ہر لڑکی کے فیشن پر اعتراض اور ہر عورت کی شکل کا منہ بناتی ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے جنسی جذبات کی شدت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر سجھدار معالج ذرا ان کی طبیعت کوسجھ کر علاج کرے تو ان کو بہت جلد آرام آجاتا ہے۔
جلق پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں جن میں اس کے اسباب اورنتائج بھی شامل ہیں۔ تاہم اختصار کے ساتھ ان کے اسباب درج ذیل ہیں: (۱) صحبت بد اور فحش خیالات کا پرچار (۲) کثرت شہوت (۳) اولاد کی طرف سے بزرگوں کی غفلت (2) سنگ مثانہ (۵) سوزش جگر (۲) کرم امعاء (4) سوزش غلفہ (۸) ریگ گردہ (۹) عصبی فتور وغیرہ۔ اسباب سے جنسی تحریکات کا احساس ہونے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے خیالات قبل از وقت اعضائے تناسل کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور پھرادنی سی تحریک پر وہ حلق کے خوگر ہو سکتے ہیں۔
اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو جہالت و ناواقفی ایک بڑا سبب اور اصل سرچشمہ اس بد عادت کے اختیار کرنے کا بن جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسانی صحت کو کسی چیز سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا کہ اعضائے تناسل کے علم کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ قابل شرم و حیا خیال کیاجاتا ہے۔ انسان کو بدن و روح دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پھر روح کو غالب اور بدن کو مغلوب قرار دے کر اعضائے تناسل کی طرف سے ایسی چشم پوشی اختیار کر لی گئی ہے کہ گویا وہ بدن کا کھ بے خبری اور بے پروائی ہم پر نئے نئے حملے کر کے آتی ہے۔
ہم نہیں کہتے کہ بچوں کو اعضائے تناسل کی تشریح اور فزیالو جی پڑھا کر ان کے نقصانات سے آگاہ کر دیا جائے۔ بلکہ والدین کو بقدر ضرورت ان بد عادات کے نقصانات کا علم ہونا چاہئے تا کہ وہ بچوں کی نگرانی کریں ۔ ان میں اگر ایسے خطرناک اثرات محسوس کریں تو ان کو معانی کے پاس نے جا کر ان تحریکات کے اسباب معلوم کر کے ان کا بچپن ہی سے باقاعدہ علاج کرا دیں تا کہ وہ جلق اور اس قسم کی دوسری بد عادات سے محفوظ رہ سکیں۔
علامات
اس مرض کے بیمار نہایت ہی پست ہمت اور بزدل ہوتے ہیں۔ چہرہ اداس، طبیعت غمگین، کاروبار سے بے پروا، اورمجلس سے گریزاں، رنگ زرد، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ، نہایت شرمیلا مزاج، ہر وقت آنکھیں نیچے کئے ہوئے ، آنکھیں ملا کر بات چیت نہ کر نا۔ہتھیلیوں اورتلوئوں میں سرد پسینہ عورتوں کی صحبت سے گریزاں اور اکثر تنہائی پسند ہوتے ہیں۔
علاج بالتدبير
پہلے اس بد عادت کو رفع کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس غرض کے لئے اطباء نے کئی طریقے تجویز کئے ہیں۔ مریض کو اس عادت کا ایک زمانی احساس ہوتا ہے، اس لئے خیال آنے پر وہ بے اختیار آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آ دی کیانی تجھ دار ہو طلق
کے نقصانات سے کتنا ہی واقف ہو، خیال آتے ہی بے بس ہو جاتا ہے اور کارروائی شروع کر دیتا ہے۔ اس لئے رفع عادت کے لئے صرف پند ونصائی ہی کافی نہیں ہو سکتے۔
اس بد عادت سے دور رکھنے کے لئے اول صورت یہ ہے کہ قضیب پر آبلہ انگیز ادویہ کا ضماد لگا دینا چاہئے ، تا کہ درد کی وجہ سے مریض قضیب پر ہاتھ پھیرنے کی جرات نہ کر سکے۔ دوسرے آبلہ انگیز ادویہ اعصابی ہوتی ہیں اور اعصابی ادویہ رطوبات پیدا کرتی ہیں، جن سے شہوت کم ہوجاتی ہے
Please mention mren elaaj b
Okay