You are currently viewing جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے
جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے

جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے

جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے

جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے
جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے

جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے

از: مجددالطب

پیش کردہ: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور

جسم انسان کوکیسی غذاکی ضرورت ہے

انسان اشرف المخلوقات ہےفلسفہ ارتقاء کے تحت انسان کا مقام حیوان سے اعلیٰ وافضل ہے۔اس لئے انسان کی غذا حیوانات پرہے۔اس پردلیل یہ ہے کہ بچے کی پہلی غذاماں کادودھ ہے جوحیوانی غذاہےجب انسان بڑاہوتاہےتواس کی غذاحیوانی گوشت ہوتا ہےجس میں انڈے اور مچھلی بھی شریک ہے۔اس حیوانی غذامیں انسانی زندگی وقوت اور صحت کوقائم رکھنے کےلئےسب اجزاء ہوتے ہیں لیکن جب انسان کوحیوانی غذامیسرنہ رہی یاوہ قلیل ہوگئی توپیٹ بھرنے کےلئے انسان نے پھلوں اور میوہ جات کا استعمال شروع کردیا۔ان میں ایک طرف پیٹ کےلئے تسکین تھی اور دوسری طرف ان میں غذاہضم کرنے کی بھی قوت تھی کیونکہ پھلوں اور میوہ جات میں غذاؤں کے کم وبیش اجزاء کے ساتھ نمکیات کی کثرت ہوتی ہے جوخون کےلئے ضروری ہیں۔

جب دنیا میں تہذیب پھیلی اور ہرطرف تمدن کا دور دورہ ہواتوحیوانی غذاؤں اورپھلوں ومیوہ جات پرقوت ودولت اورحسن کاقبضہ ہوگیاتوکمزوراورغریب عوام کےلئے غذا کاحصول مشکل ہوگیااورانہوں نے اصل غذاکی بجائےاناج اورسبزیوں سے زندگی اورقوت وصحت کےلئے پیٹ پُری شروع کردی۔مغلوب ہونے کی وجہ سے وہ اس کے سوا اورکربھی کیا سکتے تھےلیکن گوشت وچربی اوردودھ وگھی میں جوغذائیت وقوت ہے وہ اناجوں اورسبزیوں سے کیسے حاصل ہوسکتی ہے لیکن رفتہ رفتہ انہی اناجوں ،دالوں، چاولوںاورسبزیوں کو ضرورت کے مطابق گوشت،انڈوں، دودھ،چربی اورگھی سے ملاکرپکانے سے ان میں غذائیت وقوت اورلذت پیداکرلی گئی جس کا نتیجہ یہ ہواکہ کمزوراور غریب عوام کے ساتھ ساتھ صاحبِ ثروت وقوت ودولت اورمالکِ حسن نے بھی ان چیزوں کوکھانا شروع کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ اصل غذائیت کی اہمیت انسان کے دل سے نکل گئی اوراصل قوت جس سے وہ درندوں اور شیروں سے لڑاکرتاتھا ختم ہوگئی اور وہ اپنی طاقت کو قائم رکھنے کےلئے دواؤں اور زہروں کااستعمال کرنے لگا۔

گوشت کے اثرات

جسم انسان کے تمام عضلات جن کامرکزدل ہے یہ سب گوشت ہے اس کامزاج ترگرم ہے اورجب پک جاتاہے تو گرمی تری میں معتدل ہوجاتاہے اور یہی انسان کابہترین مزاج ہے۔گوشت کی بناوٹ میں فولاد اورچونابہت کثرت سے پایاجاتاہے۔جگراورتلی میں فولاد کی کثرت ہےاورمعدہ وپھیپھڑوں میں چونے کا خزانہ ہے۔اسی طرح مختلف قسم کے اعضائے حیوانی مختلف اقسام کی رطوبات وحرارت اورنمکیات اور دیگراجزاءء خون بناتے ہیں۔ان میں سے اگرکسی کوبھی استعمال کیاجائے گا وہ جسم میں جاکروہی اثرات واجزاءء پیداکرے گا۔علاج بالغزاکےلئے یہ بہت بڑا خزانہ ہے۔

مختلف چرند،پرنداورحیوانات کے گوشت میں قدرت نے بڑافرق رکھاہے۔اگر ہم بکری کے گوشت کامزاج کے لحاظ سے معتدل خیال کریں تو زیادہ بہترہے۔کیونکہ اس حرارت اور رطوبت اور ریاحی مادے تقریباًمعتدل ہیں۔ اگراس کے مقابلےمیں بھیڑ،دنبہ،گائے اوربھینس کے گوشت کواستعمال کریں توان میں بکری کی نسبت حرارت کم ،رطوبت اور ریاحی مادے زیادہ ہیں۔اسی طرح اگربکری کی نسبت مرغی اوربطخ اور تیتروبٹیر وغیرہ پرندوں کے گوشت استعمال کئے جائیں توان میں حرارت ورطوبت زیادہ اور ریاحی وارضی مادے کم ہیں چونکہ انسانی زندگی کوقوت اورصحت کےلئے پرورش وربوبیت کی زیادہ ضرورت ہے اس لئے بکری کے گوشت سے لے کر پرندوں کے گوشت تک کااستعمال زیادہ مفیدہے۔جسم میں سوزش،ورم اوردردوبخار کےلئے یہی گوشت مفیدہے۔البتہ اگر جسم میں حرارت و صفراء کی زیادتی سے رطوبات اور ارضی مادوں کی کمی ہوجائے توپھرگائے بھینس کے گوشت اکسیرکاکام کرتے ہیں۔

انسان چونکہ گوشت پکاکرکھاتاہے اوراس میں مختلف قسم کے مصالحہ جات ڈالتاہےاس میں حرارت کی زیادتی کے ساتھ ساتھ ہضم کی بھی زیادتی ہوجاتی ہے۔گوشت اچھی طرح گلا کرکھانا چاہئےتاکہ اس کاایک ایک ریشہ ہضم ہو کر خون اورجزو بدن بن جائے۔کچاگوشت وحشت پیداکرتاہے اور بجائے قوت اور صحت کے تکلیف اورامراض پیدا کرتاہے۔

انڈے اورمچھلی

ہرقسم کے انڈے اورمچھلیاں بھی گوشت میں شریک ہیں جن پرندوں کے انڈے ہوتے ہیں وہی تاثیررکھتے ہیں۔ مچھلی کے گوشت میں حرارت سے زیادہ رطوبت غالب ہے۔اس لئے بہت جلد گندی اورمتعفن ہوجاتی ہے اس تعفن سے اعصاب میں انتہائی تیزی پیدا ہوجاتی ہے جس سے جسم میں چونے اورفولادکی نہ صرف کمی واقع ہوجاتی ہے بلکہ جلد کارنگ خراب ہوکرسفید داغ اور دھبے پڑجاتے ہیں۔مچھلی کے ساتھ رطوبت والی اغذیہ مثلاًدودھ اور دہی کھانے سے اس کو جلد متعفن کردیتاہے۔جب تک مچھلی جسم میں جاکر متعفن نہ ہواس کانقصان نہیں ہوتا چاہئے اس کے ساتھ کچھ کھالیاجائے۔مچھلی کھانے والوں کواس امرکی تاکیدہونی چاہئے کہ مچھلی ہمیشہ تازہ بلکہ زندہ لے کر پکائی جائے پھر اس سے کبھی نقصان نہیں ہوتااوربے حد مفید ثابت ہوتی ہے اس میں جوانی قائم رکھنے کی بہت بڑی طاقت ہے۔

دودھ اور گھی

دودھ کوآبِ حیات اورگھی کوتریاق کہنا زیادہ مناسب ہے۔انسان کی زندگی دودھ سے شروع ہوتی ہےاور باقی تمام زندگی اگر میسرآئےتودودھ مکھن ،دہی اور گھی پر گزار دیتاہے۔ان اشیاء کے استعمال سے انتہائی قوت اورصحت قائم رہتی ہے اور انسان لمبی عمرپاتاہے۔دودھ کامزاج ترگرم ہے اورجس جانورکادودھ ہوتاہے اپنی رطوبت کے ساتھ گرمی کے وہی اثرات اپنےاندررکھتاہے۔سفیداور سیاہ جانوروں کادودھ زیادہ زیادہ رطوبت اور سردی کی طرف مائل ہوتاہےجیسے گدھی کادودھ،گھی کامزاج گرم ترہے۔جسم انسان کے اندرکسی قسم کی سوزش،ورم اوردردوبخارہواس کا شرطیہ تریاق ہے۔جس ملک میں خالص گھی ملتاہووہاں تپ دق وسل نہیں ہوسکتا۔فالج وذیابیطس کےلئے بے حد مفیدہےاس کاجسم پرایساہی اثرہوتاہے جیسے پرزوں پرتیل اثرکرتاہے۔یہ حیوانی گندھک ہے دوسرے معنوں میں اس کو روغن گندھک کہہ دیں جس کے لئےکیمیادان ترستے ہیںکہ ہردھات کوسونابنادیتاہے۔اسی طرح یہ گھی بھی جسم میں سونےکے خواص پیدا کردیتاہے۔ہماری رائے میں انسانی غذاصرف گھی ہےجوکبھی گوشت کبھی دودھ اور کبھی اناج کےساتھ کھایاجاتاہےاورزندگی وقوت اورصحت بخشتا ہے۔ بناسپتی اس کے مقابلے میں زہرہے۔یہ تیل سے تیارہوتاہے۔تیل جسم میں تیزاب پیداکرتاہےگندھک پیدانہیں کرتااورجب تیل میں تیزادویات اور گیسیں شامل کرکےاس کوگھی بنایاجاتاہےتووہ زہربن جاتا ہے۔ دوسرے معنوں میں بناسپتی اورصابن کانسخہFormula))ایک ہے۔صابن گاڑھا ہوتا ہے اور بناسپتی گھی رقیق ہوتاہے اس میں جس قدر چائیں وٹامن ملالیں اس کے زہرہونے اورنقصان پہنچانےمیں کوئی کمی نہ ہوگی۔گویاقوت اورصحت کےلئے نقصانِ عظیم ہے۔

شہد
حیوانی اغذیہ میں شہدبھی شامل ہے۔جوشہدکی مکھیاں پھلوں اورپھولوں سے تیارکرتی ہیں۔اس میں قدرت کی جانب سےانتہائی مٹھاس کے ساتھ انتہائی حرارت کے اثرات پائے جاتے ہیں۔اس کے دوتین چمچےکھانے سےجسم فوراًگرم ہوجاتاہے۔باوجود انتہائی گرم ہونے کی وجہ سے جسم کے اندرکی ہرقسم کی سوزش اورورم کے لئےانتہائی مفیدہے۔ ان مقاصد کےلئے اس کاشربت یاچائےوقہوہ میں ڈال کراستعمال کرنامفیدہے۔شہدکامزاج گرم ترہے لیکن دیگر اغذیہ اور پانی کے ساتھ ہرمرض میں استعمال کیاجاسکتاہے۔کیونکہ یہ اپنی حرارت کی وجہ سے جگراوراعصاب کےلئے بے حد مقوی اورمحرک اثرکرتاہے۔شہد تیار کرنے کا موجودہ اورمروجہ طریقہ سے جوشہدحاصل ہورہاہے وہ ان خواص ،افعال واثرات کا حامل نہیں ہوتا جو قدرتی شہدکے اندرہوتی ہیں۔علاوہ ازیں شہد کی ایک قسم گلوکوزکی بھی ہے۔یہ نباتاتی مٹھاس ہےاوریہ شہدکانعم البدل ہرگزنہیں ہوسکتا۔ان کافرق ایساہی ہے جیسادیسی گھی اوربناسپتی کاہے۔گلوکوزکامزاج ترسرد ہے اس میں جتنے بھی وٹامن شامل کرلئے جائیں وہ شہد کی طرح نہیں ہوسکتااورشہد ہر مرض میں گلوکوزسے بدرجہابہترہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

This Post Has One Comment

Leave a Reply