چوٹ لگنے سے اعضاء کا بے حس ہوجانا۔
بے حس اعضاء کاتیربہدف دیسی علاج
از حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
آج کل روڈ ایکسیڈنٹ بکثرت ہورہے ہیں ۔بے شمار لوگ اعضاء کے مفلوج ہونے کی وجہ سے بستر مرگ تک پہنچ گئے ہیں۔مفلوج زندگی اور محتاجی کی وجہ سے گھر والوں پر بوجھ بن گئے ہیں بھاری اخرجات نے مالی مشکلا ت میں اضافہ کردیا ہے۔اس گھبیر صورت حال کو طب قدیم و جدید کے حوالے سے بیان کیا جارہا ہے۔۔
گوکہ جدید میڈیکل میں بے حسی کا علاج مشکل اور مہنگا ہے۔لیکن دیسی طب اور اسلامی ۔یونانی طب میں اس کا شافی علاج موجود ہے۔میڈیکل ایسے مریضوں کو نیرو سرجن کے حوالے کرتی ہے جبکہ اس کا علاج دیسی طب میں اتناہی آسان ہے جتنا کہ دیگر امراض کا۔لیکن معلومات نہ ہونے کی وجہ سے معالجین ایسے مریض لینے سے گھبراتے ہیں۔
ہم طب کی معرکۃ الارا کتاب۔الحاوی فی الطب۔رازی کے حوالے سے کچھ باتیں لکھتے ہیں۔
خدر کیا ہے
خدر کی بیماری برودت کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ جن اعضاء میں یہ پیدا ہو جاتی ہیں ان میں حس و حرکت بمشکل ہو پاتی ہے ۔ مکمل طور پر برودت لاحق ہو جائے تو حس و حرکت قطعا موقوف ہو جاتی ہے۔ مزمن ہو جانے کی صورت میں استرخاء کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک شخص اپنی سواری سے گر گیا۔ پشت کو زمین سے سخت دھچکا لگا۔ تیسرے دن آواز کمزور اور چوتھے دن بالکل بند ہو گئی۔ دونوں پیر ڈھیلے پڑ گئے تا ہم ہاتھوں کو کوئی گزند نہ پہونچا۔ تنفس میں رکاوٹ ہوئی نہ دشواری۔ ایسا ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ اس حالت کے اندر گردن کے نیچے نخاعی مقام سوج گیا تھا۔ اس لئے پسلیوں کے درمیانی عضلہ میں استرخاء پیدا ہوا جس سے تنفس تو بہتر رہا مگر آواز بند ہو گئی۔ کیونکہ آواز کا تعلق حجاب حاجز سے اور چھ فوقانی عضلات سے ہوتا ہے۔ نفحہ ( جھونکا ) جو آواز کا جوہر ہوتا ہے وہ بھی موقوف ہو گیا کیونکہ اس کا تعلق بین اصلاحی عضلہ سے ہوتا ہے۔ اطباء نے جہالت سے پیروں پر دوالگانی چاہی۔ میں نے منع کیا اور دوا اس جگہ لگائی جہاں گرنے سے چوٹ پہونچی تھی۔ ساتویں روزنخاعی درم میں سکون پیدا ہوا تو آواز واپس آگئی اور پیر درست ہو گئے ۔ ( جالینوس) ہاتھوں کو کوئی ضرر اس لئے لاحق نہیں ہوا کہ اس کے اندر اعصاب عنقی نخاع سےآتے ہیں۔ (مؤلف)
ایک شخص اپنی سواری سے گر گیا، چھوٹی انگلی ، اس کے پاس کی انگلی اور بیچ کی انگلی کا حصہ بے حس ہو گیا ہے۔ مجھے جب پتہ چلا کہ گرنے کے بعد چوٹ گردن کے آخری مہرے کو پہونچی ہے تو نتیجہ نکالا کہ ساتویں مہرہ کے بعد جو عصب واقع ہے اس کے دہانہ کے شروع ہی پر ورم آگیا ہے۔ کیونکہ علم التشریح سے یہ بات معلوم تھی کہ گردن سے نکلنے والے آخری عصب کے اجزاء میں سب سے نچلا جزء چھوٹی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی میں آتا ہے اور ان دونوں کی جلد نیز بیچ کی انگلی کے نصف جلد میں پھیل جاتا ہے۔ ( جالینوس)
مرض سکتہ۔
مرض سکتہ چونکہ اچانک لاحق ہوتا ہے اس لئے اس بات کی علامت ہے کہ کوئی غلیظ یالیسدار بار د خلط ، شریفہ ) ، اور رفعہ (1) جیسے بطون دماغ کے اندر بھر گئی ہے۔ بیماری سخت ہے یا ہلکی۔ اس کا اندازہ تنفس کی کمی اور بیشی سے ہوگا۔ تنفس میں وقفے ہوا کرتے ہیں۔ بیماری کی حالت میں سانس کی آمد ورفت نہایت دشواری کے ساتھ اور یہ مشقت ہو گی۔ عارضہ دماغ کو لاحق ہو جائے تو مریض فور امر جائیگا ۔ کیونکہ ایسی صورت میں تنفس رک جائے گا اور چہرے کے اعضاء حرکت نہ کر سکیں گے ۔ عنقی نخاع کے اندر بیماری پیدا ہونے پر چہرے کے تمام
(1) شریفہ : دماغ کی رقیق وغلیظ دونوں تھلیوں کے اند ر واقع ہونے والے بطون۔
(۲) رفعیہ دماغ کے وہ بطن جو بھیجہ کے اند ر واقع ہیں۔
عضلات حرکت کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اعضاء مسترخی ہو جائیں گے ۔ گردن کے نچلے حصے میں بیماری ہو تو تنفس محفوظ رہتا ہے مگر ما سوا موقوف ہو جاتے ہیں۔ بیماری نخاع کے کسی ایک حصے میں لاحق ہو تو وہ حصہ مسترخی ہو جائے گا۔ غرض بیماری ان اعضاء کے اندر ہو گی جن کے اعصاب ماؤف ہوں گے ۔ ( جالینوس)
مریض بے حس و حرکت پڑا ہوا ہو تو یہ سکتہ کی حالت نہیں ہے کیونکہ سبات میں بھی ایسا ہوتا ہے اس حال میں دیکھو کہ مریض خراٹے لے رہا ہے اور تنفس یہ مشقت جاری ہے تو سمجھو کہ سکتہ ہے۔ عام طور پر یہ حالت فالج ہو جانے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ ( جالینوس)
جالینوس نے کہا ہے کہ کوئی عضو مسترخی ہو جائے تو دوائیں عصب کے اگنے کے مقام پر لگائیں ہم نے کچھ ایسے لوگوں کا شافی علاج کیا ہے جن کے پیروں کے اندر رفتہ رفتہ استرخاء پہ ہو کیا تھا ، چنانچہ دوائیں ہم نے قطن (پشت کے زیریں حصہ ) پر لگائیں۔ اس طرح پیروں پر کوئی دوا استعمال کئے بغیر وہ صحتیاب ہو گئے۔ (مؤلف)
ایک اور شخص کے چوتڑ میں زخم ہو گیا تھا۔ دوران علاج گوشت گھل چکا تھا۔ صحت یاب ہوا تو پیروں کی دشواری حرکت پھر بھی باقی رہی۔ ہمیں قیاس آرائی سے معلوم ہوا کہ یہاں کسی عضو کے اندر ورم ہو گیا ہے چنانچہ اس جگہ پر محلل ادویہ کا استعمال کیا گیا جس سےمریض صحت یاب ہو گیا۔ (مؤلف)
کسی بیماری کے بعد استر خاء پیدا ہو جائے تو ان مقامات کو سخونت (گرمی) پہونچاؤ جو ماؤف اعصاب کے اگنے کے مقامات ہیں کیونکہ یہاں اخلاط باردہ ہوتے ہیں۔ کیفیت ضربہ یا سقطہ کے بعد پیدا ہوئی تو غور کر کے دیکھو۔ استرخاء مشکل ہو گیا ہو ، حرکت ذاتی بالکل واپس
نہ آتی ہو، حرکت کا کوئی شائبہ موجود نہ ہو تو سمجھ لو کہ عصب کٹ چکا ہے۔ لہذا علاج کی کوشش نہ کرو۔ بر عکس از یں عضو کے اندر کسی طرح کی حرکت موجود ہو اور دیکھو کہ وہ آگے کی جانب بڑھتا ہے سمجھو کہ یہاں ورم موجود ہے لہذا تحلیل و ملین ادویہ استعمال کرو ۔ (مؤلف)
ایک شخص دریا میں مچھلیوں کا شکار کر رہا تھا۔ شکار کرتے ہوئے مثانہ اور وہ جگہیں سرد ہو گئیں جو مقعد کے پہلو میں واقع ہیں۔ چنانچہ بول و براز بلا ارادہ خارج ہونے لگے ۔ مسخن ادویہ کے استعمال سے مریض کو فوری شفا ہوئی۔ دوائیں ہم نے ماؤف عضلہ پر رکھی تھیں۔ ماؤف مقام اگر نہایت اندر کی جانب ہو تو شفا کی رفتارت ہو گی۔ اس کے لئے قوی تر دواؤں کا استعمال ضروری ہے۔ ( جالینوس)
بالخصوص جبکہ بیماری اس عصب کے اندر ہو جو عظم اعظم سے لگتا ہے ۔ (مؤلف)
ایک اور شخص کا سر بارش میں بھیگ گیا۔ اسے سخت ٹھنڈک پہونچی ۔ چنانچہ سر کے جلد کی حس جاتی رہی۔ اطباء جلد کو خشونت (گرمی) پہونچا رہے تھے ۔ مجھے چونکہ یہ معلوم تھا کہ سر کی جلد ان چار اعصاب سے جس قبول کرتی ہے جو پشت کے اولین مہروں سے نکلتا ہے لہذا
میں نے انہی مقامات کا علاج کیا چنانچہ مریض صحت یاب ہو گیا۔ ( جالینوس)
یہاں تکلیف مذکورہ بالا مقامات پر تھی نہ کہ اعصاب کے اگنے کی جگہوں پر ۔ اسے نگاہ میں رکھو۔ (مؤلف) غرض ہر عضو کی جانب آنے والے اعصاب کے اگنے کے مقامات جن کے علم میںرہیں گے ان کے لئے علاج کرنا آسان ہو گا ۔ ( جالینوس)
اس کے لئے جوامع الاعضاء الآلمہ کا مطالعہ کرو۔ (مؤلف) ایک شخص کے خنازیر کا علاج کرتے ہوئے پہلو سے اوپر کی جانب واقع ہونے والےعصب راجع کو کاٹ دیا گیا۔ نتیجہ میں مریض کی آواز موقوف ہو گئی۔ اسی طرح ایک اور شخص کے علاج میں گوشت اور اعصاب کا چھٹا جوڑا جو سبات کے دونوں شریانوں کے نزدیک واقع ہے کھل گیا۔ مریض صحت یاب تو ہو گیا مگر آواز کمزور ہو گئی۔ اس کے لئے ادویہ مسخنہ استعمال کی گئیں۔ ( جالینوس)
جسم کے کسی حصہ میں کسی عضو کو ماؤف دیکھو مثلاً ایک ہاتھ ، ایک کان یا ایک آنکھ ماؤف ہو گئی ہو اور حس و حرکت جاتی رہے تو یہ سمجھو کہ تکلیف عضلہ کے مبداء میں اس طرف ہے جہاں وہ اگتا ہے لیکن دونوں ہونٹوں کے اندر آفت ہو تو یہ سمجھو کہ وہ مقام سب کا سب ماؤف ہو چکا ہے ۔ جہاں سے اعصاب کا جوڑا بر آمد ہوتا ہے۔ کچھ عصبی بیماریاں قریب کے جوڑے گاہ قبول بھی کر لیتے ہیں۔ ( جالینوس)
عرصہ در از تک پشت کے بل لیٹنے سے نخاع کمزور ہو جاتا ہے۔ ( جالینوس) طبیعی اطباء نے اختلاف کیا ہے۔ فالج اور رعشہ کے باب میں انھیں شک وشبہ ہے۔ ان کے خیال میں نخاع کے اندر کسی ایسی بیماری کا پیدا ہو نا ممکن نہیں ہے جو نصف نخاع تک محدود رہے۔ البتہ قطع و برید کی صورت میں ممکن ہے۔ مگر طبعاً ایسی کیفیت کا پیدا ہونا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں میں رعشہ بیک وقت کیسے ہو سکتا ہے؟۔ جبکہ ہاتھ کا نخاع پیر کے نخاع سے اوپر واقع ہے۔ کتابوں کے اندر اس سلسلہ میں پیچیدہ اقوال ملتے ہیں۔ (مؤلف)
آفت جب دماغ کے بطن مؤخر میں ہو تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔ نصف حصہ میںہے تو فالج اور کل حصہ میں ہے تو سکتہ ہو گا۔ ( جالینوس) فالج میں تشخیص کے لئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ نصف دماغ کا نہ کہ نصف تجویف کا مزاج فاسد ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لئے اعصاب اور دماغ سے اگن والا نخاع سب ماؤف ہوں گے ۔ (مؤلف)
جالینوس نے مذکورہ کتاب کے چوتھے مقالہ میں کچھ اور باتیں بھی لکھی ہیں جن سے مذکورہ بالا خیال کی تائید ہوتی ہے۔ بایں ہمہ فالج کسی ایک پہلو ہو اور چہرہ صحیح و سالم ہو ، کسی طرح کی تبدیلی اس کے اندر واقع نہ ہوئی ہو تو مذکورہ خیال کی ہم تائید نہ کریں گے ۔ نصف نخاع کا طول میں علیل ہونا برُا ہے۔ ایسی صورت میں بیماری اعصاب کے اگنے کے مقامات پر ہو گی۔ لہذا علاج میں انھیں کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ یہ نہایت انوکھی اور حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ہی حالت میں ہاتھ اور پیر کے اعصاب کے مبادی ماؤف ہوں۔ لہذا یہ بات ذہن کے ذخیرہ میں رہے۔ الاعضاء الآلمہ کے پہلے مقالہ میں جالینوس نے یہ بھی کہا ہے کہ نصف نخاع طول میں ماؤف ہو سکتا ہے الفاظ اس طرح ہیں کہ گاہ آفت اس کے یعنی نخاع کے دائیں جانب اس طرح ہوتی ہے کہ بایاں پہلو قطعاً متاثر نہیں ہوتا۔ گاہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔ اور بر عکس جانب کے اعصاب ماؤف ہو جاتے ہیں۔ نخاع اگر فی نفسہ موجود ہو اور آفت نخاع سے نکلنے والے اعصاب کے کسی ایک شعبہ میں ہو تو مجھے کے طور پر اس عضو کے اندر استرخاء پیدا ہو جائے گا۔ جس میں اعصاب کا یہ شعبہ داخل ہوتا ہے۔ ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ بیک وقت کئی شعبے ماؤف ہوں مگر نخاع صحیح و سالم ہو ۔ ( جالینوس) اس جگہ جالینوس کی بات قابل غور ہے۔ عصب کے مبدا کی جو بات اس نے کسی ہے ایسا لگتا ہے ، جیسے اس کے نزدیک یہ کوئی انوکھی بات ہے کہ نصف نخاع طول میں تو ماؤف ہو مگر بقیہ نصف متاثر نہ ہو۔ جالینوس اس مقام پر فالج کا کوئی سبب دریافت کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس کا قول ہے کہ یہ ممکن ہے کہ بیک وقت اعصاب کے اگنے کے بہت سارے مقامات ماؤف ہو جائیں مگر نہایت عجیب و غریب یہ ہے کہ ہم یہ اتفاق قرار دے لیں کہ نصف نخاع ہمیشہ ماؤف ہو گا اور
.15 Page 13 to 1958
بقیہ نصف اس حد تک مامون رہے گا کہ اس کے فعل میں کسی طرح کا نقص واقع نہ ہو ۔ اس جگہ درم یا ضفظہ کی کیفیت میں کس قدر حیرت کی بات ہے کہ نصف نخاع تو اس حد تک ابتر ہو جائے کہ اس کا فعل موقوف ہو جائے مگر نصف آخر مامون رہے۔ آفت سوء مزاج کے باعث ہو تو مذکورہ بالا کیفیت کا موجود رہنا اور زیادہ خراب ہے ۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ دماغ اپنے تمام بطوں میں دو دو ہے۔ چنانچہ جسم کے کسی پہلو میں استرخاء پیدا ہو گا تو آفت بھی دماغ کے اس پہلو میں ہو گی۔ لیکن چہرے پر آفت کا کچھ اثر نمایاں نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ کے اس حصہ یہ بہن میں آفت زیادہ سخت نہیں ہے۔ اس سے قریب تر حصوں کا فعل باقی رہے گا۔ بایں ہمہ اس کا ماؤف ہونا ضروری ہے۔ اگر یہاں یہ محسوس نہ ہو ، نیز دور کے حصوں میں بھی نمایاں نہ ہو تو یقینی ہے کہ آفت اس جگہ مکمل طور پر نمایاں ہو کر رہے گی۔ کیونکہ آفت اصل اور سر چشمہ سے جب دور ہوتی ہے تو قوت کا اثر ست ہوا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خود نخاع بھی دو دو ہیں۔ گو تشریح سے یہ حصے ظاہر نہیں ہوتے۔ (مؤلف)
مبد آنخاع کے شروع میں کوئی ایسی آفت لاحق ہو جائے جس کے سبب یہاں آنے والی قوتوں میں رکاوٹ پیدا ہو جائے تو چہرے کے سوا جسم کے تمام حصوں میں استرخاء پیدا ہو جائے گا۔ جیسا کہ مبد انخاع کے نصف حصہ میں آفت لاحق ہونے سے اس پہلو میں فالج ہو جایا کرتا ہے۔ ( جالینوس) یہ بات ہمارے اس قول کے قریب تر ہے کہ بطن مؤخر جہاں سے نخاع نکلتا ہے دودو ہے یا یہ کہ آفت فی نفسہ خود جرم دماغ میں پیدا ہوتی ہے ، چنانچہ یہاں سے جو چیزیں نکلتی ہیں وہ بھی ماؤف ہو جاتی ہیں۔ (مؤلف)
فالج کے ساتھ گاہ چہرے میں بھی استرخاء پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سمجھیں کہ آفت دماغ کے اندر ہے۔ لیکن چہرے کے اعضاء محفوظ ہوں تو سمجھنا چاہیے کہ آفت مبد انخاع کے اندر ہے۔ کیونکہ صراحت سے یہ بات کہی جا چکی ہے کہ دماغ اپنے بطوں میں دو دو ہیں۔ ورنہ ایک ہو اور آفت یہاں لاحق ہو تو چہرے کے دونوں پہلوؤں میں استرخاء پیدا ہو جائے گا۔ مبد آنخاع کے پاس دماغ کے دونوں حصے ماؤف ہوں تو سکتہ اور ایک حصہ ماؤف ہو تو فالج لاحق ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سکتہ کا فالج میں تبدیل ہو جانا اسی وقت ہوتا ہے جب دماغ کے فضلہ کو سب سے کمزور پہلو کی جانب دفع کرنے لگتا ہے
16۔Page 14 to 1958
الغرض ساری بات معلق کی ہے۔ یا تو دماغ دو دو حصوں میں مانا جائے۔ مگر یہ بھی مشکوک ہے۔ آخر دماغ کا ایک بطن ماؤف ہوتا ہے تو کیونکر دوسرا حصہ محفوظ رہتا ہے۔ یہی حال نخاع کا بھی ہے یا پھر یہ مانا جائے کہ خود جرم دماغ ہی ماؤف ہوا کرتا ہے۔ مگر اس میں بھی
شک ہے ۔ لہذا طبیعی مباحث کے اندر اس پر سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔ ( جالینوس)
کتاب المفاصل کے اندر بقراط کا یہ قول ہے کہ گردن کے مہرے اندر کی جانب زائل ہو جائیں تو اس سبب سے انسان مفلوج نہیں ہوتا۔ البتہ کسی ایک پہلو کی جانب زائل ہو جائیں تو اس سے فالج لاحق ہوتا ہے جو صرف دونوں ہاتھوں کی حد تک رہے گا۔ ان سے آگے نہ
بڑھے گا۔
گردن کے مہرے اگر اندر کی جانب اس طرح مائل ہوں کہ اس کے ساتھ نخاع لپٹا ہوا نہ ہو تو فالج لاحق نہ ہوگا ، بشر طیکہ میلان تھوڑا تھوڑا ہو ، بر عکس از میں ان کا میلان اس طرح ہو کہ ساتھ میں نخاع بھی لپٹا ہوا ہو تو نیچے کے تمام حصہ جسم میں فالج ہو جائے گا۔ ( جالینوس)
جالینوس کے اس قول اس کا میلان تھوڑا تھوڑا ہو ” کا مطلب میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ زیادہ حصہ اس طرح مائل ہو جائے کہ اس سے دائرہ کا ایک قطعہ بن جائے جیسا کہ حد بہ (کبڑا پن ) کے اندر ہوتا ہے۔ لیٹنے کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مہرہ اس طرح مائل ہو جائے کہ نخاع کے اندر زاویہ بن جائے۔ مہرہ کسی ایک جانب مائل ہوتا ہے تو اس کا بعض حصہ عصب پر دباؤ ڈالتا ہے۔ چنانچہ اس سے استرخاء پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض حصہ یہ کیفیت پیدا نہیں کرتا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ گردن کے ہر مہرہ کے اندر ایک گڑھا ہوتا ہے۔ مہرے ایک دوسرے سے ضم ہوتے ہیں تو وہ سوراخ بند ہو جاتا ہے جس سے اعصاب نکلتے ہیں۔ اوپر کا مہرہ نیچے کے مرہ کے برابر ہوتا ہے۔ سینہ کے مہروں کا حال دیگر ہوتا ہے۔ چنانچہ اوپر کا مہرہ ہمیشہ بڑا ہوتا ہے۔ کمر کے مہروں کا حال یہ ہے کہ ان میں آخر مہرہ کل کا کل اوپر کے مہرہ میں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ گردن کا مہرہ جب بھی الگ ہوتا ہے تو اس حصہ کا عصب پھیلتا اور سمٹتا ہے جہاں سے یہ جدا ہوتا ہے۔ لہذا اس پہلو پر دباؤ پڑے گا کہ جس پر الگ ہو جانے کے بعد مہر و واقع ہو گا ۔ چنانچہ یہاں فالج ہو جائے گا۔ اور چونکہ ہاتھ کا عصب گردن سے آتا ہے لہذا یہ فالج ہاتھ سے آگے نہ بڑگے گا۔ پشت کا مہرہ جب الگ ہو گا تو مرہ کے ساتھ نخاع بھی مائل ہو جائے گا کیونکہ یہاں سوراخ کامل ہوتا ہے۔ دو مہروں سے مل کر نہیں بنتا ہے لہذا یہاں سے جو عصب اگتا ہے اسے یہ حالت در پیش نہیں ہوتی کہ کسی ایک جانب میں پھیلے اور دوسرے جانب سے منحرف ہو۔ (مؤلف)
رعشہ کیا ہے؟
بوڑھوں کے اندر رعشہ معمولی سبب سے بہت جلد پیدا ہو جاتا ہے مگر جوانوں کے اندر یہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ان کا بدن نہایت سرد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے جو خالص شراب بکثرت پیتے ہیں ، یا جنھیں مسلسل اسہال کی شکایت ہوتی ہے یا جو عرصہ دراز تک شکم بُری کرتے ہیں مگر ریاضت نہیں کرتے۔ رعشہ اس وقت بھی پیدا ہو جاتا ہے جب ٹھنڈا پانی ناوقت پی لیا جاتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ تمام صورتوں میں سوء مزاج بارد پیدا ہو جاتا ہے۔ اخلاط غلیظہ بھی روح نفسانی کی راہوں میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے بھی رعشہ ہو جاتا ہے۔ ( جالینوس)
جالینوس نے اس جگہ لکھا ہے کہ میرے خیال میں رعشہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عضلات کے اندر کمزوری اس حد تک پیدا نہیں ہوتی کہ طاقت بالکلیہ زائل ہو جائے اور استرخاء پیدا ہو جائے ۔ عضلات کے اندر اس حد تک طاقت ہونا ضروری ہے کہ وہ اوپر کو کھینچ سکیں، اور پھر عضو اپنے ثقل طبعی کے باعث نیچے کی جانب آجایا کرے۔ اس طرح متضاد حرکتیں پیدا ہوتی رہیں۔ (مؤلف)
پشت کے مہرے اندر کی جانب مائل ہو جائیں تو اس سے عربول (پیشاب کی دشواری ) پیدا ہو جاتا ہے اور باہر کی جانب ابھر آئیں تو اس سے جریان بول (پیشاب جاری ہونا ) کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ( جالینوس)
(جوامع الاعضاء کے ) باب البول کا مطالعہ کریں۔ (مؤلف)
سکتہ، عروق اور شریانوں کے ایسے امتلاء سے بھی پیدا ہو جاتا ہے جس کی موجودگی میں سانس لینا ممکن نہ ہو ۔ کیونکہ ایسی صورت میں جسم بالکلیہ سرد ہو جاتا ہے۔ جس سے جس و حرکت مفقود ہو جاتی ہے اس سلسلہ میں بقراط کا یہ قول ہے کہ اچانک سکتہ پیدا ہو جانے کا سبب عروق کا بند ہو جاتا ہے، مگر رعشہ ٹھنڈک، امتلاء ، استفراغ اور نفسانی عوارض کے باعث لاحق ہوتا ہے۔ جو اعضاء مفلوج ہو جاتے ہیں ان کا رنگ نا صاف ہو جاتا ہے۔ ( جالینوس) دیمقراطیس لکھتا ہے کہ اعضاء کے اندر پیدا ہونے والے استرخاء کا علاج میں نے ضماد شیر ج سے کیا اور اس سے صحت ہو گئی۔ آگے وہ لکھتا ہے کہ یہ علاج خردل (رائی) اور تفسیا سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ ( جالینوس) علاج کا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے گرم اور محمر ادویہ پر اعتماد کرتے ہوئے رعشہ کا علاج کیا ہے۔ یہ دوائیں ارنجانس کے مطابق مفید ہیں۔ کیونکہ ان کے مادوں سے لیسدار بلغم تحلیل ہو جاتا ہے۔ اور مقام ماؤف پر بکثرت خون جمع ہونے لگتا ہے جس سے یہاں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور حس و حرکت واپس آجاتی ہے۔ (مؤلف)