You are currently viewing بھوک کی تاریخی اہمیت
بھوک کی تاریخی اہمیت

بھوک کی تاریخی اہمیت

بھوک کی تاریخی اہمیت

بھوک کی تاریخی اہمیت
بھوک کی تاریخی اہمیت

بھوک کی تاریخی اہمیت
از :مجدد الطب

تحریر: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور

بھوک کی تاریخی اہمیت

جمہورحکماء اور اطبائے متقدمین ومتاخرین بلکہ ہر مذہب کے علماء کا بھی اس حقیقت پراتفاق ہے کہ بھوک ایک مرض ہے اور اس کا علاج حسب ضرورت اور مناسب غذاکا کھانا ہے۔دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں ہے جس نے غذاکی ضرورت واہمیت اور استعمال پرکچھ نہ کچھ نہ لکھاہواور اسلام میں تو اس قدر کہاگیاہے کہ اس پرایک طویل کتاب بن سکتی ہے۔اسلام نے اس کو اس قدر وسعت اس لئے دی ہے کہ

۱۔غذا سے انسانی کردارپیداہوتاہے۔(۲)غذا انسانی ضرورت ہے۔(۳)جن لوگوں کی رزق کی فراہمی کے بارے حقائق پر نظرہے وہ شخصیت اور قوم کی تعمیر کیلئے بڑاکام کرسکتے ہیں۔

ایورویدک

انتہائی قدیم طریق علاج ہے۔اس کی قدامت اس قدرقدیم ہے کہ اس کاتعین مشکل ہے البتہ یہ کہا جاسکتاہے کہ چین کی تہذیب وتمدن ہند سے قدیم ہے۔ اس لئے اس کا علم وفن قدیم کہاجاسکتاہے۔بہرحال جہاں تک دونوں کے علم وفن کا تعلق ہے دونوں کی بنیاد کیفیات ومزاج اور اخلاط پرہے۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ قدیم زمانے میں ہنداورچین ایک ہی ملک تھے اور ان کی تہذیب وتمدن بھی ایک تھا اسلئے ممکن ہے کہ ایورویدک ہی نے چینی طب کی شکل اختیارکرلی ہو۔بہرحال ایورویدک اپنی بنیادپت وپرکرتی اور دوشوں کے مطابق ہرغذاودوااور آب وہوا کے استعمال میں ارکان و مزاج اور اخلاط کومدنظررکھے بغیر علاج نہیں کرسکتی۔اس طریقِ علاج میں سب سے اہم تاکیدیہ ہے کہ علاج کے دوران میں پت وپرکرتی اور دوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اول غذاسے علاج کیاجائے ۔پھر بھی اگر مرض باقی ہو تومجرب مرکبات سے مرض کودورکیاجائے اور ادویات کے علاج کے دوران میں بھی غذاکوپت پرکرتی اور دوشوں کے تحت ہی استعمال کیاجائے اور یہی صحیح ایورویدک علاج ہے۔

طب یونانی میں غذاکی اہمیت

طب یونانی کی قدامت بھی تقریباًایورویدک کے برابرقدیم ہے کیونکہ ابتداً جب یونان میں اس کی ترتیب و تدوین ہوئی اور اس نے کتابی صورت اختیارکی تواس کانام طب یونانی رکھاگیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ طب ہزاروں سالوں یونانی طب سے قدیم ہے۔ جس طرح مختلف تہذیبوں اور تمدنوںمیں عروج وزوال پیداہوتاگیاطب میں بھی نشووارتقاء پیدا ہوتا گیا۔چین وہند کے بعد تہذیب وتمدن بابل ونینوا میں نظر آتی ہے جس کو آج کل عراق وعرب اور مڈل ایسٹ کہتے ہیں۔ا س کے بعد کی تہذیب وتمدن کا کمال مصرمیں نظرآتا ہے۔ابولہول ، اہرام مصر (پیرامائڈ) آج بھی اس چیزکے گواہ ہیں جہاں پر بے شمارفرعون گزرے ہیں۔اس کے بعد یہی تہذیب وتمدن اور ثقافت روما سے گزرتی ہوئی ہزاروں سال میں یونان پہنچی۔اگرچہ مصرمیں کاغذکی ابتداہوئی تھی اور علم وفن کی تحریرمقبروں سے ملی ہیں لیکن یونان میں خصوصاً بقراط کے زمانے میں علم وفن طب کی کتابی صورت میں ترتیب وتدریس ہوئی جس پر اسلامی دورتہذیب وتمدن میں چارچاند لگ گئے۔لفظ ــ ’’طب‘‘بذاتِ خود عربی زبان کالفظ ہے لیکن احتراماً یونانی لفظ ساتھ قائم رہاہے۔یہ علم وفن میں ایمانداری کی دلیل ہے۔

طب یونانی میں علاج تین صورتوں میں کیاجاتاہے۔(۱)علاج بالتدبیر۔(۲)علاج بالدوا۔ (۳)علاج بالید( (4سرجری

علاج بالتدبیر:

علاج بالتدبیرمیں تین باتیں شامل ہیں۔

اول ۔اسباب ستہ ضرو ریہ جو مندرجہ ذیل ہیں ۔(۱)ہواوروشنی۔ (۲)ماکولات ومشروبات۔ (۳)حرکت وسکونِ بدنی۔(۴) حرکت وسکونِ نفسانی۔ (۵)نیندو بیداری ۔ (۶)استفراغ واحتباس۔

دوم۔کیفیات ومزاج اور اخلاط میں تغیروتبدل۔سوم۔ماحول وحالات میں نظم یعنی مریض جس تکلیف دہ ماحول میں گھراہواہے اور جس مشکل حالت میں ہے اس میں بہتر تبدیلی پیداکرنا۔چونکہ ان تینوں اجزاءکاتعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ غذاسے ہے اس لئے یہ سب کچھ علاج بالغزامیں شریک ہیں۔

 

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply