Nutritional importance in diabetes
دورنبوت میں غذائی اہمیت
الأهمية الغذائية لزمن النبوۃ
دورنبوت میں غذائی اہمیت
Nutritional importance in diabetes
الأهمية الغذائية لزمن النبوۃ
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
رسول اللہﷺ کے زمانے میں کھانے پینے کے بارہ کوئی مفصل بات موجود نہ تھی جسے پڑھنے والے پڑھ سکیں۔اور مدرسین جس کا درس دے سکیں۔کھانے پینے کے بارہ جو تصویر اس جگہ کھینچی گئی ہے۔اس وقت لوگ کھانے پینے کے بارہ میں کفایت شعاری سے کام لیا جاتا رہا۔غذائی اجناس دیگر ممالک سےاشائے خوردنی برآمد کی جاتی تھیں، جس کا مفصل تذکرہ آگے آتا ہے۔اس مواد کے لئے مصدر اول کے طورپرمشہور کتب احادیث کو قرار دیا ہے۔ دیکھئے:المعجم المفرس الفاط الحدیث۔ساتوں کتب کی فہرست۔ حدیث کی امہات کتب قران کریم کے بعد سب سے اہم ماخذ ہیں۔اس لئے ان کتب کے حوالہ جات کو ترجیحی بنیادوں پر رکھا گیا ہے۔
دوسرے ذرائع اور مصادر۔
ان میں کتب تاریخ۔کتب ادب،کتب لغت وغیرہ ہیں جہاں کمی دیکھی گئی وہاں ان کتب کی مدد سے پوری کردی گئی۔عمومی طور پر جن چیزوں کو موضوع سخن بنایا جارہا ہے اس وقت یہ باتیں اس قدر اہم نہ تھیں جس قدر اس وقت ان کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔کوئی بھی چیز اس وقت اہمیت اختیار کرتی ہے جب اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔کتب احادیث احکامات دینیہ کوا مانت دارانہ انداز میں ہم تک پہنچا دیا گیا،
راویان احادیث نے جو سنہراکارنامہ سرانجام دیا اس کی مثال کسی قوم و ملک کی تاریخ و دینی ادب میں نہیں ملتی۔قران وحدیث کی امانت کو تو انہوں نے ذمہ داری سے ہم تک محفوظ طریقے سے پہنچایا ہی نہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انہوں نے دیگر موضوعات پر جب قلم اٹھایاتوبھی انہوں نے کمال دیناداری کا ثبوت دیا۔جو باتیں دینی لحاظ سے اہم نہ تھیں لیکن معاشرتی لحاظ سے اہم تھیں انہیں کتب تاریخ میں محفوظ کردیا گیا۔
ادباء ۔ اور اہل لغت نے بھی اس معاشرہ کو اپنے انداز سے محفوظ کرکے ہم تک پہنچا دیا،کتب احادیث اور ان کی شروحات دینی تشنگی کو دور کرتی ہیں ، لیکن عمومی طورپر کچھ باتیں غیر اہم سمجھ کر ترک کردی گئیں، انہیں مورخین اور ادباء نے ہم تک پہنچا دیا۔ان دونوں ماخذوں کو ملاکر جب عصر رسولﷺ کا خاکہ بناتے ہیں تو پڑھنے والے اور دیکھنے والے کے سامنے واضح تصویر آجاتی ہے۔۔
قران کریم نے اہل عرب کی تجاارت کو بطور انعام بیان فرمایا ہے(سورہ قریش)یہ تجارت اطراف و جوانب کے ممالک اور خطوں سے وابسطہ تھی۔گرمی سردیوں کے اسفار الگ الگ مقرر تھے۔تجارتی قافلے ضروریات زندگی مہیا کرنے کے ذمہ دار تھے۔عرب سے روانہ ہونے والے قافلے اشیائے خودرنی لاتے اور لے جاتے تھے ۔ ان قوافل کے احوال ہمیں بتاتے ہیں کہ ا س وقت کونسی اجناس موجود تھیں کھانے پینے اور بود و باس کا کیا رنگ تھا۔قران کریم نے اہل قریش کو ایک انعام یاد دلایا ہے : {لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ (1) إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ (2) [قريش]
قریش جاڑوں (سردیوں)میں جنوب یعنی یمن کی طرف کاروانِ تجارت لے کر جاتے تھے اور گرمیوں میں شام اور ایشیائے کو چک کا رخ کرتے تھے۔ ذی قعدہ کے مہینے میں قریش کے تجارتی قافلے واپس مکہ آجاتے تھے کیونکہ اگلے ماہ ذی الحجہ میں ان کا مکے میں موجود ہونا ضروری ہوتا تھا۔ کیونکہ اس دوران انہوں نے مذہبی رسومات کی ادائیگی کرانا ہوتی تھیں۔وہ زائرین کعبہ کی میزبانی کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔
حضرت جعد بن ہبیرہ کہتے ہیںمیری والدہ ام ہانی بنت ابی طالب بیان کرتی ہیں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا۔بے شک اللہ نے قریش کو سات وجوہ سے فضیلت دی ہے یہ اشیاء ان سے پہلے کسی کو ملیں نہ ان کے بعد کسی کو ملیں گی۔
(1)اس خاندان میں نبوت ہے
(2)کعبۃ اللہ کی دربانی ان کے پاس ہے
(3)آب زمزم کی ذمہ داری ان کے پاس ہے
(4)اللہ نے ہاتھیوں کے مقابلہ میں ان کی مدد فرمائی
(5)یہ لوگ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے
(5)دس سال انہوں نے اللہ کی اس وقت عبادت کی ،جب کوئی دوسرا عبادت گزار موجود نہ تھا۔
(6)ان کے بارہ میں سورہ قریش نازل ہوئی۔ان کے سوا اس میں کسی دوسرے خاندان کا ذکر نہیں ہے ۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 60)كنز العمال (12/ 27)مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (10/ 24)