Kushta Jaat
کشتہ جات اور ان کی حقیقت
دیسی طب میں کشتہ جات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے اس کے ماہرین کو خاص درجہ دیا جاتا ہے ۔یہ فن صدیوں سے چلا آرہا ہے آج بھی اس کے ماہرین پا ئے جاتے ہیں لیکن ان کا استعمال خاص مہارت کا طالب ہے۔عمومی طور پر یہ فن سنیاسی،مہوسی،سادھو لوگوں سے منسوب کیا جاتا ہے اگر کوئی ڈھونگی بھی سادھو صورت بنا کر آجائے تو بہت سے سادہ لو دھوکہ کھا جاتے ہیں۔لیکن یہ سوچ ٹھیک نہیں اچھے طبیب اس سے بارہ میں بہت سی معلومات رکھتے ہیں۔ کچھ باتیں ہر طب میں مشترک ہیں ان میں دھاتوں کا استعمال بھی ۔دیسی و مقامی طب میں یہ بات خصوصی امتیاز کی حامل ہے اس کے ماہرین نے بہت پہلے یہ پتہ چلا لیا تھا کہ انسانی جسم کو مخصوص دھاتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی کمی /زیادہ انسانی صحت کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے پہلے لوگوں نے خدمت انسانیت کی خاطر جو بن پڑا وہ طریقہ اختیار کرکے انسانیت کو دکھوں سے نجات دینے کی کوشش کی۔ دھاتیں اصلی حالت میںتو جزو بدن نہیں ہوسکتیں انہیں خاص حالت میں لاکر ہی ان سے مطلب برآوری کی جاسکتی ہے۔انہوں نے بہت سے طریقے اور بے شمار بوٹیاں دھاتوں کو کشتہ کرنے کی غرض سے استعمال کیں بے شمار جڑی بوٹیوں کو پرکھا کہ کس بوٹی میں کس قسم کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ علم التکلیس پر لکھی گئی کتب میں بے شمار ترکیبیں لکھی ہوئی ہیں کہ کونسی دھات کس بوٹی سے کشتہ کی جاسکتی ہے ۔ہم کشتہ سازی کی اس طوالت سے منہ نہیں پھیر سکتے کیونکہ یہ وہ نرسری ہے جہاں اعلی درجہ کی دھاتیں اچھے انداز میں جزو بدن ہونے کی صلاحیت سے مالا مال ہوئیں ۔اگر آپ کشتہ سازی کو جدید الفاظ میں سمجھنا چاہتے ہیں تو یوں سمجھئے کہ مقامی طور پر دیسی طریقہ علاج میں ہائی پوٹنسی کی دوا ہوتی ہے جس کی قلیل مقدار بھاری اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ٹھیک انداز میں تیار ہونے والے کشتہ جات انسانی خون میں پلازما کے ساتھ جڑ کر دیر تک اثرات سے انسانی جسم کواپنے اثرات سے گرویدہ بنائے رکھتے ہیں۔
وزن اشیاء کی کمی بیشی:
تحقیقات و تجربات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جن اشیاء میں حرارت زیادہ پائی جاتی ہے ان میں گندھک و فاسفورس کے اجزاء زیادہ پائے جاتے ہیں ایسی اشیاء وزن میں ہلکی ہوتی ہیں ان کے مقابلہ میں مٹی اور چونے کے اجزاء زیادہ شامل ہوں تو ان میں حرارت کی کمی ہوتی ہے اس لئے ان میں زون زیادہ ہوتا ہے پتھریلی و معدنی اشیاء زیادہ وزنی ہوتی ہیں جن کے اندر زیادہ چونا پایا جاتا ہے جیسے سونا،چاندی،پارہ،لوہا،سکہ،جست،قلعی،شنگرف،ہڑتال،سم الفار ،پتھر کا کوئلہ ہر قسم کے حجریات جن کے اندر زیادہ چونا ہے وہ تمام وزنی ہیںیہاں تک کہ معدنی سیال بھی وزنی ہوتے ہیں البتہ جن میں گندھک زیادہ شامل ہوتی ہے وہ ہلکی ہوجاتے ہیں(حضرت مجدد الطب کی کتاب ’’علم الادویہ ‘‘سے اقتباس)
کشتہ سازی جدید دور میں۔
کشتہ جات کی خاصیت اور دیر پا اثرات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا لیکن ایک رائج الوقت طریقہ کے متبادل اگر میسر آجائے تو کوئی خاص وجہ نہیں کہ پہلے طریقہ ہی کام میں لایا جائے۔صدیوں پہلے کیمیا کی یہ صورت نہ تھی جو آج ہے کیمسٹری کی جدت ہماری پوری زندگی کو گھیرے ہوئے ہے آپ کسی بھی شعبہ میں نگاہ اٹھاکر دیکھ لیں کھانے پینے سے لیکر صفائی ستھرائی تک ہر چیز کیمسٹری کی مرہون منت ہے۔صبح کا ناشہ بیکری کی بنی اشیاء سے کرتے ہیں تو یہ سب کیمسٹری فارمولوں کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں،نہانے کے لئے غسل خانے جاتے ہیں تو دانت صاف کرنے والے پیسٹ ۔برش بدن پر ملا جانے والا صابن سب ہی کیمیا گری فارمولوں کی دین ہیں ۔گھر کی صفائی اور بوٹ پالش سامنے رکھی ہوئی میز۔لکھنے والا قلم سب ہی کچھ کیمیا ہی تو ہے۔اگر اسی کیمیا کو ہم اپنے طب میں داخل کرلیں تو کوسوں کی مسافت منٹوں میں طے ہوجائے۔پھر اس سے متنفر ہونے کی اور وحشت کھانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ مطب میں سہاگہ ۔جوکھار۔گلسرین۔سالٹ۔ویزلین۔پنکی۔پوٹاشیم برومائڈ۔پھٹکڑی۔شورہ قلمی۔مرکانگ وغیرہ وغیرہ بے شمار آپ کے استعمال میں ہیں ان چیزوں سے اس لئے وحشت نہیں ہوتی کیونکہ ان کا رواج عام ہوچکا ہے۔اسی کتاب میں تانبے کا کشتہ تھوڑی سی دیر میں کیا جاسکتا ہے۔اگر آپ کسی کشتہ چیز کو اصلی حالت میں لانا چاہتے ہیں تو اس کے بھی فارمولے ہیں۔آپ کشتہ پارہ کو واپس اصلی حالت میں کردیں قطرات گرنے شروع ہوجائیں گے۔کشتہ تانبا کو اصلی دھات میں واپس لاسکتے ہیں۔رہی بات یہ کہ جڑی بوٹیوں میں ہونے والا کشتہ تیزابوں میں ماری گئی دھات سے کہیں بہتر ہوتا ہے اس میں کیا شک ہے؟اگر ہم دن رات دار چکنا۔شنگرف۔ہڑتال ۔نیلا تھوتھا کا م میں لاتے ہیں تو ہمیں کشتہ فولاد۔کشتہ تانبا و جست سے بھی وحشت نہیں ہونی چاہئے ۔ آگے آپ کی مرضی ہے؟۔
کشتہ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
کشتہ سازی جس قدر احتیاط طلب کام ہے اس بارہ میں اتنی ہی لایعنی باتیں پائی جاتی ہیں۔سوچنا چاہئے کہ انسان کو کشتہ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ظاہر ہے جو چیز جزو بدن نہ ہوسکے اسے اس حالت میں لانا کہ وہ ہمارے وجود کا حصہ بن سکے۔جو چیز بغیر کشتہ کے جزو بدن ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اس کا کشتہ کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے جناب ہم فلاں چیز کو کشتہ کئے بغیر استعمال نہیں کراتے کیونکہ کشتہ کے بنا وہ انسانی وجود کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عجیب بات ہے جو چیز قدرت نے مخصوص خواص کے ساتھ پیدا کی ہے ہم انہیں اثرات کو دور کرنے کے چکر میں اس چیز کو کشتہ کی بھٹی میں جھونک دیتے ہیں۔ہم نے کئی حکماء سے سوال کیا کہ کشتہ کی ہوئی چیز بے ضرر ہوجاتی ہے؟وہ کہنے لگے ایسا نہیں ہے۔کیونکہ مقررہ مقدار سے زیادہ کھانے کی صورت میں اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔عجیب لوگ ہیں مقدار خوراک کو کم کرنے کے بجائے ہم نے اسے کشتہ کرنے کی ٹھانی۔میں کشتہ کے حق میں ہوں جب ضرورت ہو تو ضرور کشتہ کرو مثلاََ ایسی اشیاء کچلہ۔ہڈی۔بارہ سینگا وغیرہ بغیر کشتہ کے کام میں نہیں لائے جاسکتے ان کا ضرور کشتہ مارو تاکہ ان کے مخصوص فوائد سے جھولی بھری جاسکے لیکن شنگرف۔دار چکنا۔رسکپور۔ہڑتال۔سنگ جراحت۔نیلا تھوتھا وغیرہ جو آسانی سے پیسے جاسکیں جنہیں بغیر کشتہ کئے کام میں لایا جاسکتا ہے رہی نقصان والی بات تو یہ اس چیز کی خامی نہیں بلکہ استعمال کرانے اور کرنے والی کی نادانی و کم علمی ہے چاہئے کہ اپنے ہنر میں پختگی پیدا کریں یا اس ہنر کو ان لوگوں سے حاصل کریں جو اس میں مہارت رکھتے ہیں۔ذیل کے گراف میںکچھ جڑی بوٹیوں میں کشتہ ہونے والی دھاتوں کا ذکر کرتے ہیں۔چاندی۔ہزار دانی بوٹی میں۔فولاد/خبث الحدید/تابنا ترش لسی یا ترشی مزاج بوٹی میں۔کچلہ /بارہ سنگا،سادہ آگ پر۔کوڑی نغدہ برگ شیشم میں ۔ ابرک گھیکوار میں۔صدف/یشب/مونگا سادہ آگ سے۔کشتہ کئے جاسکتے ہیں ان کے وہی اثرات ہونگے جو ایک اعلی درجہ کے کشتہ کے ہونے چاہیئں۔
کشتہ سازی کا قانون۔
کوئی بھی کام ہو وہ کسی نہ کسی لگے بندھے قانون کے تحت کیا جاتا ہے دوا سازی میں کشتہ جات کو اہمیت دی جاتی ہے ان کے لئے جہاں بہت سے قوعاعد و ضوابط مرتب کئے گئے ہیں وہیں پر کچھ عقاقیر کا بھی ذکر کیا جاتاہے کہ کونسی دھات کس جڑی بوٹی میں کشتہ ہوسکتی ہے۔ہم بھی ایک قانون بیان کرنے لگیں ہیں ۔ عضلاتی اشیاء یا عضلاتی مزاج کی دھاتوں کو غدی مزاج کی جڑی بوٹیوں سے آسانی سے کشتہ کیا جاسکتا ہے مثلاََ کشتہ تانبا بہت مشکل سے قابو میں کیا جاتا ہے اس کا کشتہ آدھے گھنٹے میں کیا جاسکتا ہے ۔جتنا تانبا کشتہ کرنا ہو اسے باریک پترہ کی شکل میں لیکراوپر سے ہڑتال ورقیہ کے پرت چڑھا کر کسی تار سے مضبوط باندھ کر آگ لگا دیں جب ہڑتال جل جائے تو دیکھیں امید ہے کہ تانبا کشتہ ہوچکا ہوگا ۔اسی طرح گرم مزاج یا غدی ادویہ کو ایسی جڑی بوٹیوں کے نغدہ میں کشتہ کریں جو بلغی مزاج رکھتی ہوں یعنی جن میں دودھ پایا جاتا ہو۔اور بلغی مزاج والی دھاتوں کو ترش اشیاء میں آسانی کے ساتھ کشتہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے لکھا ہے آپ پریکٹیکل کرلیں امید ہے کہ ہماری بات کی تصدیق فرمائیں گے۔یاد رکھئے کشتہ جات کو ہوا سے محفوظ جگہ پر رکھنا چاہئے یہ ہوا میں نمی اور موسمی اثرات سے بہت زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔
فولادی مرکبات۔
دیسی طب میں کشتہ فولاد یا شربت فولاد کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کوئی کشتہ استعمال کرے یا نہ کرے لیکن شربت فولاد میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا امراض جگر حکماء حضرات بے دریغ شربت فولاد استعمال کراتے ہیں۔فولاد کے بارہ میں جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں پر مضرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس بارہ میں پوری پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں کسی کتاب میں اسے امرت ساگر ثابت کرنے کے لئے طویل و مدید دلائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔پڑھنے والے سمجھ تے ہیں کچھ بنے نہ بنے اگر کشتہ فولاد ہی بن گیا تو تمام امراض کی گردن دبوچنے کا فارمولا مل جائے گا۔اس میں شک نہیں کہ انسانی ساخت اور اس کی رگوں میں دوڑ نے والا لہو بغیر فولاد کے مکمل نہیں ہوپاتے لیکن اس کا استعمال بغیر مہارت کے نقصان بھی دے سکتا ہے۔امراض و علامات کا تعین اور امراض کی صحیح تشخیص کے بعد فولادی مرکبات استعمال کئے جائیں تو انسانی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کھٹائی یا وٹامن سی فولاد کے انجذاب کو تیر کرتی ہے ۔ یاد رکھئے معدہ میں موجود غذا اور لزوجیت دوا کے انجذاب پر اثرا انداز ہوتے ہیں ان عوامل کا تعلق معدہ کے خالی ہونے کے وقفے پر بھی ہے۔کچھ ادویات کاخالی معدہ لینا سوزش کا سبب بن سکتا ہے۔اگر دوا کھانے سے پہلے لی جائے تو انجذاب تیز ہوتا ہے اس لئے کچھ ادویات خالی معدہ لینے سے سوزش کا سبب بن سکتی ہیں جیسے سلی سلیٹ(Salicylates)اور فولاد(Iron)کے نمکیات غذا کے بعد استعمال کئے جانے چاہیئں تاکہ معدہ کی خراش کا سبب نہ بن سکیں ۔تیزابی یعنی عضلاتی ادویات معدہ میں جا کر زیادہ انجذاب کرتی ہیں انہیں خوراکی طور پر لینا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔اور اساسی /اعصابی کا انجذاب معدہ کے بجائے آنتوں میں بہتر انداز میں ہوتا ہے ۔اس لئے کشتہ فولاد خالی معدہ لینا ٹھیک نہیں ۔