kanzul Mujaribat//کنزالمجربات
کنزالمجربات مکمل۔
پیش لفظ
غالباً وسط ۱۹۷۳ء کی بات ہے ادارہ مطبوعات سلیمانی ابھی جہانیاں میں ہی تھا۔ کتب کی ترسیل بذریعہ ڈاک ہوتی تھی۔ میں اس دن کے پیکٹ بھجوا چکا تھا کہ ڈا کیا ایک ٹیلی گرام لے کر آیا۔ ان دنوں ٹیلی گرام کسی انتہائی اہم معاملہ پر ہی بھیجا جاتا تھا۔ لہذا ڈا کیا بھی بلا تاخیر لے کر پہنچا اور ارد گرد بیٹھنے والے بھی پریشان ہوئے کہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے جلدی سے لفافہ چاک کیا۔ ٹیلی گرام پڑھی تو لکھا تھا ”بلا تاخیر کنز الحجر بات روانہ کر دیں۔ تاکید کی جاتی ہے۔ ایڈریس اندرون سندھ کے کسی دور دراز گوٹھ کا تھا۔ والد گرامی حکیم محمد عبداللہ صاحب‘ ساتھ ہی دواخانہ میں تھے۔ ٹیلی گرام کا سن کر تشریف لے آئے اور فرمانے لگے ” کوئی بہت ہی ضرورت مند لگتا ہے فی الفور کتاب وی پی کر دو ڈاک اگر چہ جا چکی تھی میں نے کتاب کا پیکٹ باندھا اور خود ہی ڈاک خانہ جا کر پوسٹ کروا دیا۔ مجھے اس بات پر حیرانی تھی کہ ہم دس پیسے کے ایک کارڈ آنے پر بھی فوری تعمیل کر دیتے تھے ٹیلی گرام بھیجنے کی تک کیا تھی ۔ تین چار دن بعد ان صاحب کا ایک تفصیلی خط ملا تو عقدہ کھلا۔ ان کے خط کا خلاصہ یہ ہے۔
میں سالہا سال سے تپ دق میں مبتلا تھا۔ بے شمار علاج کئے۔ حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھایا۔ مختلف ہسپتالوں میں داخل رہا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ یہ سوچ کر اپنے گوٹھ میں آگیا کہ مرنا تو ہے ہی۔ اپنے گھر میں ہی آ کر کیوں نہ مروں ۔ موت کی گھڑیاں گن رہا تھا کہ ایک سنیاسی ہمارے گاؤں میں کہیں سے آ وارد ہوا۔ ہمارے گھر والے اسے لے آئے ۔ اس نے تین چار ماہ میرا علاج کیا اور مجھے نئی زندگی مل گئی۔ صحت یاب ہونے کے بعد اس کی جتنی مالی خدمت ہو سکتی تھی۔ ہم نے کی اور اس سے درخواست کی کہ سائیں بابا! آپ جوگی آدمی ہیں کبھی کہیں ہوتے ہیں اور کبھی کہیں۔ اللہ کے لیے یہ نسخہ بتا دیں تا کہ اگر آئندہ بھی تکلیف ہو تو ہم اس کا علاج کر لیں۔ لیکن اس سنیاسی نے کسی قیمت پر بھی نسخہ بتانے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد میں سنیاسی کا چیلا بن گیا۔ اس کی چلم بھرتا، اس کا حقہ تازہ کرتا۔ سفر میں حضر میں اس کی خدمت کرتا۔ اس کے پاس ایک صندوق تھا جسے وہ ہر وقت تالا لگا کر رکھتا۔ کبھی کبھار کھولتا، اس میں سے کوئی نسخہ لکھتا اور مجھے شہر بھیج کر دوا ئیں منگوا لیتا۔ اسی طرح تین ساڑھے تین سال گزر گئے۔
ایک دفعہ کوئی آدمی ڈھونڈتا ڈھانڈ تا اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ تمہاری بیوی فوت ہو گئی ہے اور تمہارے بچے بے حد پریشان ہیں۔ میں نہ معلوم کہاں کہاں سے دھکے کھا کر تمہارے پاس پہنچا ہوں۔ سنیاسی کو اس فوری صدمے کی بنا پر اس کے ساتھ جانا پڑا اور وہ اپنا ساز و سامان میرے حوالے کر کے روانہ ہو گیا اس کے جانے کے بعد میں نے صندوق کا تالا کھولا اور اس میں سے وہ نایاب کتاب نکالی۔
کتاب اگر چہ بوسیدہ تھی لیکن مجھے کتاب کا نام کنزالمجربات، مصنف حکیم محمد عبد اللہ اور پتہ دار الکتب سلیمانی روڑی ضلع حصار معلوم ہو گیا۔ میں نے یہ سب کچھ نوٹ کر لیا۔ سنیاسی کے واپس آنے پر میں اس سے اجازت لے کر اپنے گاؤں آیا۔ پھر کتاب پر دیئے گئے ایڈریس پر خط پہ خط لکھنے شروع کر دیئے۔
۱۹۷۱ ء کی جنگ ختم ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا یا تو میری ڈاک ہی ہندوستان نہیں جاتی تھی۔ یا وہاں سے جواب نہیں ملتا تھا۔ میں نے کئی مہینے اس پریشانی میں گزار دیئے پھر کتاب کی تلاش میں نکلا۔ جوئندہ یا بندہ حیدر آباد میں ایک حکیم صاحب کی دکان پر مجھے یہ کتاب نظر آ گئی۔ انہوں نے مجھے آپ کا پتہ دیا اور میں نے فوراً ٹیلی گرام دے دی تا کہ میں اس نادر کتاب کو جلد ازجلد حاصل کرلوں۔
شکر ہے کہ آپ نے مجھے فورا کتاب بھجوا دی کتاب لے کر میں اپنے اس گورو کے پاس گیا اور کہا کہ سائیں جی! یہ ہے وہ کتاب جس کے ایک نسخہ کے لیے میں نے مدتوں تمہاری چاکری کی اب پوری کتاب میرے پاس ہے۔ اب مجھے آپ کے پیچھے
پیچھے پھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
والد گرامی نے جس محنت، لگن، خلوص کے ساتھ یہ کتاب لکھی تھی۔ اللہ نے اس کو شرف قبولیت بخشا۔ روزانہ آنے والی ڈاک میں برسوں گزرنے کے باوجود اس کی تعریف میں اس کی نسخوں کی تصدیق میں چند خطوط ضرور ہوتے ہیں۔
۱۹۶۸ء میں اطبائے کرام کی رجسٹریشن ہوئی شفاء الملک حکیم محمد حسن قرشی مرحوم کی سرکردگی میں طبی بورڈ نے پورے مشرقی اور مغربی پاکستان کا دورہ کیا اور اطباء کے انٹرویو لیے۔
دورہ کی تکمیل کے بعد طبی بورڈ کے تمام معزز ارکان جہانیاں تشریف لائے اور انہوں نے حکیم محمد عبد اللہ صاحب کو استاذ الحکماء کا خطاب دیا اور کہا کہ پورے پاکستان میں ہم نے انٹرویو کے وقت طبیبوں سے پوچھا کہ انہوں نے کن کن طبی کتاب کا مطالعہ کیا ہے نوے فیصد کا جواب تھا حکیم محمد عبد اللہ صاحب کی کنز الحجر بات۔ یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے یہ کتاب ہذا کا ۶۴ واں ایڈیشن ہے۔
اب اسے دوبارہ نئے انداز سے کمپوز کیا گیا ہے جس سے کتاب کے حجم میں کچھ کمی اور خوبصورتی میں بہت حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں قیام پاکستان سے پہلے کے ایڈیشنوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔
(1) اوزان میں اگر کہیں غلطیاں رہ گئی تھیں ان کی اصلاح کر دی گئی ہے۔
(۲) حصہ اول میں صنعتی حصہ جو چھٹے ایڈیشن کے بعد نکال دیا گیا تھا پھر سے شامل کر دیاگیا ہے۔
(۳) حصہ سوم میں کامیاب مطب کے اصول کے تحت چند نسخے روحانی علاج کے درج کئے گئے تھے۔ موجودہ ایڈیشن میں اس کو الگ باب کی شکل دے کر عملیات سلیمانی” کے تحت استاذ الحکماء محمد عبداللہ اور ان کے والد ماجد ولی کامل مولانا محمد سلیمان
سال تک تہجد میں پڑھا جانے والا وظیفہ بھی شامل اشاعت کی کجا رہا ہے۔
(۵) کتاب کے شروع میں موجودہ اعشاری نظام کو دوسرے اوزان میں تبدیل کرنا، نیز پرانے اوزان اور نئے اوزان پر ایک باب شامل کر دیا گیا ہے۔
والد گرامی استاذ الحکماء حکیم محمد عبد اللہ نے جب طبی تصانیف کا آغاز کیا تو بے شمار لوگوں نے ملتے جلتے نام رکھ کر مقابلہ بازی شروع کر دی، مگر آپ نے حسد اور بغض اپنے آپ کو محفوظ رکھا بلکہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے حق میں دعا بھی کرتے رہے اور جس حد تک ممکن ہوا انہیں مفید مشوروں سے نوازتے رہے ۱۹۷۱ء میں بھی جب میں نے ادارہ کی بنیاد رکھی تو مجھے بھی یہی نصیحت فرمائی۔
الحمد للہ میں نے بھی اس طریقہ کو جاری رکھا اور بے شمار اداروں کو طبعی کتب چھاپنے پر آمادہ کیا اور ان سے ہر طرح بھر پور تعاون کیا اب جب کہ مطبوعات کا کام میں اپنے بیٹوں حافظ طلحہ وحید اور عزیزم عروہ وحید سلیمانی کے حوالے کر چکا ہوں۔
انہیں بھی یہی نصیحت کرتا ہوں کہ طب کے اس شعبہ کو عبادت سمجھ کر کریں. اس جلب زر کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اپنی آخرت سنوارنے کو ترجیح دیں۔ میں آخر میں درخواست گزار ہوں کہ اس کتاب سے فائدہ اٹھانے کے بعد جہاں آپ والد گرامی مصنف کتاب ہذا ولی این ولی ابن ولی مولانا حکیم محمد عبد اللہ مرحوم کے حق میں دعا کریں، اس عاجز کو بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اسے دین و دنیا کی بہتری سےنوازے آمین
دعا گو ودعا جو حکیم عبدالوحید سلیمانی