Hope and fear by tibb4all
اُمّید اور خوف
اُمّید اور خوف
امام عبدالرحمن ابن جوزی علیہ الرحمہ
خوف پیدا کرنے والی باتیں
خوف دو طریقے سے پیدا ہوتا ہے، ایک یہ کہ نادان بچہ کسی مکان میں ہو اور کوئی درندہ یا سانپ آجائے تو وہ اس سے بالکل نہیں ڈرتا ، بلکہ بعض دفعہ تو کھیلنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر اس کو پکڑنا چاہتا ہے، لیکن اگر بچے کا باپ بھی اس کے ساتھ ہو او روہ ڈر کر بھاگے ، تو بچہ بھی ساتھ ہی ڈر جائے گا اور اپنے باپ کی موافقت میں واویلا کرے گا تو بچے کا یہ خوف نقصان پہنچانے والی چیز کی معرفت حاصل ہو جانے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ باپ کی تقلید میں ہے۔
جاننا چاہیے کہ الله کا خوف بھی دو طرح کا ہے ۔ ایک الله تعالیٰ کے عذاب کا خوف ہے اور یہ عام لوگوں کا خوف ہے ۔ جب کوئی شخص اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا ہے تو اچھے بُرے کاموں کی مناسبت سے اس کے دل میں جنت اور دوزخ کا خیال پیدا ہوتا ہے اور اس پر خوف یارجائیت غالب آتی ہے۔
دوسرا الله تعالیٰ کی جلالت وکبریائی کا خوف ہے اور یہ علما وعارفین کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے، الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿ویحذرکم الله نفسہ﴾․ (سورة آل عمران: آیت:30)(اور الله تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔)
الله تعالیٰ کی صفات، ہیبت اور خوف کا تقاضا کرتی ہیں اور عارفین بُعد او رحجاب سے ڈرتے ہیں، حضرت ذوالنون مصری نے کہا: آگ کا خوف فراق کے خوف کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں قطرہ۔“
عام لوگوں کا یہ حال نہیں ہوتا۔ وہ تو طرق کی لذت سے آشنا ہی نہیں ہوتے۔ البتہ آگ کا خوف انہیں مضطرب کرتا ہے اور وہ بھی تقلیدی طور پر۔ وہ تو بچے کے سانپ سے خوف کے مشابہ ہے، جو باپ کی تقلیدمیں ہوتا ہے ، اسی لیے کمزور ہوتا ہے او راکثر تقلیدی عقائد کمزو رہوتے ہیں ۔
پھر جب بندہ الله کی معرفت کی طرف ترقی کرے گا تو لازماً اس سے ڈرے گا اور یہ آدمی ایسے علاج کا محتاج نہیں جو اس کے دل میں خوف پیدا کرے ، بلکہ یہ خوف اس کے علم اور عقیدے کی وجہ سے ہو گا۔
اعمال حسنہ
جو آدمی اعمالِ حسنہ میں کوتاہی کرتا ہے اس کے علاج کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اخباروآثار کو سنے اور خوف والوں کے حالات واقوال کا مطالعہ کرے۔
اگر وہ ان کی عقلوں اور ان کے منصب کی امید رکھنے والوں اور دھوکہ کھانے والوں کے مناصب کے مقابل رکھے گا، تو اُسے کوئی شک وشبہ نہ رہے گا کہ ڈرنے والوں کی اقتدا بہتر ہے، کیوں کہ وہ انبیا اور علما اوراولیاء ہیں ۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک انصاری بچے کے جنازہ کے لیے بلایا گیا۔
تو میں نے کہا اے الله کے رسول! یہ بڑا خوش نصیب ہے، جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، جس نے نہ گناہ کیا نہ گناہ کی عمر پائی ۔“ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اے عائشہ! کیا اس کے سوابھی کوئی بات ہے ؟ الله تعالیٰ نے جنت میں رہنے والے پیدا کیے اور ابھی وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے کہ ان کے جنتی ہونے کا فیصلہ ہو چکا اور کچھ دوزخ کے لیے پیدا کیے اور ابھی وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے کہ ان کے دوزخی ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔“
مغفرت
اس ذیل میں سب سے عجیب یہ آیت ہے، جس کا ظاہر تو امید ہے ، حالاں کہ وہ بڑی سخت ڈرانے والی ہے، الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وانی لغفار لمن تاب واٰمن وعمل صالحاً ثم اھتدی﴾․(سورة طہٰ، آیت:82)
(اور میں اس آدمی کے لیے بڑا بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے او راچھے عمل کرے ، پھر ہدایت پر رہے ) تو یہاں مغفرت کو چار شرطوں سے مشروط کیا ہے، جن کی صحت بڑی مشکل ہے۔
ڈرانے والی آیات میں سے الله تعالیٰ کا یہ قول بھی ہے : ﴿والعصر ان الانسان لفی خسرٍ﴾․ (سورة عصر: آیات2,1)
(زمانے کی شہادت ہے کہ انسان ہمیشہ خسارہ میں رہا ہے۔)
اس کے بعد چار شرطیں ذکر کی ہیں جن سے انسان خسارے سے بچ سکتا ہے۔ الله تعالی نے فرمایا:﴿ولوشئنا لاٰتینا کل نفس ھداھا ولکن حق القول منی لاملئن جہنم من الجنة والناس اجمعین﴾․ (سورة سجدہ، آیت:13)
(اور اگر ہم چاہیں تو ہر جان کواس کی ہدایت دے دیں، لیکن ہماری یہ بات حق ہو چکی کہ میں جہنم کو سب جنوں او رانسانوں سے بھردوں گا ۔ )یہ تو معلوم ہے کہ اگر معاملہ نیا ہوتا ، تو چارہ سازی کی بہت زیادہ امید ہوتی ، لیکن جو چیز پہلے ہی طے ہو چکی ، اس کا تدارک ممکن نہیں ، اسے تسلیم ہی کرنا پڑے گا۔
اگر عارفین پر الله تعالیٰ کی رحمت نہ ہوتی اور امید سے ان کے دلوں کو راحت نہ ملتی تو وہ خوف کی آگ سے جل جاتے۔
حضرت ابوالدرداء رضی الله عنہ نے کہا:” جو آدمی موت کے وقت ایمان چھن جانے سے بے خوف ہو ، اس کا ایمان چھین ہی لیا جاتا ہے۔“
حضرت سفیان ثوری کی وفات کا وقت آیا تو رونے لگے ۔ ایک آدمی نے کہا: اے ابوعبدالله! میرا خیال ہے آپ کے گناہ بہت زیادہ ہیں۔ تو آپ نے زمین سے کچھ مٹی اٹھائی او رکہنے لگے۔” خدا کی قسم ! مجھے اپنے گناہوں کی اتنی بھی پروا نہیں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ موت سے پہلے میرا ایمان نہ چھین لیا جائے۔“
حضرت سہل رحمہ الله کہا کرتے تھے :” مرید کو گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہوتا ہے او رعارف ڈرتا ہے کہ کفر میں مبتلا نہ ہو جائے؟“
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نبی نے الله کی بارگاہ میں بھوکا اور ننگا ہونے کی شکایت کی ، تو الله تعالیٰ نے اس کی طرف وحی فرمائی:
” اے میرے بندے! کیا تو اس پر راضی نہیں کہ میں نے تیرے دل کو کفر سے محفوظ رکھا ہے کہ تو مجھ سے دنیا کا سوال کرتا ہے ؟“ تو انہوں نے مٹی اٹھا کر اپنے سر پرڈالی او رکہا ”کیوں نہیں۔ میں راضی ہوں، مجھے کفر سے محفوظ رکھ۔“ جب کہ عارفین کا باوجود راسخ قدم ہونے کے یہ حال ہے کہ وہ خاتمے کی خرابی سے ڈرتے ہیں تو پھر کمزور لوگ کیسے نہ ڈریں!!
موت سے پہلے ایمان چھن جانے کے کچھ اسباب ہوتے ہیں ، مثلاً بدعت ، نفاق اور تکبر وغیرہ بری صفات ، یہی وجہ ہے کہ سلف نفاق سے بہت ڈرا کرتے تھے۔
نفاق
بعض نے کہا: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میں نفاق سے پاک ہوں تو یہ مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ محبوب ہو۔ اس سے ا ن کی مراد عقیدے کا نفاق نہیں تھا، بلکہ اعمال کا نفاق مراد لیتے تھے ، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ”منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے
اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔“
خاتمے کی خرابی دو طرح کی ہے ۔ ان میں سے ایک بہت بڑی ہے اور وہ یہ ہے کہ معاذ الله اس کے دل میں شک غالب آجائے یا سکرات موت اور اس کی ہول ناکیوں میں الله کا انکار کر دے تو اس سے دائمی عذاب کا مستحق ہو جاتا ہے ۔
دوسری صورت اس سے کم ہے اور وہ یہ ہے کہ تقدیر الہٰی پر ناراض ہو ، یا اس پر اعتراض کرے، یاوصیت میں ظلم کر جائے ، یا کسی گناہ پر اصرار کرتے ہوئے اس کی موت ہو جائے۔
بیان کیا گیا ہے کہ موت کی حالت میں شیطان کاحملہ سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مدد گاروں سے کہتا ہے اس کو پکڑ لو ، اگر یہ آج تمہارے قابو میں نہ آیا تو پھر تم اسے کبھی نہ پکڑ سکو گے۔
نبی صلی الله علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:” اے الله! میں تیری پناہ لیتاہوں اس سے کہ شیطان موت کے وقت میرے حواس خراب کر دے۔“
خطابی نے کہا:” یہ اس طرح ہوتا ہے کہ شیطان اس وقت انسان پر غالب آجاتا ہے ۔ اس کو گمراہ کر دیتا ہے اور توبہ کرنے سے روک دیتا ہے، یا اسے مظالم سے عہدہ برآنہیں ہونے دیتا ،یا اسے الله کی رحمت سے مایوس کر دیتا ہے، یا موت کو اس کی نگاہ میں ناپسندیدہ بناتا ہے تو وہ الله کی تقدیر پر راضی نہیں رہتا۔“
وہ اسباب جن کی وجہ سے خاتمہ بالخیر نہیں ہوتا بہت سے ہیں ۔ تفصیلی طور پر ان کوبیان کرنا ناممکن ہے ، لیکن ان سب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً:
اگر خاتمہ شک او رانکار پر ہو ، تو اس کا سبب بدعت ہے اور اس کامطلب یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ کی ذات یا صفات یا افعال کے متعلق خلاف عقیدہ رکھے۔ خواہ تقلید کی وجہ سے ہو یا اپنی رائے فاسد سے ، تو جب موت کے وقت پردہ اٹھتا ہے تو اسے اپنے اس عقیدے کا باطل ہونا معلوم ہو جاتا ہے حالاں کہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اسلامی عقیدے ہیں وہ سب اسی طرح ہیں ان کی کوئی اصل نہیں۔
جو آدمی الله تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق سلف کے طریق پر بغیر کسی بحث وتمحیص کے مجمل عقیدہ رکھے وہ ان شاء الله ان خطرات سے محفوظ رہے گا۔
’’ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن‘‘
ایمان کی کمزوری سوئے خاتمہ
گناہوں پر خاتمہ ہونے کا اصلی سبب ایمان کی کمزوری ہوتاہے ، اسی سے گناہوں میں انہماک پیدا ہوتا ہے ۔ گناہ نورایمانی کو بجھا دیتے ہیں اور جب ایمان کمزور ہو جاتا ہے ، تو الله کی محبت بھی کمزور ہوتی ہے ۔ پھر جب موت کے آثار شروع ہو تے ہیں ، تو یہ کمزوری اور زیادہ ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا سے جدا ہونے کا وقت آگیا ہے ،
تو وہ سبب جو خاتمہ کو اس مقام تک پہنچاتا ہے وہ دنیا کی محبت اور اس کی طرف میلان ہے ۔ دوسری طرف ایمان کی کمزوری الله کی محبت کو کمزور کرتی ہے ، لیکن جس کے دل میں الله کی محبت دنیا کی محبت پر غالب ہو وہ ان خطرات سے محفوظ رہتا ہے او ردنیا سے اس طرح رخصت ہوتا ہے جیسے نیکو کار غلام اپنے مالک کے حضور پیش ہوتا ہے ۔
اس کے دل میں مالک کے پاس آنے کی جو خوشی اور سرور ہوتا ہے وہ مخفی نہیں ۔ پھر عزت افزائی اس کے علاوہ ہے۔
دوسری طرف جس کی روح اس حال میں نکلے کہ الله تعالیٰ کے افعال کا انکار دل میں آرہا ہو یا وہ الله کی نافرمانی پر مصر ہو تو وہ الله کے پاس اس طرح آتا ہے جیسے کوئی زبردستی اس کو لائے تو پھر جس سزا کا وہ مستحق ہو گا وہ بھی مخفی نہیں ہے۔
جو آدمی سلامتی کی راہ چاہے اسے چاہیے کہ ہلاکت کے اسباب سے دور رہے ۔ خائفین کے دلوں کو یہی چیز بے قرار رکھتی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ دل پھرتے رہتے ہیں اور احوال بدلتے رہتے ہیں۔
صحیحین میں حضرت سہل بن سعد کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ” بعض دفعہ آدمی دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے ، حالاں کہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کبھی آدمی جنت والوں کے سے عمل کرتا ہے، حالاں کہ وہ دوزخی ہوتا ہے۔“
بیان کیا گیا ہے کہ جب بندے کی روح کو آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے ، تو فرشتے کہتے ہیں ۔” سبحان الله! یہ بندہ شیطان سے بچ کر آگیا، تعجب ہے کہ کیسے بچا؟!“
جب تم نے برے خاتمے کے معنی سمجھ لیے تو اُس کے اسباب سے بچو اور اصلاح کی تیاری کر و، اس تیاری کو آئندہ پر ڈالنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ عمر بہت تھوڑی ہے اور ہر سانس خاتمے کی طرح ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ تمہاری روح اسی حال میں قبض ہو جائے۔
انسان اسی پر مرتا ہے جس پر زندہ رہتا ہے او رجس پرمرے گا اسی پر اُٹھے گا۔
معلوم ہونا چاہیے اصلاح کی کوشش صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم بقدر کفایت پر قناعت کرو اور زائد چیزوں کی طلب چھوڑ دو۔ ہم ڈرنے والوں کی کچھ باتیں سناتے ہیں۔ امید ہے کہ ان سے دل کی سختی دور ہو جائے گی۔
یہ تو تم مانتے ہو کہ انبیاء اور اولیاء تم سے زیادہ عقل مند تھے تو ان کے خوف کی شدت میں غور کرو، شاید تم اپنے نفس کو تیار کرسکو۔
ملائکہ علیہم السلام کا خوف
الله تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا ہے: ﴿یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما یؤمرون﴾․ ( سورہٴ نحل، آیت:50)
(وہ اپنے اوپر سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور جو انہیں حکم ہوتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔)
ہمیں نبی صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا: ” الله تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں کہ جن کے کندھے الله کے ڈر سے کانپتے رہتے ہیں ۔“ اور پھر پوری حدیث بیان کی۔
ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ عرش اٹھانے والے فرشتوں کی آنکھوں سے نہروں کی طرح آنسو بہتے ہیں او رجب وہ سراوپر اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں: ”تو پاک ہے، جیسے تجھ سے ڈرنے کا حق ہے ایسا ڈرا نہیں جاتا۔“ تو الله تعالیٰ فرماتے ہیں :” جو میرے نام سے جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں وہ یہ بات نہیں جانتے۔“
جابر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے معراج کی رات جبریل علیہ السلام کو دیکھا وہ الله کے ڈر کی وجہ سے پرانی مشک کی طرح تھے۔“
ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جبریل علیہ السلام، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے تو رو رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا: ”کیوں روتے ہو ؟“ تو کہا: ”جب سے الله نے جہنم کو پیدا کیا ہے اس ڈر سے میری آنکھیں خشک نہیں ہوئیں کہ میں الله کی نافرمانی کروں اور وہ مجھے اس میں ڈال دے۔“
یزیدرقاشی نے کہا: ”عرش کے گرد الله کے کچھ فرشتے ہیں ،جن کے آنسو قیامت تک نہروں کی طرح چلیں گے، وہ اس طرح الله کے ڈر سے لرزتے ہیں کہ جیسے ہو اُن کو اڑا کر لے جائے گی۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ”اے میرے فرشتو! تم کیوں خوف کرتے ہو جب کہ تم میرے پاس ہو ؟“ تو وہ کہتے ہیں : ” اے رب! جتنا ہم تیری عزت اور عظمت کو جانتے ہیں اگر زمین والے جان لیں تو کھانا پینا چھوڑ دیں اور بستروں پر نہ لیٹیں، جنگلوں کی طرف نکل جائیں اور بیلوں کی طرح ڈکراتے رہیں۔“
محمد بن منکدر نے کہا:” جب جہنم پیداہوئی، تو فرشتوں کے دل لرزنے لگے۔ پھر جب آدم علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کے دلوں کو سکون ہوا۔“
بیان کیا گیا ہے کہ جب ابلیس کی کارستانی ظاہر ہوئی تو جبریل اورمیکائیل رونے لگے ۔ الله تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی فرمائی کہ یہ رونا کیسا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا:” اے رب! ہم تیری پکڑ سے بے خوف نہیں ہیں ۔“ فرمایا:” اسی حالت پر رہو۔“
انبیاء علیہم السلام کا خوف
وہب نے کہا:” آدم علیہ السلام جنت سے نکلنے کے بعد تین سو سال تک روئے اور غلطی ہو جانے کے بعد کبھی آسمان کی طر ف اپنا سر نہ اٹھایا۔“
وہب بن وردنے کہا:” جب الله تعالیٰ نے نوح علیہ السلام پر بیٹے کے متعلق عتاب فرمایا او رکہا: ﴿انی أعظک ان تکون من الجاھلین﴾․ (سورہ ہود، آیت:46)
(میں تجھے نصیحت کرتا ہوکہ جاہلوں میں سے نہ ہو ۔)
تو آپ تین سو سال تک روتے رہے۔ یہاں تک کہ رونے کی وجہ سے آنکھوں کے نیچے نالیاں سی بن گئیں۔“
ابوالدرداء رضی الله عنہ نے کہا: ” ابراہیم علیہ السلام جب ، نماز میں کھڑے ہوتے تو الله کے خوف کی وجہ سے ان کے سینے سے ہنڈیا کے ابلنے کی سی آواز آتی۔“
مجاہد نے کہا:” جب داؤد علیہ السلام سے خطا ہوئی تو آپ چالیس روز تک سجدے میں پڑے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کے آنسوؤں سے سبزی اُگ آئی، جس نے سر کو چھپالیا۔ پھرپکارا:” اے رب ! پیشانی رخمی ہو گئی اور آنکھیں خشک ہو گئیں اور داؤد کو اپنی غلطی کے بارے میں کوئی جواب نہیں ملا۔“ تو ان کو آواز آئی ”کیا تو بھوکا ہے کہ تجھے کھانا دیا جائے ؟
یا بیمار ہے کہ شفا دی جائے ؟ یا مظلوم ہے کہ تیری مدد کی جائے ؟ “ تو آپ کے منھ سے ایسی آہیں نکلیں کہ ساری سبزی میں ہیجان پیدا ہو گیا۔ اس وقت الله نے اُن کو معاف کر دیا۔
کہا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام کو بیمار سمجھ کر لوگ بیمار پُرسی کے لیے آتے، حالاں کہ ان کو صرف الله کا ڈر ہوتا تھا، کوئی بیماری نہ ہوتی تھی۔
عیسی علیہ السلام جب موت کو یاد کرتے تو آپ کے جسم سے خون پھوٹ آتا۔
حضرت یحییٰ بن زکریا علیہما السلام اتنا روئے کہ اُن کی ڈاڑھیں ننگی ہو گئیں، تو ان کی والدہ نے نمدے کی دو تہیں ان کے رخساروں پر باندھ دیں۔
ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کا خوف
حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: ”میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کبھی قہقہہ لگا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ میں آپ کے کوے کو دیکھ لوں۔ آپ صرف تبسم فرماتے اور جب بادل یا آندھی دیکھتے تو آپ کے چہرے سے خوف ظاہر ہوتا۔ میں نے کہا اے الله کے رسول ! لوگ جب بادل دیکھتے ہیں تو بارش کی امید کی وجہ سے خوش ہوتے ہیں
اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم بادلوں کو دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے خوف ظاہر ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اے عائشہ! میں اس سے مطمئن نہیں کہ اس میں عذاب ہو اور ایک قوم کو آندھی سے عذاب ہوا او رایک قوم نے عذاب دیکھا تو کہنے لگی۔ یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔“( صحیحین )۔
نبی صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھتے تو رونے کی وجہ سے آپ کے سینے میں ہنڈیا کے اُبلنے جیسی آواز آتی۔
صحابہ رضی الله عنہم کا خوف
بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اپنی زبان کو پکڑ کر کہتے ” یہ ہے جس نے مجھے ہلاکتوں میں ڈالا “او رکہتے ”کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹا جاتا، پھر جلایا جاتا!“
اسی طرح طلحہ اور ابوالدرداء اور ابوذررضی الله عنہم نے بھی کہا۔
حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ قرآن کی آیتیں سنتے او ربیمار ہو جاتے۔ لوگ کئی دن تک ان کی بیمار پرسی کو آتے۔ آپ نے ایک دن زمین سے تنکا اٹھایا او رکہا: ”اے کاش! میں یہ تنکا ہوتا اے کاش! میں کوئی چیز قابل تذکرہ نہ ہوتا۔ اے کاش! میری ماں مجھے نہ جنتی ۔“ رونے کی وجہ سے آپ کے چہرے پر دو سیاہ لکیریں پڑ گئی تھیں۔
حضرت عثمان رضی الله عنہ نے کہا: ”میں چاہتا ہوں کہ جب مر جاؤں تو دوبارہ نہ اٹھایا جاؤں۔“
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی الله عنہ نے کہا: ”کاش! میں ایک مینڈھا ہوتا، میرے گھر والے مجھے ذبح کر دیتے او رمیرا گوشت کھا لیتے۔“
حضرت عمران بن حصین نے کہا:” اے کاش! میں راکھ ہوتا، جسے ہوائیں اُڑا کر لے جاتیں۔“
حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا:” کاش! میرے پاس کوئی ہو جو میرے مال کی نگرانی کرے اور میں اپنا دروازہ بند کر لوں او رکوئی میرے پاس نہ آئے، یہاں تک کہ میں الله سے جاملوں۔“
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کے رخساروں پر آنسو جاری ہونے کی لکیریں اس طرح تھیں جیسے پرانا تسمہ۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: ”اے کاش! میں بھولی بسری ہوئی چیز ہوتی۔“
حضرت علی رضی الله عنہ نے کہا:” خدا کی قسم! میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا ہے آج اُن کی طرح کا کوئی آدمی نہیں ہے۔ وہ پریشان ، بال غبار آلودہ، صبح کرتے، ان کی حالت ایسی ہوتی جیسے لٹا ہوا قافلہ، ان کی آنکھوں کے درمیان ایسے نشانات پڑے ہوتے جیسے بکریوں کے گھٹنوں پر، وہ رات الله کے سامنے سجدے اور قیام میں گزارتے۔
الله کی کتاب پڑھتے، کبھی کھڑے ہوتے کبھی سجدہ کرتے۔ پھر صبح ہوتی اور الله کا تذکرہ ہوتا تو اسی طرح کانپتے جیسے آندھی میں درخت اور اُن کی آنکھیں بہتیں، یہاں تک کہ ان کے کپڑے بھیگ جاتے۔ خدا کی قسم! اب تو گویا قوم غافل ہو کر سو گئی ہے۔“
تابعین اور بعد کے لوگوں کا خوف
حضرت ہرم بن حیان نے کہا:” خدا کی قسم! میں پسند کرتا ہوں کہ کاش میں کوئی درخت ہوتا جسے کوئی اونٹنی کھا جاتی، پھیر مینگنی کی شکل میں مجھے پھینک دیتی اور میں قیامت کے دن حساب سے بچ جاتا۔ میں اس بڑی مصیبت سے ڈرتا ہوں۔“
حضرت حسین بن علی جب وضو کرتے تو رنگ زرد ہو جاتا۔ لوگ پوچھتے کیا بات ہے ؟ تو کہتے :” کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے جارہا ہوں؟“
حضرت محمد بن واسع رات کا اکثر حصہ روتے ہوئے گزارتے۔ خاموش نہ ہوتے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز، جب موت کا تذکرہ ہوتا تو پرندے کی طرح پھڑپھڑاتے او رروتے، یہاں تک کہ ان کے آنسو اُن کی ڈاڑھی پر بہتے۔ آپ ایک رات سوئے تو گھر والے بھی رونے لگے۔ جب آنسو تھمے تو آپ کی بیوی فاطمہ نے کہا: اے امیر المؤمنین! میرے ماں باپ قربان، آپ کیوں روئے؟ تو کہا:” مجھے خیال آگیا کہ لوگ الله کے دربار سے پھر کر جنت کو جارہے ہیں او رکچھ دوزخ کو ۔“ پھر آپ چیخے اور بے ہوش ہو گئے۔
جب خلیفہ منصور نے بیت المقدس کا ارادہ کیا ، تو آپ ایک راہب کے پاس ٹھہرے، جس کے پاس حضرت عبدالعزیز ٹھہرا کرتے تھے۔ اس سے کہا:” مجھے عمر بن عبدالعزیز کی کوئی عجیب بات بتاؤ جو تم نے دیکھی ہو۔“
راہب نے کہا:” ایک رات وہ میرے اس کمرے کی چھت پر رہے ۔ چھت پر سنگ مر مر کی سلیں لگی ہوئی تھیں۔ پرنالے سے پانی کے قطرے گرنے لگے۔ میں نے جاکر دیکھا تو آپ سجدے میں تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔“
ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز او رحضرت فتح موصلی خون کے آنسو روتے۔
حضرت ابراہیم بن عیسٰی یشکری نے کہا:” میں بحرین میں ایک آدمی کے پاس گیا جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا تھا، میں نے اس سے آخرت کا تذکرہ کیا۔ اس نے بھی موت کا تذکرہ کیا او رپھر وہ چیخنے لگا، یہاں تک کہ اس کی جان نگل گئی۔“
حضرت مسمع نے کہا: ”میں عبدالواحد بن زید کے پاس گیا۔ وہ وعظ کہہ رہے تھے، اُس دن اُن کی مجلس میں چار آدمی فوت ہو گئے۔“
یزید بن مرشد بہت روتے اور کہتے” خدا کی قسم! اگر مجھ سے الله تعالیٰ یہ کہتے کہ میں تمہیں اس حمام میں قید کر دوں گا تو میرا حق تھا کہ میں ہمیشہ روتا رہتا۔ پھر میں کیسے نہ رؤوں کہ الله نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا تو وہ مجھے آگ میں قید کرے گا۔“
حضرت سری سقطی نے کہا:” میں ہرروز آئینہ میں اپنا چہرہ اس خوف سے دیکھتا ہوں کہ میرا چہرہ سیاہ نہ ہو گیا ہو۔“
تو یہ تھا ملائکہ، انبیاء، عبادت گزاروں اور اولیاء کا خوف! ہمیں تو اُن سے بھی زیادہ ڈرنا چاہیے کیوں کہ ہمارے درجات کم او رگناہ زیادہ ہیں۔
ڈر گناہوں کی کثرت سے نہیں بلکہ دل کی صفائی اور کمالِ معرفت سے آتا ہے ۔ ہم اگر بے خوف ہیں ، تو جہالت کے غلبے اور دل کی قساوت کی وجہ سے، صاف دل کو تھوڑا سا خوف بھی حرکت میں لاتا ہے اور سخت دل پر کوئی وعظ اثر نہیں کرتا۔
ایک بزرگ نے فرمایا:” میں نے ایک راہب سے کہا مجھے کچھ نصیحت کرو۔ تو اُس نے کہا:” اگر تم سے ہو سکے تو اس آدمی کی طرح ہو جاؤ جس کو درندوں اور سانپ بچھوؤں نے گھیر لیا ہو اور وہ ڈر رہا ہو کہ اگر ذرا بھی غفلت کی تو درندے اس کو پھاڑدیں گے، یا بھول گیا تو سانپ بچھوا سے ڈس لیں گے۔“
میں نے کہا:” کچھ اور فرمائیے، توکہا:” پیاسے کو وہی کافی ہے جو آسانی سے مل جائے۔“
اس راہب نے ایسے شخص کی مثال دی ہے جسے درندوں اورحشرات الارض نے گھیر لیا ہو ۔ یہ مثال مومن کے حق میں بالکل صحیح ہے۔ جو آدمی نور بصیرت سے اپنے اندر دیکھے گا اسے درندوں او رکیڑے مکوڑوں سے بھرا ہوا پائے گا۔ جیسے غضب ، کینہ ، حسد ، تکبر، عُجب او رریا وغیرہ۔ اگر یہ غفلت کرے گا تو یہ سب اس کو نوچیں گے
او رپھاڑ کھائیں گے۔ ہاں! دنیا میں ان کے مشاہدے سے حجاب ہے۔ جب پردہ اُٹھ جائے گا اور اسے قبر میں رکھا جائے گا، تو یہ سانپ اور بچھو واضح طور پر دیکھے گا جو اس کو ڈسیں گے۔
جو آدمی موت سے پہلے ان پر غالب آنا یا ان کو مارنا چاہے وہ ایسا ضرور کرے، ورنہ اپنے نفس کو ان سے ڈسوانے کے لیے تیار کر لے اور یہ جان لے کہ وہ صرف ظاہری جسم ہی کو نہ ڈسیں گے، بلکہ دل (روح) کو بھی ڈسیں گے۔