
حیات، فن اور شخصیت میر انیسؔ
تعارف اور خاندان:
اُردو شعر و ادب کے بعض تذکروں میں خدائے سخن کا عنوان دو عظیم شاعروں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ میر تقی میر اور میر انیسؔ۔ میر تقی میر نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے غزل کو منتخب کیا اور میر انیسؔ نے مرثیہ کا انتخاب کیا۔
جرمن کے مشہور شاعر گوئٹے نے کہا تھا: ”ادب میں کوئی صنف اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جب تک کہ اُس کا موضوع عظیم نہ ہو“۔ میر انیسؔ نے جس صنفِ شاعری مرثیہ کا انتخاب کیا اُس کا موضوع عظیم ترین موضوع یعنی شہادت امام حسین تھا۔
فردوسی کہتا ہے:
منم ساختم رستمِ داستاں
وگرنہ یلے بود در سیستان
یعنی شاہنامہ میں، میں نے اپنے موئے قلم سے رستم کو رستم بنایا ورنہ وہ تو سیستان کے علاقہ کا ایک نیم وحشی شخص تھا۔ اس کے برخلاف میر انیسؔ کو جن برگزیدہ ہستیوں کے واقعات، جذبات نفسیات اور ان کی سیرت نگاری، کردار نگاری، رزم بزم اورسراپا کی مرقع کشی کرنی پڑی وہ داستان سازی نہ تھی بلکہ بڑی مشکل اور دشوار راہ تھی۔ میر انیسؔ نے اپنی عاجز بیانی اور مجبوری کا اظہار یوں کیا ہے:
میں کیا ہوں مری طبع ہے کیا اے شہِ شاہاں
حسانؔ و فرزدقؔ ہیں یہاں عاجز و حیراں
شرمندہ زمانے سے گئے وائل و سحباؔں
قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں
کیا مدحِ کفِ خاک سے ہو نورِ خدا کی
لکنت یہاں کرتی ہیں زبانیں فصحا کی
میر انیسؔ کا خاندان شاعری مدحتِ محمدؐ و آلِ محمدؐ سے سرشار تھا۔ چنانچہ فخریہ انداز میں فرماتے ہیں:
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؑ کی مداحی میں
میر انیسؔ کے پوتے دولہا صاحب عروجؔ فرماتے ہیں۔
سیر اک جام سے میں ہوں یہ مرا طور نہیں
سات پشتوں کا شرابی ہوں کوئی اور نہیں

میر انیسؔ خاندانی شاعر تھے۔ خاندانِ میر انیسؔ کے سوا دنیا میں کوئی دوسرا ایسا سلسلہ نظر نہیں آتا جس میں پے در پے، نسل در نسل آٹھ ممتاز و معروف شاعر پیدا ہوئے ہوں۔ اس خاندان نے تقریباً تین صدیوں میں پہلے فارسی اور پھر اردو زبان کی ایسی خدمت کی کہ اس خاندان کی زبان مستند، لب و لہجہ معتبر اور اس کا مقام شعر و ادب کا گہوارہ بن گیا۔ اسی لئے مشہور شاعر شیخ ناسخ اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے۔ “بھئی زبان سیکھنی ہو تو میر خلیقؔ کے ہاں جایا کرو۔” میر انیسؔ
Diwan-e-Rubaiyat-e-Anees | دیوانِ رباعیاتِ انیس
By (author)Syed Taqi Abedi | سید تقی عابدی
Author : Toobaa Book Foundation
(Downloads – 8)


