دیسی طب کی اگر سرپرستی کی جائے؟
Dasi Tibb by Hakeem qari m younas shahid
دیسی طب کی اگر سرپرستی کی جائے؟
یہ کسی ہمدردی یا مخاصمت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہمدردی کی وجہ سے کہتا ہوں ملکی سطح پر ایسی فضا کو تشکیل دینا چاہئے کہ ضرورتوں کومقامی سطح پر پورا کرنے کی سوچ کو پنایا جا ئے ۔ اپنی اشیاء کی قدر کی جائے اپنے طریق علاج کو اپنایا جائے۔
اس بات میں بھی برائی نہیں کہ کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے دوسروں سے استفادہ کیا جائے تو بھی قباحت والی بات نہیں ہے ۔ اخذ و افادہ و استفادہ کا سلسلہ رکنا نہیں چاہئے۔نفرت و کراہت والی فضا کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔میل ملاپ کا ایک انداز یہ بھی ہو سکتاہے ان اشیاء کی فہرست بنائی جائے جو تمام طرق علاج میں مستعمل ہیں دیسی طب ایلو پیتھی۔
ہومیو پیٹھی وغیرہ میں جو چیز مشترکہ طور پر کام میں لائی جارہی ہیں خواہ اسے کسی انداز یا کسی بھی طریقے سے کام لیا جارہا ہے۔ان کی جامع فہرست بنائی جائے جب ماخذ و مصدر ایک ہوگا تو اختلافی باتیں ختم ہونے میں مدد ملے گی۔رہی بات ادویاتی پراسس اور ان اشیاء کو مریضوں کے لئے قابل استعمال حالت میں لانے کی تو اس پر بیٹھ کر بات کی جاسکتی ہے۔جو انداز میں ہمارے ماحول سے موانسنت رکھے اسے اپنا لیا جائے۔امید ہے کہ ہمارے لوگوں کو ایسا سہل و آسان کم خرچ طریق علاج میسر آئے گا جو ہر امیر و غریب کی پہنچ میں ہوگا۔
کیا کسی بھی انداز میں دھونس جمانا مناسب ہے؟
رسم دنیا ہے جس کے پاس دنیا ہوگی بات بھی اسی کی سنی جائے گی فیصلے قابلیت سے زیادہ مالیت کی بنادپر کئے جاتے ہیں جن کے ظاہر ومخفی اثرات بد دونوں فریقوں کو متأثر کرتے ہیں ایلو پیٹھی کو مالی لحاظ سے فوقیت حاصل ہے جب کہ دیسی طب اس سے تہی دست ہے۔اس لئے اسے جو حق ملنا چاہئے اس سے کہیں زیادہ قبضہ کرچکی ہے مثلاََ خود اگر کسی مقامی سطح پر پائی جانے والی جڑی بوٹی کے فوائد سے دامن بھرتی ہے اس پر قبضہ جماکر دوسروں کو اس سے متعلقہ کسی بھی حق دینے سے گریزاں ہے۔
رہی بات تالیفی ادویات کی جو لبارٹریز میں تیار ہوتی ہیں ان پر کسی حکیم طبیب کو نگاہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔عجیب انداز ہے شاید ابھی تک ایسٹ انڈیا کمپنی والی سوچ کار فرما ہے۔جو مقامی لوگوں مال و زمین کے ساتھ ان کے بنیادی حقوق دینے سے بھی ناک منہ چڑھاتی ہے ۔ ملک بھی ان کا زمین و زر بھی ان کا ان کے ملک میں انہیں کو غلام بنا کر رکھ دیا گیاہے۔بس یہی کچھ یہاں پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔مال لحاظ سے طاقتور طبقہ کسی دوسرے کو جینے کا حق دینے سے بھی انکاری ہے۔
چلو فیصلہ کرلیتے ہیں؟
عمومی طور پر طبیب حضرات انگریزی طریقے سے تیار کردہ ادویات کو کھلے عام استعمال کرنے سے خوف کھاتے ہیں کیونکہ ایسے قوانین بنا دئے ہیں کہ کوئی معالج کسی دوسرے کی ساختہ دوا کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ہسپتالوں میں جگہ جگہ بورڈ آویزاں کئے جاتے ہیں کہ اس جگہ دیسی ادویات کا استعمال ممنوع ہے ۔ جب کہ حکیم و ڈاکٹر دونوں اسی معاشرہ کے فرد اور دونوں ہی مریض کی شفایابی کے لئے کوشاں ہیں۔
لیکن بد اعتمادی اتنی سرایت کرچکی ہے کہ کوئی بھی مخالف کو جائز مقام دینے پر آمادہ نہیں ہے اگر اس فضا میں مزید گھٹن پیدا کرنا چاہتے تو چاہئے اپنا اپنا حصہ بانٹ لیں۔
ملکی سطح پر جڑی بوٹیوں پر حق ملکیت دیسی لوگوں کو دیا جائے اور تالیفی ادویات پر ایلو پیٹھی یا ہومیو پیٹھی کا حق تسلیم کیا جائے۔ساتھ میں یہ بھی فیصلہ کیا جائے جو چیزیں داکٹروں کی ایجاد کی ہیں وہ ان کی ملکیت ہوں اور اور جن چیزوں کو منظر عام پر لانے کے لئے حکماء نے جد جہد کی ہے وہ حکماء کے لئے وقف کردی جا ئیں ۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی مکمل طور پر اپنے مطب و کلینک کو نہیں چلا سکے گا۔
انگریزی لبارٹریز میں تیزاب بالخصوص گندھک کا تیزاب رہڑ ھ کی ہڈی کی بنیاد رکھتا ہے جسے جابر بن حیان نے بنایا تھا اور وہ ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک حکیم تھا۔سرجری کی ابتدا الزہراوی نے کی تھی جسے مشرق و مغرب کے سب ہی باشندے تسلیم کرتے ہیں۔
ثبوت چاہئے تو ان کے کتاب التصریف اٹھا کر دیکھ لیجئے۔آپٹیکل بصارت و آنکھوں کے بارہ میں ابن الہیثم نے بہت پہلے کام کیا تھا وہ ڈاکٹر نہیں حکیم تھا۔اگر اس چکر میں پڑیں گے تو بہت سے ناگوار تأثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔دیسی طریق علاج کو منظم انداز میں بدنام کیا گیا اس کھیت وکھلیان کو اپنوں نے بھی اجاڑے میں کسر نہیں چھوڑی دوسروں پر کیا گلہ کیا جاسکتا ہے؟