Read more about the article المصنف لابن ابی شیبہ” کا مکمل اردو ترجمہ
المصنف لابن ابی شیبہ" کا مکمل اردو ترجمہ

المصنف لابن ابی شیبہ” کا مکمل اردو ترجمہ

المصنف لابن ابی شیبہ" کا مکمل اردو ترجمہ المصنف لابن ابی شیبہ" کا مکمل اردو ترجمہ 《 بشکریہ : مولانا ابوریان جاوید قاسمی ستکپوری (انڈیا) 》 خدمت ِ حدیث وسنت…

Continue Readingالمصنف لابن ابی شیبہ” کا مکمل اردو ترجمہ
Read more about the article طب نبویﷺ میں فالج کا تصور
طب نبویﷺ میں فالج کا تصور

طب نبویﷺ میں فالج کا تصور

طب نبویﷺ میں فالج کا تصور طب نبویﷺ میں فالج کا تصور تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان…

Continue Readingطب نبویﷺ میں فالج کا تصور
Read more about the article نبیﷺ کے معمولات یومیہ
نبیﷺ کے معمولات یومیہ

نبیﷺ کے معمولات یومیہ

نبیﷺ کے معمولات یومیہ نبیﷺ کے معمولات یومیہ تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان دن کا آغازبعد نمازفجر۔…

Continue Readingنبیﷺ کے معمولات یومیہ
Read more about the article پستانوں کا سخت ہو نا
پستانوں کا سخت ہو نا

پستانوں کا سخت ہو نا

پستانوں کا سخت ہو نا پستانوں کا سخت ہو جانا تحریر: حکیم قاری محمد یونس میو سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور حکیم محمد یاسین دنیا…

Continue Readingپستانوں کا سخت ہو نا
Read more about the article قدیم عربی نظام طب پر ایک نظر
قدیم عربی نظام طب پر ایک نظرحکیم ظل الرحمن۔پیش کردہ:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان

قدیم عربی نظام طب پر ایک نظر

قدیم عربی نظام طب پر ایک نظر

قدیم عربی نظام طب پر ایک نظر حکیم ظل الرحمن۔ پیش کردہ:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
قدیم عربی نظام طب پر ایک نظر
حکیم ظل الرحمن۔
پیش کردہ:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان

قدیم عربی نظام طب پر ایک نظر

حکیم ظل الرحمن۔
پیش کردہ۔
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان

اکثر مولفین کی رائے کے مطابق قرون وسطی کا اطلاق پانچویں صدی میں رومی شہنشاہیت کے خاتمہ کے بعد سے پندرہویں صدی کے وسط تک ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا میں عالم انسانی کا سب سے مہتم بالشان واقعہ اسلام کا ظہور، تمام دنیا میں اس کی بسرعت اشاعت اور عرب میں ایک نئی روح اور وحدت کا قیام ہے۔
622ء میں اسلامی نظام قائم ہونے کے بعد جہاں عرب میں ذہنی، فکری اور سیاسی انقلاب بپاہوا۔ وہاں تہذیب و ثقافت، زبان و ادب اور علم و فن نے دہ ارتقائی منزلیں طے کیں، جن کی نظیر پیش کرنے سے گزشتہ تاریخ قاصر ہے۔ طبیعی علوم میں طب اور علم الادویہ پر اس کے اثرات سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ ان کی توسیع و اشاعت میں جو شاندار خدمات وہاں انجام پائیں وہ تاریخ کے صفحات پر بھری ہوئی ہیں۔ ان کا یہ عہد نہ صرف عربی طب وعلم الادویہ کے لیے بلکہ طب کی پوری تاریخ کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔
عرب طب کے مطالعہ میں عام طور پر عباسی عہد کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ عہد اس سے قبل عرب طب مور خین کی خصوصی دلچسپی کا موضوع نہیں بن کی ہے۔ عبای عہد میں بھی چند شہرہ آفاق اطباء مثلا علی بن ر بن طبری، محمد بن زکریارازی، ابو سہل تھی اور ابن سیناتک مطالعہ محدود ہے۔ اس عہد کے دوسرے اطباء کی تصانیف اور ان کے کارنامے اپنی رونمائی و اظہار کے لیے
۔۔۔۔
محققین کی توجہ کے منتظر ہیں۔ ان مشاہیر اور خود ابن سینا پر تنقیدی کام کے نقطہ نظر سے قدیم طلمی سرمایہ کے جائزہ کی ضرورت پوری طرح محسوس کی جانی چاہئے۔ ابن سینا کے ماخذ کی تلاش اور قدیم ذخائر کوکھنگالے بغیر ابن سیناکی فنی قدر و منزلت کا تعین اور اس کی ذاتی تحقیق اضافہ کے بارے میں کچھ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔
عربوں کے عہد زریں (عبد عباسی) آٹھویں صدی سے قبل عربی طب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ دور قبل از اسلام، دور نبوی و خلافت راشدہ، اور دور اموی۔ در اصل تینوں دور خالص عربی اور دیسی طب سے تعلق رکھتے ہیں۔ عربی طب کا صحیح اطلاق بنوامیہ تک رہا۔ اس کے بعد قدم
عربی نظام طب ختم ہو کر عہد عباسی سے طب کا ایک نیادور شروع ہوا جس میں مقامی اثر سے زیادہ مصر و بابل، یونان وروم اور ایران و ہند کے اثرات کی کار فرمائی تھی۔ اس دور کو عربی کے مقابلہ میں اسلامی سے تعبیر کرنازیادہ قرین صحت ہے۔ ان تینوں ادوار کا جائزہ عرب طب کے مطالعہ میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا اور اس سے بعد کی ترقیات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

عہد قبل از اسلام ۔

دوسری ہم عمر اقوام کے مقابلہ میںلغت اور زبان کے سواعربوں کا علوم سے رشتہ استوار نہیں تھا اور علمی، تہذبی اور طبی لحاظ سے وہ کوئی ممتاز حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ ظہور اسلام سے سیکڑوں سال پہلے سے گو وہ ایک نظام طب کے مالک چلے آرہے تھے اور علم الحشائش والعقاقیر کی صورت میں ان کے ہاں طب کی روایت ضرور قائم تھی، جس میں ان کی ذاتی معلومات و تجربات کے ساتھ کلدانی طب کے اثرات کی کسی قدر آمیزش پائی جاتی تھی(1)۔ لیکن دوسری علمی و فنی معلومات کی طرح ان کی طبی معلومات نہایت مختصر اور حدود تھیں، جزیرۃ العرب کے جغرافیائی محل وقوع سے زیادہ اہل عرب کی مخصوص ذہنی و فکری تربیت کی وجہ سے یونانی، مصری، ہندی یہاں تک کہ ایرانی علوم کا اور وہاں بہت کم نظر آتا ہے۔ اگرچہ دوسرے ممالک سے ان کے تجارتی روابط کا سلسلہ زمانہ دراز سے قائم تھا اور ہندستان کے ساحلی علاقوں تک ان کے تجارتی قا فلے آتے تھے۔ ہندستان سے جو تجارتی اشیاء عرب جاتی تھیں ان میں صندل، کافور، جوزبو، قرنفل، نار جیل، کہا بہ، یاقوت، مروارید فلفل، رصاص (قلعی) تاڑی،قسط، بید(2)، ہیل، ریوند چینی، جاوتری، دار چینی، توتیا،زنجبیل، ہلیلہ، بلیلہ، بھلانوہ، فوفل، نارگی، لیموں اورنیل میں طبی استعمال کی چیزیں تھیں۔

(more…)

Continue Readingقدیم عربی نظام طب پر ایک نظر