میوء قوم کاراستہ میں رُکاوٹ تو کینسر ہے۔
میو قوم شاندار ماضی اور بہترین مستقبل راکھن والی قوم ہے،قوم تو کوئی بھی ہوئے معمولی نہ رہوے ہے، البتہ کچھ اوصاف اور گُن ایسا رہوا ہاں جو دوسران سے الگ پہنچان کرانا میں مدد دیواہاں۔ یا بات میں شک نہ ہے قوم میں ابھی تک ایسی اپنائیت پائی جاوے ہے جو عمومی طورپے دوسران میں دکھائی نہ دیوے ہے۔
ہم نے ساری زندگی ایک بات سنی ہے کہ قوم اکھٹی نہ ہے ۔
اگر قوم کو لیڈر مل جائے تو بہت ترقی کرسکے ہے۔
یابات میں کوئی شک بھی نہ ہے کہ بغیر لیڈر کوئی قوم ترقی نہ کرسکے ہے،
قوم کی سوچ ۔
قوم کی مادی طاقت وسائل۔
نشان منزل آگے بڑھنا کی جب تک لگ نہ ہوئے گی
تو کسے آگے بڑھ سکاہاں۔
قوم کی طاقت ایک مٹھی ہوجائے تو راستہ میں آن والا سارا کانٹا صاف ہوسکا ہاں ۔
ویسے کوئی بھی کام یا ترقی بیٹھے بٹھائے نہ ہو سکے ہے ۔
جدو جہد ،لگاتار محنت،منزل معلوم ہونو۔
اور کام کرن والان کا دل میں لگن پیدا ہونو۔
بغیر ہوڈ کے اپنو اپنو کام کرنو۔
اور اپنا حصہ کاکام اے ذمہ داری سمجھنواُوپر چڑھن کی نسینی (سیڑھی)ہاں
جن پے پائوں دھرے بغیر اوپر چڑھنو ممکن نہ ہے۔
ایک مغالطہ کی اصلاح۔۔۔
میون کے اوپر ایک آفت ای بھی آپڑی ہے کہ رہبر و رہنما اور فراڈین لوگن میں تمیز مشکل ہوگئی ہے۔
ایک معمولی سو فرق سمجھ جائو گا تو آسانی ہوجائے گی۔
سب سو پہلے ہم نے ایک فیصلہ کرنو ہوئے گو کہ
ہم نے میو ہونا کی بنیاد پے عزت کرنی ہے یا پھر خدمت کی وجہ سو عہدہ تقسیم کرنا ہاں۔
ایک ہے خدمت کرنو۔۔۔دوسرو ہے دھونس جمانی۔
خدمت کرنو تو واسو کہوا ہاں
کہ کوئی اپنا مال جان وقت سب کچھ قوم کے مارے لگادئے،اور بدلہ میں اللہ کی رضا کو طلب گار ہوئے
دھونس جمانو ای ہے
کہ قوم کے مارے تو کچھ نہ کرو ہوئے۔
دوسرا ن کاکامن پے مل مارکے مخلص لوگن نے پیچھے دھکیل دیواں۔
ایک غلط سو چ کی اصلاح کرنو صروری ہے۔
یا وقت ایسی صورت حال ہے کہ قوم کے سامنے ایسالوگ موجود ہاں
جن کا کھاتہ خدمت سو خالی ہاں، اور وے سامنے کرسین پے بیٹھاہاں۔
اور اپنا عہدہ،یا ریٹائرڈ منٹ کے بعد پرانی حیثیت اے جتاواہاں کہ
جناب فلاں محکمہ میں جنرل کرنل یا برگیڈئیر۔ڈائریکٹر ہو ۔
ای قوم کو سرمایہ ہے۔ اور یہ ریٹائرڈ لوگ بھی سیانپت میں یائی اے سمجھا راہاں
کہ ہم قوم کا ہیرو اور لیڈر ہاں۔
کہا کوئی ان سو پوچھ سکے ہے
کہ دوران ملازمت انن نے قوم کی کہا خدمت کری؟
قوم کو کتنو فائدہ پہنچائیو؟
قوم کی بقا ء کے مارے کونسو قدم اٹھا ئیو۔۔۔
۔نوے فیصد لوگ بغلن نے جھانکگا۔
۔کوئی معقول جواب نہ دے سکنگا۔۔۔
کہیں محکمانہ مجبوری ۔تو کہیں آن والان کی کم عقلی
،کہیں ہم سو کائی نے کوئی خدمت لی ای نہ ہی۔۔
۔جیسی باتن نے کرنگا۔۔
۔دراصل یہ غاصب ہاں۔۔
۔جو حیلہ بہانان سو قوکا راستہ میں رکاوٹ کھڑی کراہاں۔۔
خود کچھ کراہاں نہ دوسران نے کچھ کرن دیواہاں۔
ان کو کہنو گناہ ہوئے یا ثواب پروا نہ ہے بس اُن کی مرضی سو ہونو چاہے۔
۔جب طاقتور ہوکے کچھ نہ کرسکا تو آج چلا کارتوس کہا بھاڑ پھوڑنگا؟
حدک کرن والی بات ای ہے
کہ دوسران کا کارنامان نے نے اپنا کارنامہ بتاکے لوگن کو دھوکہ دیوا ہاں۔۔۔
دراصل یہ لوگ قوم کا جسم میں کینسر ہاں ۔۔۔
کیونکہ کینسر دکھ بھی دیوے ہے۔۔
جسم میں نئی طاقت اورنیا خلیہ پیدا ہون سو روکے ہے۔۔
یہی کچھ یا وقت میو قوم کے ساتھ ہورو ہے ،
موجودہ لوگ خود کچھ کراہاں
نہ نیا کام کرن والان نے کچھ کرن دیواہاں۔۔۔
نوں کہہ سکو کہ قوم کی ترقی کا راستہ میں
دو بات بنیادی رکاوٹ ہاں۔۔۔
(1)اجتماعی اور اکھٹی سوچ کو نہ ہونو۔۔۔۔
ہر کوئی کہوے کہ میں لیڈر ہوں۔۔۔
لیکن قوم کونسا راستہ سو ترقی کرسکے ہے
کائی کے پئے کوئی لائحہ عمل نہ ہے۔۔
چاروں گھاں سو شور سنائی دیوے ہے۔۔کان پڑی سنائی دہ دیوے ہے۔۔۔
(2)لیڈر شپ کو نہ ہونو۔۔۔
ای نہ ہوسکے ہے کہ لیڈر کی موجودگی میں ترقی نہ ہوئے۔۔
اگر لیڈر ہاں اور ترقی نہ ہورہی تو سوچنو چاہے کہیں لیڈر ن(رہبرن) کی شکل کوئی راہزن ہاں۔۔۔۔
میں نے جتنا لوگن سو بھی بات کری ہے
بالخصوص ٹھونڈا قسم کا لوگن سو
ان کے پئے قوم کے مارے کوئی راستہ(روٹ میٹ) نہ ہے۔۔۔
گھنا لوگ تو صرف گپوڈ لگاہواہاں
اور ٹیم پاس کراہاں۔۔۔
اگر کائی کے پئے قوم کی ترقی اور آگے بڑھن کو نسخہ ہوئی
یا کوئی فریم ورک ہوئے ۔۔
ضرور بتائے جاسو اطمنان ہوسکے
کہ نقشہ موجود ہے کائی دن مکان بھی بن جائے گو۔۔۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو