میدان طب کی مشکلات۔اطباء کی ذمہ داری۔
میدان طب کی مشکلات۔اطباء کی ذمہ داری۔
Difficulties in the field of medicine. The responsibility of doctors.
صعوبات في مجال الطب مسؤولية الأطباء.
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور
میدان عمل
ایک طبیب جب میدان عمل میں اترتا ہے تو اس کے سامنے بہت ساری ذمہ داریاں اور مجبوریاں ہوتی ہیں ،احساسات کا بوجھ ہوتا ہے۔طبیب ایک مسیحا ہوتا ہے جس کی ہر آن و ہر لمحہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مریض دکھی نہ رہ جائے۔ایک مریض کی تشخیص،تلاش مرض۔تجویز دوا،غذا کا تعین،پرہیز پر غور و فکر۔دوا کی خوراکی مقدار۔مریج کی مالی حیثیت کہ دی گئی ہدایات پر عمل کرنے کی کتنی قابلیت رکھتا ہے وغیرہ ایک طولانی سلسلہ فکر گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔عمومی طورپر جن باتوں کو روز مرہ کا معمول سمجھا جاتا ہے ان کی طرف سے تجربہ کی بنیاد پر معالج بے فکری سے کام لیتا ہے،اس بے فکری کا سبب تجربہ ہوتا ہے۔
جب ہم فن طب کی پرانی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ باتیں اتنی حیران کن پڑھنے کو ملتے ہیں کہ فن طب کے راویوں نے کس جانفشانی سے کام لیتے ہوئے اس فن کو زندہ رکھا اور آنے والی نسلوں کے لئے اسے محفوظ بنا دیا۔
طب کی خدمات
ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بہترین ایام طب کے حصول میں خرچ کردئے ،جب زندگی میں آرام کے دن تھے انہوںنے آشائش زندگی کی قربانی دیتے ہوئے کتابیں لکھیں۔کہنے کو ایک کتاب ایک مصنف و مولف کی کاوش دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت حال اس سے کہیں الگ ہے۔ایک مصنف جب کسی کتاب کی تسوید و تبویض کرتا ہے تو اس میں نسلوں سے چلی روایات و تجربات کو سمو تا ہے۔ساتھ میں کچھ اپنے تجربات بھی شامل کرتا جاتا ہے،اس کی تائید و تردید آنے والوں کے لئے راستہ متعین کرتی ہیں۔کہ پہلے لوگ اس بارہ میں کیا سوچ رکھتے تھے یا ان کے تجربات اس مرض یا مسئلہ کے بارہ میں کیسے تھے۔آج اس معاملہ میں لوگوں کی رائے اور تجربات کیا ہیں؟ جب ہمارے سامنے مصنف اور موجودہ وقت کا فاصلہ کھلتا ہے تو سمجھنے میں آسانی رہتی ہے کہ اب تک مرض۔تشخیص۔غذا۔دوا ،تجربات میں کس قدر تغیر و تبدل ہوچکا ہے۔
پرانی کتب کے تراجم
جن دنوں میں کتاب التیسیر۔۔ابن زہر کی ترتیب نو میں مصروف تھا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مصنف اپنی کتاب میں باربار دوائوں کی تبرید و تسکین کے حوالے سے ہدایت کرتے ہیں کہ فلاں دوا کو۔کنوئیں کے پانی سے ٹھنڈا کیا جائے۔فلاں کو چشمے کے پانی میں اتنی دیر رکھ کر قابل استعمال بنایا جائے(دیکھئے کتاب التیسیر فی المداوۃ التدبیر۔ابو مروان عبد الملک ابن زہر۔ (1092تا1162ء۔484۔557ھ) آج کا طبیب کی سمجھ میں ان باتوں کا آنا بہت مشکل ہے۔کیونکہ کنوئیں بھی ختم ہوچکے ہیں ،چشموں کا بھی اتنا چلن نہیں ہے۔برقی ترقی نے ان اشیاء کو فنا کے گھات اتار دیا ہے۔
طرُق علاج
اسی طرح دوائوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کنوئیں یا چشمے کا تصور ختم ہوگیا ہے۔اب تو فریج ۔نے ہر گھر میں پائوں جما لئے ہیں۔ائیر کنڈیشنر،گھر گھر میں کیا ہر کمرے کا جزو لازم بن چکے ہیں۔اسی طرح کی بہت سی باتیں اس وقت رائج العمل تھیں بلکہ جزو طب تھیں آج کا طبیب ان سے ناآشنا ہے ۔یہ باتیں تو اس طب کے بارہ میں ہیں جس کے ہم لوگ امین کہلاتے ہیں۔دیگر طرق علاج میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔کل جس چیز کو علاج کا جزو لازم سمجھا جاتا تھا۔آج اسے متروک ہوئے بھی سالوں گزر چکے ہیں۔آج جن باتوں کو معالجین حرز جان بنائئے ہوئےہیں کل انہیں مضر اور نقصان دہ فہرست میں ڈال دیا جائے گا۔
معالجین کامحتاط رویہ
ایک طبیب کو کسی دوسرے طریق علاج کے بارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے محتاط انداز اختیار کرنا چاہئے۔جو حالات میدان عمل میں اترے ہوئے کے سامنے رونما ہوتے ہیں،اس سے دوسرے نابلد ہوتے ہیں۔جس کی مشکلات سے آگاہی نہیں اس پر تبصرہ کرنا مناسب بات نہیں ۔البتہ جس میدان میں تجربہ رکھتے ہیں آپ کا حق ہے کھل کر رائے کا اظہار کریں۔
طبیب کی خصوصیات
تعلیم و تعلم۔پڑھنا اور لکھنا طبیب کی خصوصیات میں سے ہونا چاہئے۔تاکہ معالجہ کے دوران جو تجربات ہوںانہیں قلمبند کیا جائے،جو نئے خیالات اورتجربات میسر آئیں انہیں لکھ لیں۔لکھنے کے لئے یہ موزوں وقت ہوتا ہے۔کیونکہ قدرتی طورپرجو قوت اظہار اس وقت موجود ہوتی ہے۔باوجود کوشش کے بعد میں مسیر نہیں آتی الفاظ جو تسلسل اس وقت موجود ہوتا بعدمیں وہ کوشش کے باوجود قائم نہیں ہوسکتا،
دوران تالیف و ترجمہ۔
راقم الحروف جب مطالعہ یا کسی کتاب لکھنے میں مشغول ہوتا ہے تو کچھ نئے اور اچھوتے مضامین اس قدر ہجوم کرجاتے ہیں اگر کوئی ایسا ذریعہ ہوکہ اس ابھار کو کاغذ پر منتقل کرسکوں تو یہ خیالات بہت کتب کی تصنیف کی شکلاختیار کرجائیں اس وقت بحث و دلائل کا انبار ہوتا ہے،کبھی تو ان خیالات سے اس قدر مغلوب ہوجاتا ہوں کہ لکھا جانے والا مضمون چھوڑنا پڑتا ہے ۔ جن مضامین کا خاکہ موٹے موٹے الفاظ میں لکھ لیتا ہوں تو بعد میں لکھتے وقت کچھ مدد مل جاتی ہے۔اگر کسی وجہ سے نہ لکھ سکوں تو بعد میں وہ مضامین ذہن سے نکل جاتے ہیں ،سوچنے پر بھی وہ کیفیت طاری نہیں ہوپاتی جو اس وقت قدرتی طورپر موجود تھی۔
دومصنف۔
مطالعہ کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے،جسے مطالعہ کا شوق پڑ جائے سمجھو وہ نشئی ہوگیا ۔جس طرح نشئی نشے کے بغیر بے چینی محسوس کرتا ہے۔اسی طرح مطالعہ کا عادی کتب بینی سےنشہ پورا کرتاہے۔یہ نشہ مجھے بچپن سے لگا ہوا ہے۔لیکن کچھ اساتذہ کرام کے توسط سے اس میں گہرائی پیدا ہوئی۔
ایک محمد زکریا رازی ہیں جن کی الحاوی الطب کی نو جلدیں اردو میں بھی موجود ہیں،طبی دنیا کو مرعوب کئے ہوئے ہے۔اس کتاب میں جس قدر موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے،بہت حیرت انگیز ہے۔مورخین لکھتے ہیں کہ الحاوی رازی صاحب کی یادداشتوں پر مبنی بیاض ہے۔یہی وجہ سے کہ اس میں کئی باتوں مین تکرار پایا جاتا ہے۔بعد والوں نے اسے ترتیب نو دیکر کتابی شکل میں مدون کیا۔خوش قسمتی سے یہ محفوظ رہ گئی اور ہم تک بحفاظت پہنچ گئی۔
دوسرے مصنف حکیم محمد یسین دنیا پوری مرحوم ہیں ،انہوں نے میرا مطب اول ،دوم۔اور طبی استفسارات کے نام سے جو مواد جمع کیا تھا ،وہ اطباء کے لئے مشعل راہ ہے۔یاد رکھئے کتاب لکھنا اور مواد کو تلاش کرکے جمع کرنا الگ سے فن ہے جس میں کتب بینی اور اور دیگر ذرائع و مشاہدات کی ضرورت پڑتی ہے۔،جب کہ معالج کے تجربہ کے وقت کسی بات کو تحریر کرنا الگ سے فن ہے۔
تجربہ کے وقت جو یکسوئی اور حاضر دماغی ہوتی ہے۔وہ بعد میں حاصل نہیں ہوسکتی،یہ کسی اور کی بات نہیں کررہا ہے میرے اپنے مشاہدات میں یہ بات آچکی ہے ۔قدرتی بات ہے جو الفاظ فی البدیہہ قلم کے ذریعہ سے کاغذ پر مرتسم کئے جاتے ہیں۔وہ بعد میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔بعد میں طبیعت بہت سے دیگر الفاظ و تجربات کی آمیزش کردیتی ہے۔وہ قدرتی نکھار باقی نہیں رہتا۔
فن طب ترقی پزیر ہے۔
حرام مغز اور نخاع کے موضوع پر بحث کرتے ہوہئے لکھتے ہیں:
تمام علوم و فنون کی طرح میدان طب میں بھی بدلائو آتا رہتاہے۔ ابن زہر لکھتے ہیں: طب ایک قیاسی اور استقرائی فن ہے، جب اس میں طبیب تحقیق کرتا ہے تو میں باریک نکات پر پہنچتا ہے اورمریض کے ساتھ کسی قسم کی غفلت اور زیادتی نہیں ہوتی ۔ طبیب بخوبی اس میں مہارت رکھتا ہو
اور اس کی عقل، علم پرحاوی ہو،ورنہ کبھی اس خلل کے نتیجہ میں اس مرض سے مریض ہلاک ہوجاتا ہے(کتاب التیسیر ص85)
۔حصول علم میں دشواریاں۔
طب جس قدر نافع اور ہمہ گیر مفید فن ہے اس کے حصول میںاسی قدر دشواریاں اور پریشانیاں آتی ہیں۔طب صرف چند نسخوں کے رٹنے کا نام نہیں ہے یہ تو ایک سمندر ہے،جو ہر آن و ہرلمحہ وسیع سے وسیع تر ہورہا ہے۔دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں ضرورت اورحاجت
کے پیش نظر تجربات جارہ رہتے ہیں۔جو لوگ اس فن سے لگائو رکھتے ہیں وہ بوند بوند جمع کرکے اپنا برتن بھر لیتے ہیں۔لیکن جو لوگ صاحب علم ہوتے ہیں ان کی وسعت نگاہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔
طب کے نام پر قائم ادارے طب سکھانے کے بجائے سند اور ڈپلومے کے اجراء اور اپنی فیسیوں کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔عملی طورپر طب میں سند کے لحاظ سے نسبت نہیں ہوتی۔یہ تو علمی فن ہے جو اس سے وابسطہ رہتا ہے،اس کے سامنے اسرار رموز کھلتے رہتے ہیں۔جو اس سے منہ موڑ جائیں ان کے لئے یہ فن سمٹنا شروع ہوجاتا ہے۔