The story of medicine
طب ۔کی کہانی
The story of medicine
قصة الطب
طب ۔کی کہانی
The story of medicine
قصة الطب
حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو۔
#Hakeem qari younas
#Hakeem ul meewat
انسان کے دور وحشت میں مریض اور موت کو کسی نہ کسی بدروح کی کار فرمائی سمجھ جا تھا۔ کئی اقوام اور قبائلی میں آج بھی وہم پرست لوگوں کا ہی عقیدہ ہے۔ بیمار پڑنے پر کسی ڈاکٹر سے رجوع لانے کے بجائے عامل یا سیانے کو بلاتے ہیں جو مرض کو رفع کرنے کے لئے جھاڑ پھونک کرتا ہے یا الائچی اور لونگ پر دم کر کے مریض کو کھلانے کی ہدایت کرتا ہے۔
طبی ارتقاء
مصر قدیم میں طب کا ارتقاء ہوا جب اسے جادو سے جدا کرنے کی ابتدائی کوششیں کی گئیں۔ وہاں بھی ایک مدت تک طلب مجادو بالمثل کی اصولوں پر نشونی پاتی رہی شاہ بادام کی شکل آنکھ کی ہوتی ہے اس لئے اس کاکھانا مقوی بصر ہے ، اخروٹ مغز کی شکل کا ہوتا ہے اس لئے مقوی دماغ ہے، پیاز کی صورت خصیتین سے ملتی جلتی ہے اس لئے مقوی باہ ہے ، سیب دل کے مشابہ ہے اس لئے مقوی قلب ہے ۔
مصر میں بیل اور بکرا غیر معمولی جنسی طاقت کے مالک سمجھے جاتے تھے اس لئے طبیب کمزور مرد کے لئے ان کے حصیتین کھانے کے لئے تجویز کرتے تھے۔
مصریوں کے طبی نظریات
مصریوں کے بارے میں قدماء کہا کرتے تھے کہ ان کی صحت نہایت عمدہ ہوتی ہے اور اس کا سبب یہ بلاتے تھے کہ مصری مہینے میں ایک بار حقنہ کرتے تھے یا جلاب لیا کرتے تھے ۔
مصری طبی روایات یونانی اطباء کے واسطے سے عربوں کی طب میں بھی بار پاگئیں اور آج بھی باقی ہیں۔ ہمارے یونانی اطباء بھی تقویت باہ کے لئے مردوں کو بکرے کے خصیتین کھانے کا مشورہ دیتے ہیں، بیرونی استعال میں کر کے لئے مقومی ضماد میں بول خر ملا کہ رگڑا جاتا ہے کیوں کہ گدھا بھی غیر معمولی قوت باہ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ طب کی طرح کیمیا گری کا آغاز بھی مصر قدیم ہی سے ہوا تھا کیمیا مصر قدیم ہی کا پرانا نام تھا۔ طب اور کیمیا گری کا چولی دامن کا ساتھ سمجھاجاتا تھا، کئی ذہین لوگ تانبے جیسی معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوشش میں اپنامال ومتاع اور عمر عزیز گنوا بیٹھے۔
کیمیا گری
ہندوستان میں کیمیاگری کو رسائن کا نام دیا گیا یعنی رس( سونا) بنانے کا علم ۔سونا بنانے کے سلسلے میں جو تجربات کئے گئے ان سے کشتہ سازی کے فن کو ترقی ہوئی۔سم الفارہ، شنگرف ، ہڑتال، پارے وغیرہ دھاتوں کو جڑی بوٹیوں کے پانی میں رگڑ کر کٹوری میں رکھتے اور پھر اسے سمپٹ(گل حکمت) کر کے پاچک دشتی کی آگ میں رکھ دیتے ہیں۔جس سے دھات کا کشتہ بن جاتاہے۔ ان کشتوں کو علاج امراض اور خاص طور سے اعادہ شباب وکایا کلپ کے لئے استعمال کرایا جاتا ہے۔ آیور ویدک اور طب یونانی دونوں میں کشتے کھلائے جاتے ہیں۔
یونان اور رومہ قدیم میں ہیپوکریٹیس (بقراط)، الکمین (لقمان) اور گیلے نس( جالینوس) نے طب کو باقاعدہ ایک سائنس بنانے کی کوشش کی ۔
بقراط کا اخلاط اربعہ کا نظریہ
بقراط نے چار مزاوں کا مشہور نظریہ پیش کیا۔ اس کا ادعا یہ تھا کہ ان مزاجوں کا خیال رکھے بغیر کسی مرض کا علاج ممکن نہیں ہو سکتا۔ بلغمی سوداوی ، دموی اور صفراوی مزاجوں کے اس نظریے کی حال ہی میں مشہور روسی عالم پاولوف نے تصدیق کی ہے اور تجربا سے اسے ثابت کیا ہے چنانچہ اب اس نظریے کو مسمات علمی کا درجہ حاصل ہوگیا ہے اور علمائے نفسیات بھی اس حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں۔
جالینوس نے تاریخ طب میں تشریح الاعضا کے لئے انسانی مردوں کی چیرپھاڑ کی طرف توجہ دلائی ،جب حکومت وقت نے اسے انسانی مردوں پر تجربات کرنے سے منع کر دیا تو وہ حیوانوں پر تجربات کرنے لگا جس سے علم جراحی کو فروغ حاصل ہوا۔
بنو عباس کے دور حکومت میں دوسرے علوم کے ساتھ یونانی ، سریانی اور سنسکرت سےطب اور جراحی کی کتابیں ترجمہ کی گئیں۔
ترجموں میں بخت یشوع ، اس کا بیٹا جبریل، یو نابن ماسویہ، اور ثابت بن قرہ صابی قابل ذکر ہیں۔
طبی تراجم
ترجمہ کے ساتھ طبع زاد تالیف کی گئیں اور ایک مستقل علم طب کی بنیاد رکھی گئی جسے بعد میں اسلامی طب یا یونانی طلب کے نام دیئے گئے مسلمان اطباء میں زکریا الرازی، بوعلی سینا، زہراوی اور ابن بیطار کے نام آج بھی احترام سے لئے جاتے ہیں۔
ابن بیطار کی جڑی بوٹیوں پر تحقیق نہایت قابل قدر ہے ان اطباء کی کتابیں صدیوں تک مغربی ملک کے نصاب تعلیم میں شامل رہیں ۔سندھ سے منکہ ،بہلا اورفلبر فل جسے معالج بنو عباس کے دربار میں باریاب ہوئے اور آیور ویدک اور طب یونانی کا امتزاج عمل میں آیا۔
میڈیکل سانس کی ترقی کے ساتھ یونانی طب زوال پذیر ہوگئی کیوں کہ اطباء مشاہدے اور تجربے سے دست کش ہوگئے اور علم تشریح الابدان کو پش پشت ڈل دیا ۔
پرانی شراب نئے لیبل
آج کل یونانی اطباء کی تحقیقات کا کمال یہ سمجھا جاتاہے کہ قرابا دین اور رموز اعظم جیسی پرانی کتابوں سے نسخے اخذ کر کے انہیں نئے نئے پرکشش نام دیئے جائیں اور پرانی شراب کو نئی بوتلوں میں بند کر کے سادہ لوح عوام سے پیسے بٹورے جائیں۔
ہمارے زبدۃ الحکماء” اورمسیح زمانہ قسم کے طبیبوں کے پاس ایک صندقچہ خاص ہوتا ہے جس میںمقوتی ،مبہی اور ممسک دوائیں رکھی جاتی ہیں اور گراں قیمت پر عیش پسند اگراہ اور روساء کے ہاتھ بیچی جاتی ہیں۔
ان کے تیر بہدف ، ہونے کے اشتہار بڑی ترغیب آور زبان میں دیئے جاتے ہیں۔
اطباء کے اشتہاروں سے شبہ ہوتا ہے کہ مردانہ کمزوی کا مرض وبا کی صورت میں ملک بھر میں پھیل گیا ہے، اور یہ مردانہ کمزوری، خاندانی حکماء کے لئے سونے کی کان بن گئی ہے ۔
نفسیاتی امراض
جسمانی عوارض کے ساتھ ساتھ ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کی روایت بھی یونان قدیم سے شروع ہوئی تھی ۔
افلاطون اور ارسطو نے وسواسی امراض کا ذکر کیا ہے۔ بو علی سینا عشق کو بھی مالیخولیا ہی کی ایک صورت سمجھتا ہے اور اس ضمن میں اس کی تشخیص اور علاج خاصے دلچسپ ہیں۔(بحوالہ۔رسوم اقوام 190)