پیٹ خالی رکھو ،بیماریاں نہ پالو۔
پیٹ خالی رکھو ،بیماریاں نہ پالو۔
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی @ﷺکاہنہ نولاہور پاکستان
مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 50 (3349) (تحفة الأشراف: 11575)، و مسند احمد (4/132) (صحیح)
یہ حدیث شریف ایک جرمن ہسپتال کی دیوار پر لکھی ہے،کاش!یہ دنیا کے ہر ہسپتال کی دیواروں پر لکھی جائے۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو ،اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والاقیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا“سنن ابن ماجہ/ الأطعمة 50 (3350، 3351) (تحفة الأشراف: 8563) (حسن)
صحابہ کرام فنا فی الرسول ﷺتھے انہیں اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں بات رسول ﷺ کو ناگوار ہے تو اس سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کش ہوجاتے تھے۔
موسیٰ نے عون بن ابی جحیفہ عن ابیہ کی حدیث روایت کی ہے اس نے بیان کیا : میں نے موٹے گوشت کے ساتھ ثرید بنا کر کھایا، پھر میں حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں ( معدہ بھر جانے کے سبب) ڈکار لے رہا تھا، تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا ” ابا جحیفہ ! اپنے ڈکار روک لے، کیونکہ دنیا میں اکثر لوگ پیٹ بھرے ہوتے ہیں قیامت کے دن ان کی بھوک طویل ہوجائے گی “ (کنز العمال، جلد 3، صفحہ 217، حدیث نمبر 6220 ) ۔ پس اس کے بعد ابو جحیفہ نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا یہاں تک کہ دنیا سے وصال فرمائے گئے، وہ جب صبح کا کھانا کھالیتے تھے تو شام کا نہ کھاتے تھے اور جب کہیں شام کا کھاتے تو پھر صبح کا کھانا نہ کھاتے تھے۔
قران کریم نے انسانی زندگی کے اصول متعین کئے ہیںبالخصوص کھانے پینے کا اصل مختصر و جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے بلاغت کی انتہاء کردی گئی ۔کھائو پئیو لیکن اسراف نہ کرو۔یعنی ممانعت نہیں کہ انسان کھانے پینے سے گریز کرے لیکن جتنی ضرورت ہو کھائے،کم کھائو زیادہ جئیو۔جب تک انسان صحت کے طبی اصولوں کو اپنائے رکھتا ہے اسے دوا دارو اور حکماء کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بسیار خوری عالمی وباء ہے ،پیٹ جتنا بڑھتا جاتاہے انسانی صلاحتیں اتنی کم ہوتی جاتی ہیں،موٹا انسان اپنے دانتوں سے قبر کھودتا ہے ،۔
روایت میں آیا ہے کہ ہارون رشید کے پاس ایک عیسائی طبیب حاذق تھا ایک روز اس نے علی بن حسن بن واقد سے کہا تمہاری کتاب میں علم طب کے متعلق کچھ نہیں ہے حالانکہ علم دو ہی ہیں بدن کا علم اور دین کا علم۔ علی نے جواب دیا اللہ نے ساری طب کو آدھی آیت میں جمع کردیا ہے۔ فرمایا ہے (وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ) طبیب بولا تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : کا کوئی قول طب کے متعلق نہیں آیا۔
علی (رض) نے کہا ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ساری طب کو چند الفاظ میں جمع کردیا ہے فرمایا ہے معدہ مرض کا گھر ہے پرہیز ہر علاج کا سر ہے ہر بدن کو وہی چیز دو جس کا تم نے اس کو عادی بنا دیا ہو طبیب بولا تمہاری کتاب اور تمہارے رسول نے تو جالینوس کے لئے طب چھوڑی ہی نہیں۔ تفسیر مظہری مترجم اردو صفحہ نمبر: 991
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا : اے بیٹے ! (ایک بار) پیٹ بھرنے کے اوپر مزید پیٹ بھر کر نہ کھاج، کیونکہ تیرا اسے کتے کے لیے ڈال دینا اس میں سے بہتر ہے کہ تو اسے کھائے۔ اور حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا : اس نے کیا کیا ؟ انہوں نے بتایا : اسے گزشتہ رات بدہضمی ہوگئی۔ آپ نے کہا : اسے بدہضمی ہوئی ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ آپ نے فرمایا : بلاشبہ اگر وہ مر جاتا تو میں اس پر نماز نہ پڑھتا۔
Pingback: چندطبی مشاہدات۔قسط3 - Dunya Ka ilm
Pingback: السعفہ(بالخورہ۔بالچر) - Dunya Ka ilm
Pingback: انسانی ذہن قدرت کاکرشمہ - Dunya Ka ilm