تحریم خمر (شراب) قران کریم کی روشنی میں
تحریم خمر (شراب) قران کریم کی روشنی میں
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی @ﷺکاہنہ نولاہور پاکستان
اگرچہ شراب میں کچھ لوگوں کا فائدہ ہے ‘ لیکن ان کا نقصان زیادہ ہے کیونکہ شراب کے نشہ سے عقل زائل ہوجاتی ہے اور انسان جھوٹ بولتا ہے اور گالم گلوچ کرتا ہے اور جوئے کے ذریعہ دوسروں کا ۔
امام ابن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : زید بن علی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خمر (شراب) کے متعلق تین آیتیں نازل کی ہیں ‘ ایک یہ آیت ہے (شراب پینے سے وقتی جوش اور ہیجان پیدا ہوتا ہے اور جوئے کے ذریعہ آسانی سے جیتی ہوئی رقم حاصل ہوجاتی ہے اور زمانہ جاہلیت میں یہ رقم غرباء پر خیرات کردی جاتی تھی ‘ ان فوائد کی بناء لوگوں نے آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اگرچہ ان میں کچھ فائدہ ہے لیکن ان کا نقصان زیادہ ہے)
تب لوگوں نے شراب پینے کے معمول کو جاری رکھا حتی کہ دو آدمیوں نے شراب پی کہ نماز پڑھی اور نماز میں بدکلامی کی ‘ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ماتقولون “۔ (النساء : ٤٣۔ ٤٢) ترجمہ : اے ایمان والو ! نشہ کی حالت میں تم نماز کے قریب نہ جاؤ حتی کہ تم یہ جان لو کہ تم کہ کہہ رہے ہو۔ پھر جو لوگ شراب پیتے تھے وہ نماز کے اوقات میں شراب سے اجتناب کرتے تھے ‘ حتی کہ ایک دن ابو القموس نے نشہ کی حالت میں مقتولین بدر کے نوحہ اور مرثیہ میں چند اشعار پڑھے جن میں مقتولین بدر کی تعظیم اور تکریم کی ‘ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ خبر پہنچی تو آپ غضب میں گھبرائے ہوئے چادر کو گھسٹیتے ہوئے آئے ۔
جب اس نے آپ کو دیکھا تو آپ نے اس کو مارنے کے کوئی چیز اٹھائی ‘ اس نے کہا : میں اللہ اور اس کے غضب سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ‘ بہ خدا ! میں اب کبھی شراب نہیں پیوں گا تب یہ آیت نازل ہوئی :(آیت) { يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [المائدة: 90] ترجمہ : اے ایمان والو ! خمر (شراب) جوا ‘ بتوں کے چڑھا ووں کی جگہ اور بتوں کے پاس فال نکالنے کے تیر محض ناپاک ہیں ‘ ان سے اجتناب کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
شیطان کا صرف یہ ارادہ ہے کہ وہ شراب اور جوئے کے سبب سے تمہارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردے ‘ اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے ‘ تو کیا تم باز آنے والے ہو ؟۔ حضرت عمر (رض) نے جب یہ آیت سنی تو کہا : ہم باز آئے ‘ ہم باز آئے۔ (جامع البیان ج ٢ ص ٢١١‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
عرب جاہلی کی روایات میں اس کی جو صورت بیان ہوئی ہے ، وہ یہ تھی کہ جب سرما کا موسم آتا، شمال کی ٹھنڈی ہوائیں چلتیں اور ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہوجاتی تو لوگ مختلف جگہوں پر اکٹھے ہوتے ، شراب کے جام لنڈھاتے اور سرورومستی کے عالم میں کسی کا اونٹ یا اونٹنی پکڑتے اور اسے ذبح کردیتے۔ پھر اس کا مالک جو کچھ اس کی قیمت مانگتا، اسے دے دیتے اور اس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ اس طرح کے موقعوں پر غربا و فقرا پہلے سے جمع ہوجاتے تھے اور ان جوا کھیلنے والوں میں سے ہر شخص جتنا گوشت جیتتا جاتا ، ان میں لٹاتا جاتا۔
عرب جاہلی میں یہ بڑی عزت کی چیز تھی اور جو لوگ اس قسم کی تقریبات منعقد کرتے یا ان میں شامل ہوتے ، وہ بڑے فیاض سمجھے جاتے تھے اور شاعر ان کے جودوکرم کی داستانیں اپنے قصیدوں میں بیان کرتے تھے۔ اس کے برعکس جو لوگ ان تقریبات سے الگ رہتے ، اُنھیں برم کہا جاتا جس کے معنی عربی زبان میں بخیل کے ہیں(تفسیر البیان)
شریعت اسلام نے شراب کے حرام کرنے میں اس تدریج سے اس لیے کام لیا کہ عمر بھر کی عادت خصوصاً نشہ کی عادت کو چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر انتہائی شاق اور گراں ہوتا علماء نے فرمایا فِطَامُ الْعَادَۃِ اَشَدُّ مِنْ فطَامِ الرَّضَاعَۃِ ” یعنی جیسے بچے کو ماں کا دودھ پینے کی عادت چھوڑ دینا بھاری معلوم ہوتا ہے انسان کو اپنی کسی عادت مستمرہ کو بدلنا اس سے زیادہ شدید اور سخت ہے “۔
اس لیے اسلام نے حکیمانہ اصول کے مطابق اول اس کی برائی ذہن نشین کرائی، پھر نمازوں کے اوقات میں ممنوع کیا، پھر ایک خاص مدت کے بعد قطعی طور پر حرام کردیا گیا۔ (نکات القران)
Pingback: ابو مروان عبد الملک ابن زہر۔کے چندطبی مشاہدات۔قسط3 - Dunya Ka ilm