عملیات اور توہمات کی دنیا
عملیات اور توہمات کی دنیا
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی @ﷺکاہنہ نولاہور پاکستان
دنیا میں کوئی میدان خالی نہیں ہوتا۔اسے بھرنا ہی ہوتا ہے حقیقی انداز اسے پر کرنا بہت محبت طلب اور دشوار کام ہے جب کہ غیر حقیقی انداز میں اسے کوئی بھی پر کرسکتا ہے ،جب تحقیق و تدقیق کی جگہ بے جا عقیدت اور حقائق کی جگہ مفروضات لے لیں تو وہاں جہالت کے سوا کسی کے لئے کونسی جگہ باقی رہ جاتی ہے؟کسی نےکیاخوب کہاہے”جہاںجہالت ہی اصل اعزازمانا جائے۔ وہاں حماقت ہی دانشمندی ہے”جہاں حقائق ہوتے ہیں توہمات وہاں سے کوچ کرجاتے ہیں ۔
آج جو لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں،بڑی بڑی باتیں کر تے ہیں اگر انہیں کوئی آفت آگھیرے تو ان کی دانائی و حکمت کافور ہوجاتی ہے ،یہ لوگ بھی توہمات کے رو میں بہتے چلے جاتے ہیں،حقیقت ہویا جہالت اسے پروان چڑھایا جاتا ہے،اسے اس طریقے سے سہارا دیا جاتا ہے کہ حقائق مسخ ہوکر رہ جاتے ہیں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب حقیقت اور جھوٹ میں تمیز باقی نہیں رہ جاتی۔زندگی کاکوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں توہمات کی آمیزش نہ ہو،بسااوقات توہمات حقائق سے فائق تر ہوجاتے ہیں،انہیں اس انداز میں پرکشش طریقے سے پیش کیا جاتا ہے کہ حقائق اپنی اہمیت کھودیتے ہیں ،یہ بدلائو اس قدر آہستہ ہوتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا کہ حقائق کی جگہ توہمات نے لے لی ہے۔
علاج و معالجہ کے سلسلہ میں جب ایسی صورت حال سامنے ہوکہ بیماری یا تکلیف کی کوئی خاص توجیح نہ کی جاسکتی ہو اس وقت توہمات کو آگے بڑھنے اور حقائق کی جگہ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اتفاقاََ اگر توہم نے اپنا کام کردیا اس کی بعد حقیقت کا واپس آنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ حقائق کو دلائل شواہد کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ توہم کو کسی حجت بازی کی ضرورت نہیں پڑتی۔
جہاں حقیقت ہو وہاں توہمات کی گنجائش ہوتی ہے لیکن جہاں توہمات کے فولادی پنجے گڑے ہوں وہاں حقائق کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔توہمات عقیدت کی صورت میں ہوں یامعاشی و معاشرتی ۔ نجی زندگی میں ہوںیااجتماعی زندگی میں۔توہمات آسانی سے گھس تو آتے ہیں لیکن انہیں نکالنا بہت ہی دشوار ہوتا ہے۔
جادو و جنات کے بارہ میں معلوم دنیا میں کوئی ایسا خطہ موجود نہیں جہاں توہمات نے انسانی ذہنوں کو نہ جکڑا ہو۔ان توہمات کی زد میں عوام ہی نہیں معالجین بھی آتے ہیں۔کیونکہ ہر آدمی دعویٰ کرتا ہے کہ بحیثیت معالج جو طریقہ شفاء اس کے پاس ہے دوسرے اس سے محروم ہیں ۔اسی طرح عقیدت مند بھی خوب مرچ مصالحہ لگا کر بات آگے بڑھاتے ہیں،جو باتیں کسی غیر عقیدت مند کے لئے توہمات ہوتی ہیں وہی باتیں عقیدت مند کے لئے عین حقائق ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہم ارد گرد کی دنیا سے ہمیشہ خوف ذدہ رہے ہیں،بیماریوں سے خوف ذدہ رہے ہیں اس کے غیر متوقع خطرات ہیں۔ہمیں اس قدر دہشت ذدہ رکھتے ہیں کہ ہم خوشی سے ہر اس شے کوقبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جو ہمیں اس دہشت سے بچائے،یا اسے کم کرنے کا وعدہ کرے۔ اللَّهمّ أرنا الحقّ حقًّا، وارزقنا اتّباعه، وأرنا الباطل باطلاً، وارزقنا اجتنابه۔ذخيرة العقبى في شرح المجتبى (40/ 200)
اسلام اور توہم پرستی
سیدالمرسلین نبی الرحمتﷺ نے توہم پرستی اور غیر حقیقی باتوں کی نفی فرمائی ہے۔شگون لینے سے منع فرمایا ہے۔دیگر اقوام کی طرح عربوں میں بھی بہت سے تواہم پائے جاتے تھے ۔
کتب احادیث و تواریخ میں جابجا اس قسم کے واقعات ملتے ہیں کہ وہ لوگ قدم قدم پر شگون لیا کرتے تھے۔کئی احادیث اس بارہ میں ملتی ہیں کہ بد شگونی کی شرعی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کتب معتبرہ میں موجود ہے کہ ’’بدشگونی ہوتی تو عورت،گھوڑے وغیرہ میں ہو تی (بخاری ) اسی طرح کی حدیث یہ بھی ہے ، حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ہامہ کچھ نہیں ہے، عدوی کچھ نہیں ہے، شگون لینا کچھ حثییت نہیں رکھتا اور اگر کسی چیز میںبدشگونی ہوتی توگھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی۔جامع الأحاديث (9/ 465)أخرجه الطيالسى (ص250 ، رقم 1821) ، والبخارى (3/1049 ، رقم 2703) لیکن اسلا م نے نفاست کو پسند فرمایا ،ناموزوں ناموں اور کلام کو بدلاہے۔ اچھے نام رکھنے، اچھی دعائیں دینے اورزبان سے اچھے کلمات ادا کرنے کی تلقین موجود ہے[مسلم ابو دائودالادب]
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا اور نہ بدشگونی کی کوئی حقیقت ہے البتہ فال یعنی اچھی بات اور عمدہ گفتگو مجھے پسند ہے۔
حسد ،کینہ، بغض دلوں میں کدورت سب سے منع کیا گیا ہے۔اسلام ایک سلامتی والاراستہ ہے، خیر خواہی اس کی بنیاد ہے۔تخریبی اعمال سے منع کیا گیا ہے، جو منفی سرگرمیوں میں حصہ لے اس سے برات اختیار فرمائی ہے، ایذاء رسانی ،برُی سوچ،تخریبی اعمال،سحر و جادو،کو ممنوع قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ راستے ہیں جہاں خیر کم توقع کیا جاسکتی ہے۔
اعلی جوہر ،خدمت انسانیت، احترامی جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ ہر اس فعل کی قدر افزائی موجود ہے جس میں دین و دنیا میں سے کسی انداز میں بھلائی موجودہے ،معمولی معمولی بھلے کام پر بڑے بڑے اجر کی نوید سنائی ہے، ہر کسی کو اس کی حیثیت کے مطابق درجہ دیاہے ، تمام خام خیالیوں کی نفی کرتے ہوئے صرف عمل اور کوشش کو سراہا گیاہے ۔ واشگاف الفاظ میں اعلان کردیا کہ کسی کو بھی اس کی محنت سے زیادہ مرتبہ نہیں دیا جاسکتا۔جتنا عمل کروگے انتا اجر پالوگے( سورہ النجم)۔
دنیا اور آخرت دونوں کو سعی اور عمل سے نتھی کردیاگیاہے ،اسلام کا لب لباب حضرت لاہوریؒ کی زبان سے یوں ادا ہوا’’رب کو عبادت سے۔رسول کو اطاعت سے ،مخلوق کو خدمت سے راضی کرلو‘‘ پورے اسلام پر عمل کرلوگے۔ان الفاظ کی سمندر سے زیادہ گہرائی ہے۔
Pingback: قوانین حمورابی، دنیائے تاریخ کی قدیم ترین دستاویزات - Dunya Ka ilm
Pingback: جادو اور عملیات میں غیر مانوس الفاظ و عبارات۔ - Dunya Ka ilm