صحت کس لئے؟
صحت کس لئے؟
از
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
قال العلامۃ البغدادی۔
حفظ الصحۃ من افضل المطالب۔۔فان بھا یحصل امر الدین والدنیا (التداوی بالبان الابل)صحت کی حفاظت بہترین مطالب(زندگی ہے)کیونکہ اس کی (برکت ) سےدین و دنیا میں کامیابی ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں انسانی تخلیق اپنی عبادت کے لئے کی ہے وما خلقت الجن والانس الالیعبدون
عبادت صحت مند روح اور تندرست جسم کے ساتھ ہی کی جاسکتی ہے یہ اصول ہمیں اس طرف راہنمائی کرتا ہے
کہ انسان خود صحت مند رہے اور ہر وہ طریقہ و ذرائع اختیار کرے جو صحت کو برقرار رکھے یا اس کی طرف راہنمائی کرے۔
عبادت کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں
(۱)قلب سلیم۔یکسو دل تاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پرروح کاارتکاز کیا جاسکے اگر جسم تندرست نہ ہوتو دل کا ارتکاز ہر گز نہیں ہو سکتا۔
(۲)جسم میں نشاط اور رغبت چستی تاکہ نماز اور عبادت اور علمی خدمات کے لئے ہر قسم کے سخت موسم اور بہترین اوقات میں جایا جاسکے،
نماز کے لئے مسجد میں بروقت حاضر ہوسکیں ۔ جہاد اور دیگر امور خیر میں جسم کی ناسازی یا کمزوری کا کوئی عذر رکاوٹ نہ بن سکے۔
حقوق العباد حقوق اہل خانہ اور اقرباء کی خدمت کے لئے ہمہ وقت مستعد رہے،رزق حلال کمانے کے لئے ہر وقت جسم مستعد وتوانا رہ سکے۔
مرد و عورت پر اللہ تعالیٰ نے جو معاشرتی و خانگی ذمہ داریاں عائد کی ہیں انہیں پورا کیا جاسکے۔
چاق و چوبند صحت سے بھرپور انسان ہر ایک کی توجہ کا مستحق ٹہرتاہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓکہتے ہیں رسول اللہﷺ جب کسی بیمار کی تیمار داری کے لئے تشریف لاتے
تو ان الفاظ میں دعا دیا کرتے تھے اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ فلَانا يَنْكَأْ لَكَ عَدُواً أوْ يَمْشِ لَكَ إِلَى الصَّلاةِ))(جنازۃ)
اے اللہ!تو اپنے بندے کو شفاء دیتاکہ تیرے دشمن کا مقابلہ کرے یا تیری رضا کی خاطر نماز کے لئے جائے
(ایک روایت ہے جنازہ کے ساتھ جائے) (ابوداؤد۔احمد ،ابن حبان الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير (1/ 92)
عبادت کے لئے صحت و عقل دونوں اہم ہیںاللہ تعالیٰ نے مضر صحت اور مضر عقل چیزوں کو حرام اور مثل خبیث قرار دیا ہے
اور مسلمانوں کو ان کا استعمال ممنوع قراردیا ہے۔
تندرستی سے ہی انسا ن عبادت کرسکتا ہے۔تندرستی سے ہی انسان معاشرتی تعلقات کو نباہ سکتا ہے
تندرستی ہی ایسی نعمت ہے جس سے حسن معاملا ت کرسکتا ہے اور تندرستی سے انسان زندگی کا حقیقی لطف اٹھا سکتا ہے۔
صحت و سقم کے بارہ میں مومن کے لئے بشارت و خوشخبری دی گئی ہے۔
حضرت صہیب (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا
مجھے تو مسلمانوں کے معاملات پر تعجب ہوتا ہے کہ اس کے معاملے میں سراسر خیر ہی خیر ہے اور یہ سعادت مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے
کہ گر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے جو کہ اس کے لیے سراسر خیر ہے
اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی سراسر خیر ہے، باب المؤمن أمره كله خير۔ صحيح مسلم (4/ 2295)
گر مفلسی نہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے۔
تندرستی کی کوئی قیمت نہیں ہے اللہ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا لیکن کچھ نعمتیں اس قدر اہم ہیں
جو اس زندگی کے ساتھ ساتھ قیامت میں بھی سوال و جواب کا سبب بنیں گی ان میں ایک تندرستی بھی ہے
۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’روز قیامت سب سے پہلے بندے سے عطاء کردہ نعمت کے متعلق سوال کیا جائے گا
اور کہا جائے گاکہ ہم نے تمہارے جسم کو تندرست نہیں بنایا تھا اور (ٹھنڈے)پانی سے تمہیں سیراب نہیں کیا تھا
(ترمذی کتاب التفسیر۔ابن حبان) اچھی صحت کے لئے ہر انسان کو فکر مند رہنا چاہئے اہل اسلام کے لئے کچھ زریں ہدایات موجود ہیں۔
سنن النسائی کی حدیث کا مطالعہ کیجئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم اللہ سے فضل و عافیت اور صحت مانگو‘‘نبی کریمﷺ کی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے
یہ کہا جاسکتا ہے کہ اچھی صحت کے لئے ہر انسان کو تمام تدابیر اختیارکرنی چاہئیں،لیکن احتیاط کے باوجود بیماری لاحق ہوجائے
تو پریشان نہ ہوں طب نبوی ﷺکا میدان عمل تمہارے سامنے ہے ،جہاں علاج و معالجہ کرکے
اللہ کی رحمت کے بل بوتے پر کھوئی ہوئی صحت کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔۔
اسلام نے صحت کے قیام اور امراض سے بچائو کے لئے خصوصی ہدیات دی ہیں۔
ہر اس چیز سے بچنے کی تاکید کی ہے جو صحت کے لئے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
انسانی صحت وہ مال ہے جس کی بنیاد پر زندگی کا سودا کیا جاتا ہے۔ایمان وہ طاقت ہے جس سے بحث علمیہ کے قوی نتائج حاصل ہوتے ہیں،
علم بغیر ایمان کے اندھے کی طرح چلنا ہے اور ایمان بغیر علم کے اندھے کی لاٹھی کا ٹٹولنا ہے‘‘یعنی ایمان علم کے اور علم بغیر ایمان کے ادھورے رہتے ہیں
اٹھ باند ھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے