کمبوڈ۔ٹائلٹ۔ٹشو پیپر اسلام اور جدید سائنس
کمبوڈ۔ٹائلٹ۔ٹشو پیپر اسلام اور جدید سائنس
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اللہ تعالیٰ نے عبادت کو دین اسلام کا جزو اعظم ٹھہرایا ہے اور عبادت کو ظاہر ی و باطنی ذرائع کےلیے حسن وجمال کا غازہ، تہذیب اخلاق وعادات اور اصلاح حالات کا وسیلہ قرار دیا ہے ،طہارت و پاکیزگی بھی عبادت کا اہم ترین حصہ ہے ۔ اس میں استنجاء کا طریقہ کار بہت اہم ہے ،جس کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے ۔
اسلام میں ” تُخْلِقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ” کا حکم ہے یعنی خود کو اللہ تعالیٰ جیسی اخلاقیات سے مزین کرو۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات برتر اور نہایت پاک ہے ۔ اس کی ذات ہر قسم کی برائی کی آلودگی سے پاک ہے ۔ا س کی صفات پاکیزہ اور محمود ہیں ۔وہ حمید ومجید ہے ۔ تو حکم ہے کہ اے مسلمانو! مخلوق ہوتے ہوئے تمہارے لیے جہاں تک ممکن ہے تم بھی اخلاقیات اور اوصاف الٰہیہ کو اپنی ذات میں راسخ کرو۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہو اکہ ایک حقیقی اور باعمل مسلمان کی زندگی ہر لحاظ سے پاک ،صاف اور برائی کے ہر جراثیم سے محفوظ ہوتی ہے ۔ وہ ہر قسم کی ظاہر ی وباطنی آلودگی سے پاک اور صاف ہوتا ہے ۔ہر مسلمان کے لیے حکم ہے کہ حلال کھائے ،حرام سے بچے ،اپنے خیالات کو پاک و صاف رکھے ،جسم ولباس کو پاک و صاف رکھے اور اپنے کلام وکردار کی صفائی پیش کرے کہ بات میں جھوٹ نہ بولے اور کردار کو صاف رکھے ۔گویا کہ یوںمحسوس ہوکہ ہر مسلمان مکمل طور پر ظاہری اور باطنی صفائی کا مجسمہ ہے۔
اسلامی تعلیمات وعبادات میں نماز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔نماز ادا کرنےکے لیے شرط ہے کہ آدمی کا جسم پاک وصاف ہو ، اس کا لباس صاف ستھرا ہو اور وہ باوضو ہو۔ نماز سے پہلے ہر قسم کی جسمانی طہارت ضروری ہے اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
(اَلطَّہُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ، (صحیح مسلم )یعنی ” طہارت ایمان کاحصہ ہے “۔
ایک اور جگہ فرمایا :اَلطَّہُوْرُ نِصْفُ الْاِیْمَان” (سنن ترمذی)یعنی ” طہارت نصف ایمان ہے “۔
اس سے واضح ہو ا کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے ایمان کے حصے کو ہر وقت اپنے پاس رکھنا چاہیے ۔یعنی اسے ہروقت پاکیزگی اپنانی چاہیے ۔اسلام نے ظاہری و باطنی طہارت کا ایسا سبق دیا کہ غیر مسلموں کے رہبرو رہنمابھی یہ بات ماننے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام جیسی تطہیر اور کوئی دین مذہب نہیں سکھاتا ۔چناچہ ڈاکٹر رابرٹ سمتھ” مشہورسرجن مسلمہ ماہر ِ سرجری لکھتا ہے :
ہم نے تطہیر کا عمل اسلام سے سیکھا ہے “
اسلام میں استنجاء کا طریقہ کار:
انسانی غذا۔غذایت و لطافت سے بھر پور ہوتی ہے۔جسمانی نظام اس سے اپنی ضرورت کا جوہر جذب کرکے جو جسم کی ضرورت سے زائد ہوتا ہے یا جسم کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی اسے جسم سے خارج کردیا جاتا ہے۔اس میں بے شمار کیمیاوی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔اور کئی قسم کے تغیرات رونما ہوتے ہیں۔فضلات سے معالجین امراض سے بھی پتہ لگاتے ہیں۔مریض کی جسمانی حالت اور اس کا اندرونی نظام کا پتہ چلاتے ہیں۔ایسی بات نہیں کہ فضلات میں غذایت باقی نہیں رہتی،بلکہ فضلات اس معنی میں فضلات ہیں کہ جسم کو ان کی ضرورت نہیں رہتی بہت سے جاندار ایسے ہیں جو اس فضلے کو بھی بطور غذا کھاجاتے ہیں۔
سب سے بڑی گندگی وہ ہے جو انسان کے جسم سے پاخانے اور پیشاب کی صورت میں خارج ہوتی ہے ۔ اسلام نے اس کے خروج کے بعد اچھی طرح استنجاء کرنے کا حکم دیا ۔ چناچہ حکم ہے کہ اگر انسان کو پیشاب یا پاخانہ کی حاجت ہے تو سب سے پہلے اس حاجتِ ضروریہ سے فارغ ہو جائے ،پھر طہارت یعنی استنجاء کرے ۔ پہلے اچھی طرح مٹی کے ڈھیلوں سے صفائی کرے اور پھر دوبارہ پانی سے اچھی طرح صفائی کرے یا پھر پانی پر ہی اکتفا کرے۔
صفائی کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کو استعمال کیا جائے ۔پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت نہ قبلہ کی طرف پیٹھ کی جائے اور نہ ہی منہ ، چاہے میدان ہو یا گھر۔ اگر کبھی بھول کر ایسا کر لیا تو یاد آنے پر فوراً رُ خ بدل لے ۔ پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت ننگے سر نہ جائے اور نہ ہی ہوا کے رُخ پیشاب کرے۔
پیشاب و پاخانہ کا بہتر طریقہ
پیشاب اور پاخانہ کو جاتے وقت مستحب ہےکہ باتھ روم میں داخل ہونے سے پہلے یہ دُعا پڑھے:
بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ” (متفق ٌ علیہ)
یعنی ” اللہ کے نام سے ،اے اللہ ! بے شک میں خبیث جنوں اور خبیث جننیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں”
پھر پاخانہ کرنے والابایاں پاؤں اندرر کھے ۔جب بیٹھنے کے قریب ہو تو کپڑا بدن سے ہٹائے اور ضرور ت سے زیادہ بدن نہ کھولے ۔پھر پاؤں کشادہ کرکے بائیں پاؤں پرزور دے کر بیٹھے اور خاموشی سے سرجھکائے فراغت حاصل کرے ۔ جب فارغ ہوجائے تومرد بائیں ہاتھ سے اپنے آلہ تناسل کو جڑ کی طرف سے سرے کی طرف سونتے تاکہ جو قطرے رُکے ہوں وہ نکل جائیں ۔پھر پانی ،ڈھیلوں یا پھر یکے بعد دیگرے ،دونوں سے طہارت حاصل کرے ۔یوں کہ پہلے تین ڈھیلوں سے طہارت کرے اور پھر پانی سے یا پھر فقط پانی سے ہی طہارت حاصل کرے۔
داہنے ہاتھ سے پانی بہائے اور بائیں ہاتھ سے دھوئے اور پانی کا لوٹا اورنچا نہ رکھے تاکہ چھینٹیں نہ پڑیں ۔ پہلے پیشاب کا مقام دھوئے ،پھر پاخانہ کا مقام ،پاخانہ کامقام دھوتے وقت سانس کا زور نیچے کو دے کر ڈھیلا رکھے اور پھر خوب اچھی طرح دھوئے ،یہاں تک کہ دھونےکے بعد ہاتھ میں بُو باقی نہ رہے ۔پھر کسی پاک کپڑے سے پونچھ لے اور اگر کپڑا نہ ہوتو باربار ہاتھ سے پونچھے کہ برائے نا م تری رہ جائے او ر اگر وسوسے کا غلبہ ہوتو رومالی پر پانی چھڑک لے۔ اس بات کا خیال رکھے کہ کھڑے ہونے سے پہلے بدن چھپالے ۔پھر تہبند درست کرلے اور باہر آجائے ۔ نکلتے وقت پہلے داہنا پاؤں باہر نکالے اور باہر نکل کر یہ دعا پڑھے : غُفْرَانَکَ (زاد المعاد)یعنی ” (اے اللہ ! ) میں تیری بخشش کا طلب گار ہوں “۔
استنجاء پانی یا ڈھیلوں سے یا پھریکے بعد دیگرے دونوں سے کرنا چاہیے ۔ہڈی او رگوبر وغیرہ سے استنجاء منع ہے کیونکہ اس کے بہت سے نقصانات ہیں جو عنقریب ان شاء اللہ بیان ہوں گے۔آج دنیا پھر سے انہیں طریقوں پر واپس آرہی ہے جس طریقے سے حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیں زندگی گزارنے کا حکم فرمایا اور جس طریقہ سے آپ ﷺ نے خود زندگی گزاری۔ استنجاء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے سائنسی و طبی چیدہ چیدہ فوائد پیش کیے جاتے ہیں۔
استنجاء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے سائنسی و طبی فوائد:
1: رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے بہت دور تشریف لے جاتے تھے ۔قضائے حاجت کے لیے چل کر دور جانا بہت زیادہ بہتر ہے ۔ سائنس اور طب کی رو سے چند حقائق ملاحظہ فرمائیں۔ اس وقت جدید سائنس زیادہ چلنے پر زور دے رہی ہے ،حتٰی کہ امریکہ کے بڑے بڑ ے ہسپتالوں میں یہ بات نمایاں لکھی ہوئی ہے :
پاؤں پہلے پیدا ہو یا پہیہ؟”
ظاہر ہے کہ پاؤں پہلے پیدا ہوا ، اس مقولے کا مقصد قوم کو زیادہ سے زیادہ پیدل چلنےکی دعوت دینا ہے ۔ بائیو کیمسٹری کے ایک ماہر نے نکتے کی بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں:
جب سے شہر پھیلنے لگے ہیں ،آبادی بڑھنے لگی ہے اورکھیت ختم ہونے لگے ہیں ، اس وقت سے اب تک امراض کی بہتات ہوگئی ہے کیونکہ جب سے دور چل کر قضائے حاجت کرنا چھوڑ دیا ہے اس وقت سے اب تک قبض ،گیس ،تبخیر اور جگر کے امراض بڑھ گئے ہیں “
چلنے سے آنتوں کی حرکات تیز ہوجاتی ہیں ،جس کی وجہ سے قضائے حاجت تسلی بخش ہوتی ہے ۔آج کیونکہ ہم بیت الخلا ء ہی میں پیشاب کر تے ہیں اور باہر چل کر نہیں جاتے ، اسی لیے آج حاجت غیر تسلی بخش ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیت الخلاء میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔
2: رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے کچی اور نرم زمین کا انتخاب فرماتے تھے ۔ اس میں بھی بہت زیادہ سائنسی فوائد ہیں ۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔ لیول پاول اپنی کتاب ” اُصول صحت” میں لکھتا ہے :
انسانیت کی بقا مٹی سے ہے اور فنا بھی مٹی ہے ۔جب سے مٹی پر قضائے حاجت چھوڑ کر ہم نے سخت زمین (فلش،کموڈ اور ڈبلیو سی وغیرہ) استعمال کرنا شروع کی ہے ، اس وقت سے اب تک مردوں میں جنسی کمزوری اور پتھری کا رجحان بڑھ گیا ہے اور اس کے اثرات پیشاب کے غدود پرپڑتے ہیں “۔
دراصل جب آدمی کے جسم سے فضلات نکلتے ہیں تو مٹی ان کے جراثیم اور تیزابی اثرات جذب کرلیتی ہے ۔ جبکہ فلش وغیرہ اس کیفیت سے عاری ہیں ۔ اس لیے وہ تیزابی اور جراثیمی اثرات دوبارہ ہمارے جسم پر براہ راست پڑتے ہیں اور جسم ِ انسانی صحت سے مرض کی طرف مائل ہونے لگتا ہے ۔ ایک اور ماہر طب لکھتےہیں:نرم اور بھربھری زمین ہر چیز کو جذب کرلیتی ہے ۔چونکہ پیشاب اور پاخانہ جراثیمی فضلہ ہے اس لیےایسی زمین چاہیے جو کہ اس کو جذب کرنےا ور اس کے چھینٹے اُ ڑ کر بدن اور کپڑوں پر پڑنے کوروکے”۔
کھلی فضاء اور ٹائلٹ
جبکہ یہ کیفیت فلش (ٹائلٹ)میں نہیں ہوتی ۔ وہاں بھی چھینٹوں کا احتمال رہتا ہے اور مزیدیہ کہ فضلے کو جذب کرنے کی صلاحیت اس میں نہیں ۔فلش میں پیشاب کرنے کی وجہ سے فضلے کے بخارات جذب نہیں ہوپاتے اور فضلے سے اُٹھنے والے یہ بخارات صحت کے لیے مضر ثابت ہوتے ہیں۔اس مغربی تہذیب نے ” کموڈ ” متعارف کرایا ہے کہ لوگ اس پر کرسی کی مانند بیٹھ جاتےہیں اور پاخانہ یا پیشاب کرتے ہیں ۔
کمو ڈکو استعمال میں لا کر آدمی اچھی طرح فراغت حاصل نہیں کرسکتا،کیونکہ یہ غیر فطری طریقہ ہے ۔ اسی کموڈ کی وجہ سے پاخانہ صحیح خارج بھی نہیں ہو پاتا کہ انتڑیوں میں پھنسا رہتا ہے نیز کموڈ کو استعمال کرنےکے بعد علیحدہ جگہ پر بیٹھ کر شرمگاہ کو دھونا پڑتا ہے ۔ ڈبلیو سی پر قضائے حاجت کرنے سے کئی ایک مہلک امراض لاحق اور کئی ایک نقائص انسانی جسم میں پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
ٹائیلٹ سے پیدا ہونےوالے امراض
ڈبلیو سی پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرنے سے اعصابی تناؤ اور کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے جس سے جسم انسانی ڈسٹرب ہونے کا غالب امکان ہے ۔
ڈبلیو سی (W.C) کی مدد سے پاخانہ کرنے کی وجہ سے حاجت بھی غیر تسلی بخش ہوتی ہے جو کہ انتہائی پیچیدہ بیماریوں کو جنم دیتی ہے جیسے قبض،تبخیر،معدے کی جلن،شرمگاہ کی خارش،شرمگاہ کی جلن ،گیس اور بواسیر وغیرہ۔
ڈبلیوسی پر قضائے حاجت کرنے کے لیے کرسی کی طرح بیٹھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پاخانے کا صحیح اور طبعی اخراج ممکن نہیں ہو پاتا اور فضلہ بڑی آنت میں اَ ٹک کر رہ جاتا ہے ۔ جو بے شمار بیماریوں کو جنم دیتا ہے ۔
ڈبلیوسی پر قضائے حاجت کے باوجود بعد میں پیشاب کے قطرے گرنے کا غالب امکان رہتا ہے اور قطرا ت گرنے سے خارش اور دوسری کئی متعدی امراض وجود میں آتی ہیں ۔
ڈبلیوسی کی مددسے قضائے حاجت کرنے سے آنتوں اور معدے پر زور نہیں پڑتا جس کی وجہ سے معدے اور آنتوں کے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں ۔جیسے معدے کی جلن ،بدہضمی اور معدے کا السر وغیرہ۔
یہ جدیدیت کی پہچان ڈبلیو سی وضع ِ جسم کی فطری کیفیت کے خلاف ہے ۔جب سنت کے مطابق قضائے حاجت کی جاتی ہے تو اس و قت دماغ پورے جسم کو ڈھیلے رہنے اور پاخانے کے مقام کو پاخانہ خارج کرنے کا حکم ارسال کرتا ہے ۔ لیکن ڈبلیو سی استعمال کرنے سے پورا جسم ڈھیلا نہیں ہو پاتا اور پاخانہ کا مقام بھی کسا رہتا ہے جس کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
قضائے حاجت کے طریقہ نبوی کے فوائد
پیغمبر اسلام ﷺ کے بتائے ہوئے طریقےنہایت مفید ہیں بلکہ کسی مذہب میں ان کی مثال نہیں ملتی ۔جب تک پیغمبر اسلام ﷺ والا طریقہِ طہارت نہ اپنایا جا ئے گا تو طہارت و استنجاء کا اصل مقصد پورا نہیں ہو گا۔ رسول اللہ ﷺنے کس قدر خوبی کے ساتھ انسان کو طہارت و پاکیزگی کا نظام عطا فرمایا کہ آج طبی ماہرین بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہیں کہ :
واقعی پیغمبر اسلام( ﷺ) والا نظام ِ طہارت بے مثل و بے مثال ہے اور رسول اللہ (ﷺ )کے بتائے اور اپنائے ہوئے طریقے نہایت مفید ہیں”
کمبوڈ اور فلش سسٹم کے نقصانات
بہر حال فلش سسٹم فطری انداز اور طریقےکے قریب تر ہے ۔ اسی لیے اس کے نقصانات کموڈ اور ڈبلیو سی سےبہت کم ہیں۔ لیکن جو فوائد کچی زمین اور نرم مٹی پر حاجت کرنے کے ہیں وہ یہاں میسر نہیں ہوسکتے ،چونکہ مٹی اور میدان ہر جگہ میسر نہیں اس لیے فلش بہرحال بہتر ہے ۔
3: رسول اللہ ﷺ پاؤں کشادہ کرکے اور بائیں پاؤں پر زور دے کر خاموشی سے سر جھکائے فراغت حاصل کرتےتھے ۔ اس طریقے میں بھی سائنسی و طبی فوائد ہیں ۔ ان میں چند ملاحظہ فرمائیں ۔فزیالوجی کے ایک سنئیر پروفیسر کہتےہیں :
میں مراکش میں تھا۔ایک یہودی ڈاکٹر کے پاس بخار کی دوائی کے لیے جانا پڑا ۔ ڈاکٹر کافی بوڑھا تھا۔جب میں نے اپنا نام لکھوایا تو وہ کہنے لگا:”کیا تم مسلمان ہو؟”
میں نے کہا : ” جی ہاں ! میں مسلمان ہوں “۔ یہودی ڈاکٹر کہنے لگا:اگر ایک طریقہ جو خود تمہارے نبی( ﷺ )کا ہے ،زندہ ہو جائے تو لوگ کئی امراض سے بچ جائیں “میں حیران ہوا اور میں نے پوچھا:
ڈاکٹر !وہ کو ن سا طریقہ ہے ؟”، یہودی ڈاکٹر نے کہا :
وہ قضائے حاجت کا طریقہ ہے ۔ اگر قضائے حاجت کےلیے اسلامی طریقے پر بیٹھا جائے تو اپنڈے سائٹس ، دائمی قبض،بواسیر اور گردو ں کے امراض پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ اگر مسلمان اپنے نبی کریم( ﷺ) والا طریقہ ِ حاجت اپنائیں گے تو وہ ان تمام بیماریوں سے بچ جائیں گے “
پروفیسر صاحب کہتےہیں :
‘ میں اپنے نبی کریم ﷺ کے اس طریقے سے واقف نہ تھا ۔مجھے افسوس ہوا کہ میں نے علمِ دین کو تھوڑا سا وقت بھی نہ دیا کہ اتنے اہم اور ضروری مسائل ہی سیکھ لیتا ۔ اس وقت مجھے اس طریقے سے شناسائی کا اشتیاق ہوا ۔ میں نے اس یہودی ڈاکٹر سے تو نہ پوچھا،ہا ں مراکش میں ہی ایک عالم ِ دین تھے ۔میں ان کے پاس حاضر ہوا اور ان سے طریقہ دریافت کیا ۔ جب انہوں نے مجھے وہ طریقہ بتایا اور سمجھایا تو میں نے فی الفور اس پر عمل شروع کردیا ۔ پہلے پہل تو مجھے کچھ دقت ہوئی لیکن اس کے فوائد جلد ہی میری سمجھ میں آگئے اور اس وقت سے اب تک میں حاجت کے لیے وہی طریقہ استعمال کرتا ہوں جو میرے نبی ﷺ نے تعلیم فرمایا تھا”
جدید سائنس کی تحقیق کا نچوڑ
میں تمہارے لیے مہربان باپ ہوں۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ، أُعَلِّمُكُمْ فَإِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَلَا يَسْتَدْبِرْهَا وَلَا يَسْتَطِبْ بِيَمِينِهِ، وَكَانَ يَأْمُرُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، وَيَنْهَى عَنِ الرَّوْثِ وَالرِّمَّةِ۔(رواہ ابوداؤد،کتاب الطھارة ،باب کراھیة استقبال القبلة:۸) ۔
میں تم لوگوں کے لیے باپ کے درجے میں ہوں ،جب تم میں سے کوئی استنجے کے لیے جائے ،تو چاہئے کہ وہ قبلے کی طرف نہ منہ کرے نہ پیٹھ، اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا نہ کرے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجے میں تین ڈھیلوں کے استعمال کا حکم دیتے تھے ،لید اور بوسیدہ ہڈیوں سے استنجاکرنے سے منع فرماتے تھے۔
آداب ِنبوی پر طنز اور اس کا حکیمانہ جواب
حضرت سلمان فارسیؓ سے چند مشرکین نے مذاق اورطنز کرتے ہوئے کہا
عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قِيلَ لَهُ: قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ: فَقَالَ: أَجَلْ «لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ، أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ۔(رواہ مسلم ،کتاب الطھارة ،باب الاستطابة:۲۶۲)
تمہارے نبی عجیب آدمی ہیں،وہ تمہیں استنجے کے آداب واحکام بھی سکھاتے ہیں یعنی انھوں نے تم کوبے وقوف سمجھ رکھاہے کہ معمولی معمولی باتیں بھی سکھاتے ہیں ،حضرت سلمان فارسیؓ نے نہایت حکیما نہ طریقہ اختیارکرتے ہوئے جواب دیا،ہاں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں( اس حدیث میں )استنجاکرنے کی چارضروری باتوں کی تعلیم دی ہے جہاں تک تمہاری عقلوں کی رسائی نہیں ہے
جدید سائنس حضور ﷺ کےاس قضائے حاجت کے طریقے پرمسلسل ریسرچ کر رہی ہے اور اب تو غیر مسلم سائنسدان بھی یہ کہتے ہیں :
صحت وزندگی کی بقا اور خوشحالی کے لیے پیغمبر اسلام (ﷺ )کے حاجت والے طریقے سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں ۔ پیغمبر اسلام (ﷺ) کے اس طریقے پر عمل کرنے سے گیس ،تبخیر،بدہضمی ،قبض او ر گردوں کے امراض واقعی کم ہوجاتے ہیں اور مستقل آپ (ﷺ) والا طریقہ اپنا کر اِن امراض کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے”
4: رسول اللہ ﷺ استنجاء کے لیے پہلے ڈھیلے استعمال فرماتے اور ڈھیلے طاق عدد میں استعمال فرماتے تھے۔ اس سنت مبارکہ میں بھی کئی سائنسی اور طبی فوائد ہیں ۔ ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:
جدید سائنس کی ریسرچ کے مطابق مٹی میں نوشادر اور اعلی درجےکے دافعِ تعفن اجزاء موجود ہیں ۔چونکہ پاخانہ اور پیشاب سارے کا سارا فضلہ ہوتا ہے اور جراثیموں سے لبریز ہوتا ہے اس لیے اس کا جلد ِ انسانی کولگنا انتہائی نقصان دہ ہے ۔ اگر اس کے کچھ اجزاء جلد پر چپک جائیں یا ہاتھ پر ر ہ جائیں تو بے شمار امراض کے پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔
ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں:
ڈھیلےکے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا تھا لیکن اب یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ مٹی کے تمام اجزاء جراثیموں کے قاتل ہیں۔ جب ڈھیلے کا استعمال ہوگا تو پوشیدہ اجزاء پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر چمٹے ہوئے تمام جراثیم مرجائیں گے ۔ بلکہ تحقیقات نے تو یہ بھی ثابت کردکھایا ہے کہ مٹی کا استعمال شرمگاہ کو کینسر سے بچاتا ہے ۔
میں نے ایسے مریضوں کو جن کی شرمگاہ پر زخم تھے اور خراش بھی پڑگئی تھی ،مستقل مٹی استعمال کرائی اور انہیں مٹی سے استنجاء کرنے کو کہا تو مریض حیرت انگیز طریقے سے صحت مند ہو گئے”الغرض میرا ، تمام محقق سائنسدانوں اور اطباء کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ مٹی سے بنا ہوا انسان پھر مٹی سے عافیت پائے گا۔چاہے دنیا کے تمام فارمولے استعما ل کرلے اس کو فقط پیغمبر اسلام ﷺ کے طریقوں ہی سے بیماریوں سے تحفظ ملے گا۔
گوبر ہڈی وغیرہ سے استنجا کیوں منع ہے۔
گوبر یا ہڈی کاغذ وغیرہ سے استنجا کرنے کی ممانعت میں بہت بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ان میںایک تو یہ بتائی گئی ہےکہ انسانوں کی استعمال شدہ ہڈی دیگر مخلوقات کے لئے بطور غذا کام آتی ہے۔صحیح حدیث میں ثابت ہے عبداللہ بن مسعودسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ‘لید اور ہڈی سے استنجاء مت کرو کیونکہ یہ تمہارے جنات بھائیوں کی خوراک ہے۔ ‘‘ترمذي (1\11) نسائي(1\16)المشكاة(1\42)-مشاہدہ ہے استعمال شدہ ہڈی کو کتے بلیاں دیگر جانور منہ مارتے ہیں۔کھانے کی اس میں کسی قدر بو اور ذائقہ باقی رہتا ہے۔اس حدیث کے ساتھ کھانے کے بعدہاتھ دھونے والی حدیث کی بھی پڑھ لی جائے۔۔کہ کھانے کے بعد ہاتھ دھولو اگر کوئی نقصان ہوا تو اسکا ذمہ دار وہ خود ہے۔
لید بالخصوص گھوڑے خچر وغیرہ کی بہت سے لوگ جو جگر ہے امراض میں مبتلاء ہیں کے لئے بہت خطرناک ہے،عمومی طورپر جب کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجائےتو اسے ٹیٹنس کے ٹیکےلگواتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گھوڑے کی لید میںایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیٹنس کا حملہ ہوسکتا ہے۔اگر جسم پر کہیں بالخصوص پاخانے کے مقام پر کوئی زخم یا خراش ہوئی تو اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔یہی حال یڈی کا ہے کہ اس کے منہ سے بچی ہوئی ہڈی میں مہلک قسم کے جراثیم ہوتے ہیں۔اس پر بہت لمبی ابحاث موجود ہیں۔اس وقت تو یہ باتیں پردہ اخفاء میں تھیں آج کی تحقیقات احکامات اسلامی کے اسراروں سے پردہ سرکارہی ہے
ٹائلٹ پیپر کا استعمال کے نقصانات
مٹی کےڈھیلے طاق عدد میں استعمال کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ساتھ میں یہ بھی ہدایات ہیں کہ گوبر یا ہڈی سےاستنجا نہ کریں۔
آج کل استنجاء اور طہارت کے لیے ٹشو پیپر یا پھر ٹائلٹ پیپر کا استعمال کیا جاتا ہے اور لوگ بڑے شوق سے اس کا استعمال کرتے ہیں ۔تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ ٹائلٹ پیپر سے اچھی طرح صفائی نہیں ہوتی ۔کچھ نہ کچھ گندگی جسم پرباقی رہ جاتی ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے ۔اگر غسل کی بھی حاجت ہوتو انسان ا
سی طرح ٹائلٹ پیپر سے باقی ماندہ گندگی کےساتھ ہی پانی میں بیٹھ جاتا ہے جس سے نہ صرف وبائی امراض بڑھتے ہیں بلکہ ٹب کا سارا پانی بھی پلید اور گندا ہو جاتا ہے جو کہ غسل کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پھر بھی انسان اس سے نہا لے تو اس کا سارے کا سار ا جسم ناپاک اور گند ا ہو جاتا ہے ۔ یہ مغربی تہذیب کا انسان کے حق میں نقصان ہے جو کسی بھی مسلمان کو ہرگز گوار ہ نہیں ہونا چاہیے ۔
ٹائلٹ پیپر میں کیمیلز کا بے دریغ استعمال
ٹائلٹ پیپر بنانے والی فیکٹری کے ایک ملازم سے ایک ڈاکٹر اور ماہر طب کی ملاقات ہوئی ۔انہوں نے اس ملازم سے پوچھا کہ کیا اس نرم و ملائم اور لطیف ٹائلٹ پیپر کی تیاری میں کوئی خطرناک کیمیکل استعمال ہوتا ہے ؟تو ملازم نے کہا کہ:ڈاکٹر صاحب ! اس کے بنانے میں بے شمار کیمیکل استعمال ہوتے ہیں ۔ بعض کیمیکل تو انتہائی مہلک ہیں جن سے جلد ی امراض ،ایگریما اور جلد میں رنگت کی تبدیلی کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں”۔
ترک استنجا کا نقصان
اس وقت تمام یورپ ٹائلٹ پیپر استعمال کررہا ہے ۔پچھلے دنوں اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا کہ اس وقت یورپ میں شرمگا ہ کے مہلک امراض خاص طور پر شرمگاہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کے سدِّباب کے لیے جب تحقیقی بورڈ بیٹھا تو اس بور ڈکی رپورٹ صرف دوچیزوں پر مشتمل تھی ۔ بورڑ کا کہنا ہے کہ یہ مہلک امراض اور شرمگاہ کا کینسر فضلے کی صٖفائی کے لیے ٹائلٹ پیپر کا استعمال کرنے اور پانی استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ۔ایک یورپین ڈاکٹر کینن ڈیوس ” نے پوری یورپی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :” اگر تم اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ غلاظت اور پاخانہ کے مقام کو پانی کی بجائے ٹائلٹ پیپر سے صاف کرتے رہے تو پھر تم بہت جلد شرمگاہ کا کینسر،بھگندریا فسچولہ،پھپھوند کے امراض اور جلد انفیکشن کے امراض کا شکار ہو جاؤ گے”
یورپ کا یہ تحفہ ہمارے لیے بہتر ہے یا نقصان دہ،فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔چونکہ یورپین استنجاء کے لیے صرف ٹائلٹ پیپر پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور پانی استعمال نہیں کرتے ،ا سی لیے ٹائلٹ پیپر ان کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے لیکن اگر ٹائلٹ پیپر کے استعما ل کے بعد پانی بھی استعمال کیا جائے تو اس کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہو جائیں۔
5: رسول اللہ ﷺ استنجاء کے لیے پہلے مٹی کے ڈھیلے اور پھر پانی استعمال فرماتے تھے ۔ خالی پانی سے بھی استنجاء کیا جاسکتا ہے ۔چناچہ حدیث اقدس میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
پانی سے استنجاء کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے “۔ (صحیح مسلم ۔ باب خصال الفظرۃ)
پانی کائنات کی عظیم نعمت ہے ۔یہ ہر غلاظت کو طہارت میں تبدیل کردیتا ہے ۔ اسلام نے نظام ِ طہارت کو اتنا واضح اور پاک بنا دیا ہے کہ اس کو مانے بغیر چارہ نہیں ۔ ہم کیا غیر مسلم سائنسدان اور اطباء بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔