زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ:
زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے قابل زکوۃ اشیاء کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے مجموعی لاگت نکال لیں اور پھر تمام لےے ہوئے قرضہ جات، ملازمین کی تنخواہیں، جملہ اقسام کے ٹیکسز اور بلز، واجب الادا کراےے، بیوی کا مہر، مکان یا سامان وغیرہ کی پیمنٹس، بی سی اگر مل چکی ہو تو اس کی بقیہ اقساط، ان کا سب کا مجموعہ رقم کی صورت میں نکالیں اور اس کو قابل زکوۃ اشیاء کی مجموعی لاگت سے منہا (مائنس) کردیں، جو رقم بچے وہ صافی رقم ہے اگر یہ صافی رقم ”نصاب زکوۃ” یعنی ساڑھے باون تولہ (612.36 گرام) چاندی کے برابر یا زائد ہو تو صافی رقم کو کیلکولیٹر پر 40 سے تقسیم کردیں جتنی رقم جواب میں آئے اسے زکوۃ کے طور پر ادا کردیں۔
١۔ ہر وہ چیزمال تجارت ہے جو بیچ کر نفع کمانے کی نیت سے خریدی گئی ہو اور یہ نیت ابھی تک برقرار ہو، خواہ اس چیز کو اسی شکل میں بیچنا ہو یا اس سے کچھ اور بنا کر، اگر چیز خریدی ہی نہیں گئی بلکہ وراثت یا ہبہ وغیرہ سے حاصل ہوئی ہے یا خریدی تو ہے لیکن بیچنے کی نیت سے نہیں اگر چہ اب بیچنے کی نیت کر لی ہو، یا بیچنے کی نیت سے خریدی تھی لیکن اب نیت بدل گئی تو ایسا مال مال تجارت نہیں کہلائے گا۔
٢۔ چاند کی جس تاریخ کو زکوۃ کے نصاب کے بقدر مال جمع ہوا مثلاً یکم محرم، اس تاریخ کو یاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ سال گزرنے کے بعد جب یہی تاریخ دوبارہ آئے گی تو آپ پر زکوۃ واجب ہوگی اور ہر سال اسی تاریخ کو زکوۃ واجب ہوا کرے گی۔ اکثر لوگوں کو یہ تاریخ یاد نہیں ہوتی اس لیے مجبوری کی وجہ سے وہ اپنے لیے ایسی تاریخ مقرر کر سکتے ہیں جس میں ان کے لیے حساب لگانا آسان ہو اور پھر ہر سال اسی تاریخ کو زکوۃ ادا کیا کریں البتہ احتیاطاً کچھ زیادہ ادا کردیں تاکہ کمی بیشی پوری ہوجائے۔
٣۔ زکوۃ واجب ہونے کے لےے سال کی پہلی اور آخری تاریخ کو صاحب نصاب ہونا ضروری ہے۔ سال کے بقیہ درمیانی عرصے میں نصاب پورا ہونا ضروری نہیں۔ اگر سال کے درمیانی عرصے میں نصاب کم زیادہ ہوتا رہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مثلاً: اگر کسی کے پاس پچھلے سال یکم محرم کو 23 ہزار روپے صافی رقم تھی اور اس سال یکم محرم کو بھی 23 ہزار روپے یا اس سے زائد صافی رقم ہوگی تو اس پر زکوۃ واجب ہے۔ سال کے بقیہ ایام میں 23 ہزار سے کم و بیش ہوتے رہے تو اس کو نہیں دیکھا جائے گا۔
٤۔ صاحب نصاب شخص کے پاس سال کی پہلی اور آخری تاریخ کو نصاب پورا ہواور درمیانی عرصے میں اضافی رقم آجائے اگرچہ آخری تاریخ سے ایک دن پہلے آئے تو اس اضافی رقم کی بھی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے اس اضافی رقم پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں۔ مثلاً: ایک شخص نے یکم محرم١٤٣٠ھ کو 50 ہزار روپے کی زکوۃ ادا کی تھی ،یکم محرم ١٤٣١ھ سے اگرایک دن پہلے مزید 30 ہزار روپے ملکیت میں آگئے تو یکم محرم١٤٣١ھ کو 80 ہزار روپے کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔ 30 ہزار روپے پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں۔
٥۔ دکان وغیرہ کے سارے اسٹاک پر زکوۃ واجب ہے۔ البتہ زکوۃ کس قیمت فروخت کے اعتبار سے دی جائے گی؟ اس میں تین باتیں جائز ہیں:
ا ۔ ریٹیئل پرائس(عام گاہک کو جس قیمت پر چیز فروخت کی جاتی ہے اس) کے اعتبار سے قیمت لگائی جائے۔
ب۔ ہول سیل پرائس کے اعتبار سے قیمت لگائی جائے۔
ج۔ دکان کے سارے اسٹاک کو اکٹھا فروخت کرنے کی صورت میں ملنے والی قیمت لگائی جائے۔
٦۔ جس تاریخ کو زکوۃواجب ہو اس دن کی مالیت کے اعتبار سے زکوۃ کا حساب کیا جائے گا جس دن اشیاء زکوۃ ملکیت میں آئی ہوں اس کے اعتبار سے نہیں۔ مثلاً: تجارت کی نیت سے پلاٹ چار سال پہلے 20 لاکھ میں خریدا تھا تو زکوۃ 20 لاکھ روپے کے اعتبار سے نہیں بلکہ آج پلاٹ کا جو مارکیٹ ریٹ ہوگا اس کے اعتبار سے زکوۃ واجب ہوگی۔
٧۔ زکوۃ کا نصاب اگر نقد رقم یادکان کے اسٹاک وغیرہ کی وجہ سے بنا ہو تو ان کی زکوۃرقم اور اسٹاک کی اس قیمت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی جو زکوۃ واجب ہونے کی تاریخ کو تھی۔ جس دن زکوۃ ادا کی جارہی ہے اس دن کی قیمت سے نہیں اور اگر زکوۃ کا نصاب سونے چاندی یا ان کے زیورات سے بنا ہو تو ان کی زکوۃ پہلے کے برعکس ادائیگی زکوۃکے دن کی قیمت کے اعتبار سے دی جائے گی۔ جس تاریخ کو زکوۃ واجب ہوئی تھی اس تاریخ کی قیمت کے حساب سے نہیں۔ مثلاً : ایک شخص نے دس سال پہلے اپنے دکان کے اسٹاک کی زکوۃ ادا نہ کی تھی تو وہ اس سال اس کی زکوۃ دس سالہ پرانی قیمت کے اعتبار سے دے گا موجودہ قیمت کے اعتبار سے نہیں۔ لیکن کسی عورت نے دس سال پہلے 10 تولہ سونے کی زکوۃ ادا نہیں کی تھی تو وہ آج اس کی زکوۃ موجودہ وقت کے حساب سے دے گی۔ سونے کی دس سالہ پرانی قیمت کے حساب سے نہیں۔
٨۔ لیے ہوئے قرضوں کی دو قسمیں ہیں:۔
(الف) معمول کے قرضے جن کو انسان اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مجبوراً لیتا ہے۔ ان قرضوں پر زکوۃ نہیں۔
(ب) تجارتی قرضے جو کاروباری اغراض مثلاً فیکٹری لگانے یا مشینریاں خریدنے کے لےے لےے جاتے ہیں۔ ان کا حکم یہ ہے کہ اگر ان قرضوں سے قابل زکوۃ اشیاء خریدی گئی ہیں مثلاً خام مال وغیرہ تو ان پر زکوۃ نہیں لہٰذا نہیں مجموعے سے منہا کیا جائے گا کیونکہ اس خام مال کی زکوۃ ویسے بھی دیناہی ہوگی اور اگر غیر قابل زکوۃ اشیاء خریدی گئی ہیں مثلاً: مشینری، بلڈنگ وغیرہ تو ان قرضوں کی زکوۃدینی چاہیے۔
٩۔ بینک اور مالیاتی ادارے زکوۃ کی مد میں جو رقم کاٹتے ہیں اس سے زکوۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے اس لیے احتیاط اس میں ہے کہ ان میں رکھی رقم کی زکوۃ خود ادا کی جائے ۔
١٠۔ جن چیزوں کو کرائے پر دے کر نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ مثلاً: دکان، مکان، گاڑی، زمین وغیرہ۔ ان کا حکم یہ ہے کہ خود ان اشیاء پر زکوۃ نہیں بلکہ اس سے ملنے والی آمدنی زکوۃ واجب ہے۔
١١۔ سونے اور چاندی کے زیور اگر تجارت کے لےے ہوں تو نگینوں وغیرہ کی قیمت بھی قابل زکوۃ ہے اور اگر استعمال کے لیے ہیں تو نگینوں اور بناوٹ وغیرہ کی قیمت قابل زکوۃ نہیں۔
١٢۔ دوسروں کے ذمے آپ کے وہ قرضے جن کی وصولی کی امید نہ رہی ہوپر زکوۃ واجب نہیں۔
١٣۔ کمپنی کے شیئرزاگر مہنگا ہونے پر بیچنے (Capital Gain) کیلئے خریدے ہیں تو ان کی پوری بازاری قیمت (Market Value) پر زکوۃ واجب ہے اور اگر سالانہ منافع حاصل کرنے کے لےے رکھے ہوئے ہیں تو کمپنی کے کل اثاثوں میں قابل زکوۃ اثاثوں کی جو نسبت ہے، شیئرز کی مارکیٹ ویلیو کی اسی نسبت سے زکوۃ فرض ہے، لیکن احتیاطاً پوری مارکیٹ ویلیو لگا لینا مناسب ہے۔
زکوٰۃ کا مصرف
ہر وہ مسلمان جو سیّد ،علوی، عباسی،عثمانی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے (612.36گرام) چاندی یا اس کے مالیت کے بقدر سونا نقد رقم، مال تجارت اور روزمرہ کی استعمال سے زائد اشیاء نہ ہوں وہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کا مستحق ہے۔
مسئلہ: زکوۃ صدقہ الفطر کی رقم اپنے ”اصول” یعنی جن سے پیدا ہوا ہے، یعنی ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ اور ”فروع” یعنی اولاد، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ کو نہیں دی جا سکتی۔
مسئلہ:بیوی شوہر کو، شوہر بیوی کو نہیں دے سکتا۔
مسئلہ: زکوۃ و صدقہ الفطر کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکوۃ صدقہ کی نیت سے مستحق کو رقم وغیرہ کا مالک بنا دیا جائے۔ زبان سے کہنا ضروری نہیں۔ دل میں نیت کر لینا کافی ہے۔
مسئلہ:زکوۃ کا بہترین مصرف (اصول و فروع کے علاوہ )آپ کے مستحق رشتہ دار ہیں اس میں دہرا ثواب ہے صلہ رحمی کا اور ادائیگی زکوۃ کا دوسرے نمبر پر بہترین مصرف دینی مدارس ہیں اس میں بھی دگنا ثواب ہے اشاعت دین کا اور ادائیگی زکوۃ کا۔