علاج بالغذا۔کچھ اہم ہدایات برائے معالج و مریض
علاج بالغذا۔کچھ اہم ہدایات برائے معالج و مریض
از:مجدد الطب۔
ناقل :حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
اس ضمن میں مندرجہ ذیل امور کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
1۔جو غذا ہضم نہیں ہوتی وہ جسم پر بوجھ ہے۔ مزید غذا کھا کراس بوجھ میں اضافہ نہیں کرناچاہیے۔ اس وقت تک ہر قسم کی غذا خصوصاً نباتاتی اغذیہ روک دینی چاہئیں جب تک جسم میں ہلکا پن نہ ہو۔ یاد رکھیں جوغذا کھائی جاتی ہے اگر وہ ہضم ہو جائے تو خون بن جاتی ہے اوراگر وہ ہضم نہ ہوتو خمیر بن جاتی ہے۔ اس کا تعفن و تیزابیت اور زہر بوجھ کا باعث ہوکر مرض بن جاتے ہیں۔
2۔ علاج کے دوران علامات کو رفع کرنے کی کوشش نہ کریں۔کیونکہ اکثر انہی علامات کے تحت قوتِ مدبرہ بدن خود صحت کی طرف جا رہی ہوتی ہے۔اس کی مدد کرنا چاہیے، جلد شفا حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر علامات شدید ہوں تو ان کو رفع کرنا افضل ہے مگر مسکن عضو کو تحریک دینا ضروری ہے۔
3۔ علاج کے دوران سوزش و ورم، درد و بخارکی صورت میں ان کو رفع کرنے کی صورت میں مریض کمزور ہوجاتا ہے۔اس طرح مرض کا مقابلہ ختم ہوجاتا ہے۔کیونکہ درد اس امر کی علامت ہے کہ جائے درد میں خون کی کمی ہےاور طبیعت اس کو اس طرف کھینچنے کی کوشش کررہی ہے۔ سوزش و ورم میں خون اس طرف زیادہ جا رہاہے۔ بخار حرارتِ غریبہ کا نام ہے جس جسم کی حفاظت کے لئے تعفن اور دورانِ خون کی بے قاعدگی سے پیدا ہوگئی ہے۔یہ سب خود بخودامراض کی فطری طور پر رفع کرنا، قوت کا بحال رکھنا اور مقابلہ کرنے کی صورتیں ہیں۔ جب مرض رفع ہو جائے گا تو یہ سب علامات خود بخود رفع ہوجائیں گی ان کو فوراً ختم کرکے موت کو دعوت نہ دیں۔ ماڈرن طب میں یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔
4۔ علاج کے دوران بغیر شدیدبھوک اور صحیح وقت کے غذا نہ دینی چاہیے۔ لیکن اگر ضعف پیدا ہوگیا ہے تو بغر بھوک اور بغیر وقت غذادینا ضروری ہے۔ جب ضعف دور ہو جائے تو پھر غذا کو قابو کر لینا چاہیے لیکن ضعف کی حالت میں بھی مرض سے مناسب اور صحیح غذا دینی چاہیے۔
5۔ تشخیصِ مرض کے لئے علامات کو اکٹھا کرکے سب کا ایک ہی سبب تلاش کریں پھر مرض کی ماہیت اور حقیقت ذہن نشین کرلیں۔
علاج بالغزا کی صورت میں ستہ ضروریہ کے ساتھ مریض کے مزاج و عادات اور ماحول کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہےاگر ایسا نہ کیا جائے تو مریض کی طبیعت مفید سے مفید غذا کو قبول کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتی ، بلکہ نفرت کرتی ہے۔
7۔ اگر معدہ اور طبیعت غذاکا بوجھ قبول نہ کریں۔ محلول غذا تھوڑی تھوڑی مقدار میں دیں۔ جیسے شہد کا شربت، پھلوں کا رس، انڈوں کی سفیدی ، گوشت یا سبزیوں کا ہلکا شوربہ یا صرف نمک کا پانی استعمال کرنا مفید ہوتا ہے۔
8۔ غذائی علاج سے فوراً شفا حاصل ہوتی ہے۔ اگر تسلی بخش آرام حاصل نہ ہوتو پھر اپنی تشخیص مرض اور تجویزِ غذا پر غور کریں، ممکن ہے کہیں غلطی ہو گئی ہو۔ یاد رکھیں کہ بغیر تسلی بخش تشخیص ، مرض اور تجویزِ غذا کے ہرگز علاج شروع نہ کریں۔
9۔ علاج کے لئے اغذیہ پاک و صاف اور خالص و تازہ ہونی چاہئیں۔ غذا کاباسی پن اس کو خراب کردیتا ہے۔
10۔ جب تک کوئی مریض علاج کے لئے شدت سے خواہش مندنہ ہواس وقت تک اس کے لئے تشخیصِ مرض اور دوا تجویز نہ کریں۔ بعض معالج خواہ مخواہ امراء اور رؤسا پر اثر ڈالنے یا تعلقات پیدا کرنے کے لئے ایساکرتے ہیں۔ اس سے علم و فن ِ طب کو نقصان پہنچتا ہے۔ بلکہ غرباء اور عوام کا علاج بھی ان کے شدید اصرار کے بغیر نہ کریں کیونکہ بغیر ضرورت، علاج کا کوئی پابند نہیں ہوتا۔جو غیر مفید ہے۔
11۔ حکمت و دانائی ، اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ کوئی تجارت اور دکانداری نہیں ہے۔ حکیم کو کبھی لالچ کے تحت علاج نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو کسی مریض خصوصاً امیرورؤسا اور دولت مندو حاکم کے گھر جا کراس کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ صرف مطب علاج کے لئے بہتر جگہ ہے۔
12۔ معالج کے اخلاق اور عادات میں عظمت ہونی چاہیے۔ تقویٰ و توکل ، صبروقناعت اور خدمت وعزت کرنا اس کا زیور ہے۔اگر معالج ان زیورات سے آراستہ ہے تو نہ ہو تو وہ کندہ ناتراش ہے۔ بعض مریض مرنا قبول کر لیتے ہیں مگر ایسے معالج کے پاس تک جانا پسند نہیں کرتےر۔
13۔ معالج کے اخلاق اور عادات کے ساتھ اس کی صحت بھی اچھی ہونی چاہیے۔ اس کی خراب صحت کا مریض پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔
14۔ جب غذا سے مریض صحت کی طرف لوٹ آئے تو ضرورت کے مطابق مفید و مقوی اغذیہ و ادویہ کا استعما ل کیا جا سکتا ہے۔ جن سے اعضاء کے افعال میں زیادہ سے زیادہ تقویت پیداکرکے ان کے خون میں طاقت پیدا کی جاسکتی ہے۔
15۔ یاد رکھیں ادویات خون کے اجزاء نہیں ہیں۔ ان سے صرف اعضاء کے افعال میں تیزی و تسکین اور تقویت پیدا کی جاسکتی ہے۔ مکمل علاج صرف غذا سے ہی ہو سکتا ہے۔