طب نبویﷺ میں فالج کا تصور
طب نبویﷺ میں فالج کا تصور
تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
اللہ تعالیٰ نےجودین متین ہمیں دیا، اس کی تکمیل کا اعلان بھی خود ہی کردی، فرمادیا کہ یہ دین ہر طرح سے مکمل ہوچکا ہے،اس میں تمام ادیان کاجوہر موجود ہے،تمام فطری ضروریات کی کفالت کرتا ہے ،دین اسلام فطری دین ہونے کی وجہ سے انسان کی دینی ودنیاوی ضروریات کے لئے ہدایات موجود ہیںاس کا طرہ امتیاز ہے کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔صحت وتندرستی میں جو احکامات دئے گئے ہیں بیماری کی حالت میں ان میں تخفیف کردی گئی ہے۔ تندرستی کی حالت میں عبادت کی جو ترتیب بتائی گئی ہے بیماری کی حالت میں اس میں تخفیف موجود ہے۔
احادیث مبارکہ میں ایک حصہ ایسا بھی موجود ہے جسے اشراط الساعۃ کہا جاتا ہے یعنی قرب قیامت ظاہر ہونے والی علامات۔بہت سے موضوعات پر یہ پیش گوئیاں موجود ہیں اسی طرح امراض اور قرب قیامت رونما ہونے والے فتن و شرور سے متعلق بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک بیماری فالج بھی ہے۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اقتراب الساعة إذا كثر الفالج وموت الفجاءة»مصنف عبد الرزاق الصنعاني(3/597) ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(2/ 383)المجالسة وجواهر العلم (7/ 284)
قرب قیا مت لوگوں پر فالج کے بکثرت حملے ہونگے،ناگہانی اموات کی کثرت ہوگی ،فالج اور ناگہانی اموات اس قدر ہونے لگی ہیں کہ لوگ انہیں روزہ مرہ کی چیز سمجھنے لگے ہیں،جب کہ رسول اللہﷺ نے ناگہانی موت سے حفاظت کی دعائیں مانگی اور تعوذات میں اسے شامل فرمایا :قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مَنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ فِشُوَّ الْفَالِجِ وَمَوْتَ الْفَجَاءَةِ.۔الكامل في ضعفاء الرجال (3/ 108)
کوئی بھی چیز بغیر اسباب کے نہیں ہوتی ،عمومی طورپر جن باتوں کو اچانک و حادثاتی کہا جاتا ہے، وہ اچانک رونما نہیں ہوتیں بلکہ وہ کسی تسلسل کا حصہ ہوتی ہیں لیکن اسباب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں اس لئے لاعلمی کی وجہ سے اسے اچانک کہا جاتا ہے ۔
جب ہم سنتے ہیں کہ فلاں آدمی کو چانک دل کا دورہ پڑا ،بیٹھے بیٹھے فالج ہوگیا اچھا بھلاتھا دیکھتے ہی دیکھتےجان کی بازی ہار گیا۔در اصل یہ تمام باتیں اچانک نہیں ہوئیں بلکہ ایک تسلسل کا حصہ تھیں لیکن لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہم ان اسباب کو پہچان نہ سکے، یوں ناگہانی صورت سے دوچار ہوگئے۔
آئمہ محدثین کو اللہ اپنی جناب سے جزائے خیر دے جنہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں ،ان کا سلسلہ خیر ہم تک پہنچا۔کچھ لوگوں نے امراض و مصائب کا موضوع منتخب کرکے دعائیں اوراد،وظائف اور ادویات لکھیں ان میں محدث ابن سنی بھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں۔أخرج ابن السني وأبو نعيم عن أنس رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:يوشك أن يفشوالفالج في الناس حتى يتمنوا مكانه الطاعون – وقد مر أن من أسبابه شرب الخمر .حضرت انس رسول اللہﷺ سے روایت فرماتے ہیں عنقریب فالج کی کثرت ہوگی (اس لاچاری میں لوگ)تمنا کریں گے کہ فالج کی جگہ طاعون آجاتا تو خلاصی ہوجاتی اس کا سبب شراب(کی کثرت )ہوگی۔دوسری جگہ یوں وارد ہوا ہے۔
عن أنس بن مالك: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:ليفشون الفالج الناس حتى يظن أنه طاعون»۔مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 597)السنن الواردة في الفتن للداني (3/ 698) یعنی فالج کے اٹیک اس قدر زیادہ ہونے لگ جائیں گے کہ لوگ اسے طاعون کی طرح وباء سمجھنے لگیںگے۔
صداقت حدیث۔
اس وقت الکحل کا استعمال اس قدر بڑھ چکا ہے کہ معمولی معمولی اشیاء میں بھی الکحل کی آمیزش کی جانے لگی ہے۔میڈیکل ادویات میں تو جب تک نشہ استعمال نہ کیا جائے ان کی تکمیل ہی نہیں ہوتی۔سگریٹ نوشی۔دیگر نشہ آور عادات بہت رواج پکڑ چکی ہیں۔جو قوم اللہ کی حدود کی پامالی میں حصہ لے گی وہ فطرت سے ٹکرائے گی۔فطرت ایک سخت پتھر ہے جو بھی اس سے ٹکراتا ہے پاش پاش ہو جا تا ہے۔جس زندگی کو ہم اپنی زندگی کہتے ہیں وہ فطرت کے سخت قوانین کی محتاج ہے۔ایک پل بھی اس سے الگ نہیں ہوسکتی،دین اسلام اور پیغمبر اسلام انہیں قوانین کو سہل انداز میں گوش گزار فرماتے ہیں۔جو روگردانی کرتا ہے اسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔