طب نبوی ﷺکی آفاقیت
طب نبوی ﷺکی آفاقیت
تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
طب نبویﷺ جن خطوط پر استوار ہے وہ آفاقی قوانین ہیں،جو متفرق طور مختلف مقامات پربیان کئےگئے ہیں۔ کوئی بھی طب اس وقت حرکت میں آتی ہےجب آدمی صحت جیسی نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔مگر طب نبوی ﷺ کا امتیاز ہے یہ انسانی صحت کو ہر صورت میں برقرا رکھنے پر زور دیتی ہے یعنی صحت کو بہتر انداز میں قائم رکھنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کی ضرورت پر زور دیتی ہے.۔۔
طب نبویﷺ پر جو تحریری مواد موجودہے وہ کسی بھی طبی لٹریچر سے بڑھ کر مستند ہے۔جن لوگوں نے طب نبویﷺ کو اپنا میدان عمل قرار دیکر اس پر تحقیقات کیںانہوں نے قبل از مرض صحت کو برقرار رکھنے والے قوانین کو طب وقائی کے عنوان سے قلمبند کیا ہے۔
اردومیں طب نبوی پربہت کم کام ہواہے۔لےدیکر حجامہ وغیرہ کوطب نبوی ﷺ قرار دیکر اس سے کارباری ضرورت پوری کی جارہی ہے۔سب سے بڑا ماخذ امام ابن القیم الجوزیہ کی طب نبوی ﷺ جو کہ ان کی کتاب سیرۃ النبیﷺپر لکھی ہوئی کتاب “ذادالمعاد”کا ایک حصہ ہے کل سرمایہ ہے۔جب کہ زمانہ کے بدلائو کی وجہ سے بہت سی نئی ضروریات نے جنم لیا ہے ،بہت سے امراض متروک ہوچکے ہیں،ان گنت امراض نے جنم لے لیا ہے اس گہما گہمی کی دنیا میں ہر آن بدلائو جاری رہتا ہے ،اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اہل علم کی مستعد جماعت موجود ہونی چاہئے جو پیش آمدہ طبی مسائل کو حل کرسکے۔
طب نبوی ﷺ بھی دین کا ایک شعبہ ہے جس انداز میں دینی ضروریا ت پوری کرنے کےلئے جگہ جگہ دار الافتاء موجو ہیںاسی انداز میں طبی ضروریات کے لئے طب نبویﷺ پر قائم سنٹر موجود ہونے چاہیئں تاکہ اہل اسلام کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام کو بھی استفادہ کو پھر پور موقع فراہم کرسکیں ۔دین کی تکمیل تو اسی انداز میں ہوسکتی ہے کہ روحانی /دینی /مذہبی ضروریات کے ساتھ ہماری طبی ضروریات بھی علماء کے ہاتھوں پوری ہوں۔یہ کوئی تعلی یا تصنع نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہم نے دین کے بہت اہم اور ضروری پہلو کو پس پشت ڈال دیا ہے،اس غفلت پر عند اللہ و عند الناس ضرور پوچھ کی جائے گی۔
طب یا علاج و معالجہ کا تصور ذہنوں پر اس قسم کا مرتسم ہوچکا ہے کہ جسے چند اناپ شناپ نسخے آتے ہوںاسے طبیب کاخطاب دیدیاجاتاہے۔طب نسخہ جات کی معلومات کانام نہیں ہے بلکہ طب تواُن اصولوں کا نام ہے جن پر عمل پیرا ہوکر انسانی صحت کو قائم رکھتے ہوئے انسانی زندگی سے حقیقی طورپر لطف اندوز ہوسکتا ہے۔
جب سے دین اسلام مذہب میں تبدیل ہواہے الفاط کے تو وہی ہیں لیکن ان کے معانی و مفاہیم بدل گئے ہیں۔ہر کسی نے اپنے من پسند میدان عمل کو مکمل دین قرار دیدیا ہے اس خودساختہ دائرہ کو مکمل دین قرار دیکر دین کا نام دیدیاہے،جو بھی اس دائرہ خودساختہ سےباہرہوگاوہ راندہ درگاہ ہوگا ۔ کیونکہ جنت اور خدا کی رضا کو اسی دائرہ میںمقید کردیا ہے۔جنت و دوخ کے فیصلے اسی محدود ذہنیت کےساتھ کئے جائیں گے۔ہماری تربیت اسی انداز میں ہوئی اسی پر ہم نے نجات کو قیاس کیا جب کہ دنیا میں اس سے کہیں زیادہ وسعت موجود تھی۔