کھاروترشی اور نمک کے اثرات بالمفرداعضاء
کھاروترشی اور نمک کے اثرات بالمفرداعضاء
از:مجدد الطب
تحریر: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور
کھاروترشی اور نمک کے اثرات بالمفرداعضاء
1۔کھاری اشیاء جوجسم میں رطوبات وتری اور بلغم پیداکرتی ہیں۔ان کا اثرنسیج اعصابی پر ہوتاہے۔جس کامرکزدماغ ہے اور اس میں قارورہ مقدار میں زیادہ اوراس کارنگ سفیدیامائل نیلاہٹ ہوتاہے۔
2۔ترش اشیاء جوجسم میں خشکی اورجوش اور ریاح پیداکرتی ہیں ان کااثرنسیج عضلاتی پر ہوتاہے جس کامرکزدل ہے اس میں قارورہ مقدارمیں کم اوراس کارنگ سرخ یامائل زردی ہوتاہے۔
3۔نمکین اشیاء جوجسم میں حرارت وتیزی اورصفراء پیداکرتی ہیں ان کااثرنسیج قشری پر ہوتاہےجس کامرکز جگرہے اس میں قارورہ کارنگ زردیا زردسفیدی مائل ہوتاہے۔تین ہی حیاتی اعضاء ہیں اور یہی اعضائے رئیسہ ہیں۔ چوتھا مفردعضونسیج المعانی بنیادی عضو میں شریک ہے اس کوغذاحیاتی اعضاء سے ملتی ہے۔
مفرداعضاء کے تحت ذائقے
ہرمفردعضو(Tissue)کےلئےدودوذائقے ہیں۔اعصاب کے تحت ایک شیریں دوسرا کسیلا۔عضلات کے تحت ایک ترش دوسراتلخ۔غدد کے تحت ایک چرپرااور دوسرا نمکین۔گویا کل چھ ذائقے اورمزے ہیں۔ان کوایورویدک میں رس اورانگلش میں(Taste) ہتے ہیں۔دنیابھر کی کوئی غذادوا اورزہرایسا نہیں ہے جوان چھ ذائقوں اور مزوں سے باہرہو۔بس یہی تین افعال واثرات اورچھ ذائقے اور مزے خواص وفوائد غذائی علاج کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔
ضرورت غذا
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ انسان کی زندگی وقوت اور صحت کادارو مدارصرف کھانےپینے اورہواپرہے اور ان میں غذاکوبھی زبردست اہمیت حاصل ہے۔کیونکہ انسان بغیرغذاکے ہوا اورپانی پرکچھ عرصہ زندہ رہ سکتاہے لیکن بغیزغذااس کی طاقت روزبروز گھٹتی جاتی ہے اور صحت بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔یہاں تک کہ وہ انتہائی کمزور ہوکر مرجاتاہے۔اس سے ثابت ہواہے کہ زندگی کے ساتھ ساتھ صحت اورطاقت کاراز غذامیں پوشیدہ ہے کیونکہ اس غذا سے جوطاقت پیداہوتی ہےوہ اس قوت کابدل بنتی ہےجوروزانہ انسانی جسم اپنے احساسات وحرکات اور ہضم غذا پر خرچ کرتاہے۔گویا غذاکاسب سے بڑا کام بدل مایتحلل کوپوراکرناہے۔بعض لوگوں میں کثرتِ محنت کی وجہ سے زیادہ قوت خرچ ہوتی ہے اوران میں زیادہ تحلیل واقع ہوتی ہے۔ان میں بھی بعض دماغی محنت کرتے ہیں جس سے ان کے اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں جن کاتعلق دماغ سے ہے۔اور بعض محنت توکسی قسم کی نہیں کرتےمگرکثرتِ خوراک کے عادی ہوتے ہیں ان کے گردے اورغددکمزور ہوجاتے ہیں جن کاتعلق جگرسے ہوتاہےکیونکہ کثرتِ خوراک سے ان کے جگراورغددکوبہت محنت کرناپڑتی ہےاس لئے جس قسم کی جسم انسان محنت کرناپڑتی ہےاسی قسم کی کمزوری پیداہوجاتی ہے۔آخرکار انسان مرجاتاہے۔
اسی طر ح ہرعمر میں مختلف قسم کی غذاکی ضرورت ہوتی ہے۔اگر اس عمرمیں ویسی غذامیسرنہ ہوتوکمزوری واقع ہوکر صحت بگڑناشروع ہوجاتی ہے۔ مثلاً بچپن میں جب اس کےلئے نشوو ارتقاء کی ضرورت ہوتی ہے یہ زمانہ پیدائش سے اکیس تاپچیس سالوں تک ہوتا ہے۔بچوں کامزاج اعصابی ہوتاہے اس میں تری زیادہ ہوتی ہےجو اس کی گرمی پر غالب رہتی ہے۔یعنی ترگرم(اعصابی غدی)ہوتاہے۔جوانوں کا مزاج غدی ہوتاہے۔اس میں گرمی اورتری برابر ہوتی ہےیعنی گرم تر(غدی اعصابی)ہوتاہے۔بوڑھوں کامزاج عضلاتی ہوتاہےان میں خشکی غالب رہتی ہےیعنی خشک گرم(غدی عضلاتی)ہوتاہے۔جب بھی ان کے مزاجوں کے مطابق غذانہیں ملتی تو ان میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے اس کے اندر امراض پیداہوجاتے ہیں۔جب غذا کے مطابق میسرآجاتی ہے تومرض رفع ہوجاتاہے اسی طرح آب وہوا نفسیاتی وکیفیاتی اثرات کے تحت بھی غذامیں کمی بیشی ہوکرضعف اور مرض پیداہو جاتا ہے۔
جاننا چاہئے کہ جب بھی کسی قسم کی محنت کی جاتی ہے تو اس کا اثرخون کے ساتھ جسم انسان کے ان مفرداعضاء (انسجہ) پرپڑتاہے جن سے جسم انسانی مرکب ہےاسی محنت سے ایک طرف جسم میں خون اور اس کی طاقت خرچ ہوتی ہے اور دوسری جسم کے خلیات ، سیلزCells))میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔جن سے مفرداعضاء (انسجہ)بنتے ہیں۔یہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ خون حرارت ورطوبت اورریاح سے مرکب ہے۔ان کاپوراپوراامتزاج ہی اس کی صحیح معنوں میں طاقت ہے۔اسی طرح ہمارےمفردحیاتی اعضاء(انسجہ)بھی تین قسم کے ہیں۔اعصابی،عضلاتی اور غدی۔ان کے بھی صحیح معنوں میں افعال ہی ان کی قوت ہیں۔یہ بھی ہم واضح کرچکے ہیں کہ اعصاب کاتعلق رطوبت اوربلغم سے ہے۔غددکاتعلق حرارت اورصفراء سے ہے۔عضلات کاتعلق ریاح اورخون سے ہے۔اس لئے خون کی کمی اور کمزوری اور خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کےلئے ہمیں متوازن خوراک کی ضرورت ہے۔اگرکوئی مرض پیداہوجائے تو اس کےلئے مناسب غذاکی ضرورت ہے ۔یہ بات ہم واضح کرچکے ہیں کہ خون صرف غذاسے بنتاہے دواسے نہیں بنتا۔ اسی طرح مفرداعضاء (انسجہ) خون سے بنتے ہیں۔البتہ دوااور زہران کے افعال میں کمی بیشی اورتحلیل ضرورکرسکتے ہیں۔اس لئے زندگی وقوت اورصحت کادارومدارصرف غذاپرہے۔