امراض اور علامات کافرق
امراض اور علامات کافرق
از: مجدد الطب
پیش کردہ:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
علامت کی حقیقت
علامت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ مرض کی دلیل بن سکے یعنی علامات مرض کی طرف رہنمائی کرسکیں۔گویا مرض اورعلامات دومختلف حقیقتیں ہیں۔ علاج میں کامیابی کاراز یہ ہے کہ علاج مرض کاکیاجائے اور علامت کوکبھی مرض قرار نہ دیاجائے۔
اگرشیخ الرئیس کی تعریف ِمرض کوسامنے رکھاجائےتوعلامت اس پرصحیح صادق آتی ہے یعنی جسم انسان کےجومجریٰ اپنے افعال صحیح طورپرانجام نہیں دے رہے ہیں۔ان سے جسم انسان کی طرف جوصورتیں دلالت کرتی ہیں بس وہی علامات ہیں مثلاً نزلہ ہے جوبذاتِ خود ایک بڑی علامت ہے۔آنکھ،ناک،حلق کی سوزش ،دردسراوردردگلو،سردی یاگرمی اورتری یاخشکی کااحساس،قبض یااسہال،ہاضمہ کی خرابی یابھوک اورپیاس کی شدت،بدن کابہت زیادہ سردیا گرم ہونایابخارہوجانا،شدیدصورتوں میں ناک اورحلق کے اندرسوجن یا نکسیرکاآنا،پیشاب کی کمی یا زیادتی کاپیدا ہونا وغیرہ وغیرہ یہ سب علامتیں ہیں ان کوعلامتیں ہی رہناچاہئے۔کبھی بھی مرض کامقام نہیں دیناچاہئےاگریہی علامات تمام اس عضوکے ساتھ مخصوص کردی جائیں جس کے افعال میں یہ خرابی پیداہوئی ہیں توتشخیص مرض اورعلاج میں تمام خرابیاں دورہوجاتی ہیں اس کے ساتھ تشخیص آسان اورعلاج سہل ہوجاتاہے۔
امراض اور علامات کافرق
اس وقت دنیا میں جس قدرطریق ہائے علاج ہیں جن میں ایورویدک،طب یونانی،ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی شامل ہیں سب میں مرض اورعلامت کاصحیح فرق پیش نہیں کیاگیا۔ان سب میں اگرایک موقع پرایک حالت کومرض کہہ دیا ہے تودوسرے موقعہ پراس کوعلامت بنادیاہےمثلاًمطلق دردیادرد سریاکسی اورجسم کے درد کوایک وقت میں مرض کاعنوان دے دیاہے اوردوسری جگہ کسی مرض میں اسی درد کوکسی کی علامت قرار دے دیا ہے۔ طالب علم جب اس صورت کودیکھتاہے تو پریشان ہوجاتاہےکہ اس کومرض قراردے یا علامت کی صورت میں جگہ دے۔یہیں پربس نہیں بعض اوقات تو سر سے پاؤں تک مختلف اعضاءکے تحت مختلف صورتوں اورمختلف کیفیات میں یہی دردکبھی مرض اورکبھی علامت بناکرپیش کیاجاتا ہے۔پھرہردردکی ماہیت جدا،اصول علاج الگ اورعلاج کی صورتیں علیحدہ بیان کردی جاتی ہیں مثلاًسوزش وورم اوربخاروضعف میں پائی جاتی ہیں۔پھران کی اقسام میں جوکمی بیشی یامقام کے بدلنے سےپیداہوتے ہیں،اسی طرح ان کے فرق حادومزمن اور شرکی وغیرہ شرکی کے تحت بھی بیان کئے جاتے ہیں پھران کے ساتھ ہی علاج وادویات اوراغذیہ بد ل کرایک پریشانی پیداکردی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہےکہ علامت ہرجگہ علامت ہےجومرض کی رہنمائی کرتی ہے اور مرض مفرداعضاء کی خرابی کانام ہے۔
ہماری تحقیقات کانتیجہ
ہماری تحقیقات سے اول یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ امراض و علامات صرف انسانی جسم کی دومختلف صورتیں ہیں۔ علاج صرف امراض کاکرنا چاہئے علامات کانہیں کیونکہ امراض کے ختم ہونے کے بعد تمام علامات خودبخودرفع ہوجاتی ہیں۔دوسرے امراض خون میں خرابی (کیمیائی تغیرات)سے پیداہوتے ہیں اور خون غذاسے پیداہوتاہے ۔ خون میں جو خرابی ہوگی وہ غذاکی کمی بیشی کانتیجہ ہے۔ تیسرے کسی قسم کی دوایازہرجسم یاخون کاجزنہیں ہے۔تمام جسم صرف خون سے بنتاہے اورخون صرف غذاسے بنتاہے دوا اورزہراعضائے جسم میں داخل ہونے کے بعداپنے اثرات سے صرف اعضاء میں کمی بیشی اورتحلیل ایک عرصہ تک قائم رکھنے کے بعد جسم سے خارج ہوجاتے ہیں اوراپنی شدت سےموت کاباعث بن جاتے ہیں۔ چوتھے اغذیہ ادویہ اور زہرتینوں صرف مفرداعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن خون کی تکمیل صرف غذاسے ہوتی ہےاوراس کادائمی اثر (کیمیائی)اعضاء کے افعال پرقائم رہتاہے۔پانچواں مستقل اورمکمل علاج صرف غذاسے ہوسکتاہے۔دوااورزہرسے صرف عارضی علاج ہوتاہے۔چھٹے دوااورزہرکے علاج سے صرف خون کی کمی بیشی اورخرابی وکمزوری پوری نہیں ہوسکتی اس لئے اس سے عارضی علاج ہوتاہے۔ ساتواں جسم میں جہاں کہیں مرض ہوتاہےوہاں کے اعضاء اپنی ضرورت کےلئےغذاکوطلب کرتے ہیں جوغذاہی سے پوری ہوتی ہے دواسے نہیں ہوسکتی۔
خواص الاغذیہ بہ نظریہ مفرداعضاء
تمام امراض چونکہ مفرداعضاءکی خرابی(کمی بیشی اورتحیل)سے پیداہوتے ہیں جیسا کہ گذشتہ تحقیقات سے ثابت ہو چکاہے۔اس لئے ہرقسم کی اغذیہ بلکہ دویہ اور زہروں وغیرہ کے اثرات بھی صرف انہی مفرداعضاء پرعمل میں آتے ہیں۔اغذیہ توہضم ہوکرخون بن جاتی ہیں لیکن ادویہ اورزہرتواپنے اثرات کے بعدخارج ہوتے یااپنی شدت سے موت کاباعث بن جاتے ہیں۔انسجہ یعنی مفرداعضاء چونکہ چاراقسام کے ثابت ہوچکے ہیں اس لئے اغذیہ بلکہ ادویہ اورزہربھی اپنے اندرصرف چاراقسام کے اثرات رکھتے ہیں جوانہی انسجہ(مفرداعضاء)پراثرانداز ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چارانسجہ کے علاوہ کوئی نسیج ہی نہیں ہے۔ غذاودوا اورزہرکس پراثرکرسکتےہیں۔ایورویدک نے تین دوش وات، پت،کف اورچوتھے رکت(خون)کوتسلیم کیاہےاورطب یونانی نے چاراخلاط خون،بلغم، صفرا اور سوداتسلیم کئے ہیں۔گویا ایورویدک اورطب یونانی بھی ہرغذاودوا اورزہر کے ماڈرن سائنس کی طرح چارہی قسم کے خواص اوراثرات تسلیم کرتی ہیں جن سے ان چارقسم کے انسجہ(مفرداعضاء)کی غذابنتی ہے۔
جیساکہ ہم اپنے رسائل میں انسجہ اوراخلاط کی تخلیق میں ثابت کرچکے ہیں اورماڈرن سائنس نے خون کے اندر جو پندرہ سولہ اجزاءء پیش کئے ہیں وہ بھی انہی چارانسجہ کی غذابنتے ہیں۔اگرغورسے دیکھاجائے تو ایورویدک کے دوش و رکت اوراخلاط بھی انہی خون کے اثرات سے مرکب ہیں۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ ایورویدک اور طب یونانی کی تحقیقات ماڈرن سائنس اور فرنگی طب سے کہیں زیادہ صحیح اور کامیاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔