فرہنگِ آصفیہ چار حصوں میں یکجا
فرہنگِ آصفیہ اردو کی معروف ترین اور پہلی باقاعدہ مکمل لغت ہے۔ اس سے پہلے اردو – فارسی اور اردو – انگریزی لغات شائع ہو چکی تھیں، جب کہ اردو محاورات کے چند مجموعے بھی چھپ چکے تھے، جن میں منشی چرن جی کی مخزن المحاورات، امتیاز علی بیگ کی مخزنِ فوائد اور خود مولوی سید احمد دہلوی کی مصطلحاتِ اردو وغیرہ شامل ہیں لیکن باقاعدہ اور مکمل اردو سے اردو لغت کا وجود نہیں تھا۔
فرہنگِ آصفیہ کے مولف مولوی سید احمد دہلوی 1844ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ نوجوانی میں انھیں سات برس تک ایک انگریز مستشرق ڈاکٹر فیلن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اردو انگریزی لغت مرتب کر رہے تھے۔ یہیں سے مولوی صاحب کو جدید لغت نگاری کے اصولوں کے تحت اپنی لغت مرتب کرنے کا خیال آیا۔
1878 میں انھوں نے ارمغانِ دہلی کے نام سے رسالے کی شکل میں لغت طبع کرنے کا آغاز کیا۔ بعد میں نظام دکن محبوب علی خان کی سرپرستی میسر آگئی تو انھوں نے اس لغت کو نظام دکن کے لقب آصف کی نسبت سے فرہنگِ آصفیہ کے نام سے چھاپنا شروع کیا۔
فرہنگِ آصفیہ صرف لغت ہی نہیں ہے بلکہ سید احمد دہلوی نے بعض اندارجات کے تحت بے حد تفصیل سے انسائیکلوپیڈیا کے انداز میں معلومات فراہم کی ہیں۔ مثال کے طور اولیائے ہند کے تحت 43 مختلف صوفیا کے تفصیلی حالاتِ زندگی درج ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لغت انیسویں صدی کی گنگا جمنی تہذیب کا مرقع ہے جس میں اُس دور کے رسم و رواج، ملبوسات، شعری، ادبی و علمی اصطلاحات، زیوارت، خوراک و مشروبات، نشست و برخاست وغیرہ سے متعلق الفاظ کا ایسا ذخیرہ ملتا ہے جو کہیں اور دستیاب نہیں۔
اس عظیم الشان لغت کی پہلی دو جلدیں 1888ء میں، تیسری جلد 1898 میں، جب کہ چوتھی اور آخری جلد 1902ء میں شائع ہوئی۔
اس کے بعد انڈیا اور پاکستان میں اس لغت کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے لیکن حیرت انگیز طور پر انھیں ہوبہو چھاپ دیا گیا اور اصل لغت کے آخر میں جو اغلاط نامہ دیا گیا تھا، وہ بھی ہر بار جوں کا توں شائع کیا جاتا رہا۔
اس کا ایک جدید کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے۔