بار بار پيشاب آنے کي صورت ميں کيا کيا جائے؟
بار بار پيشاب آنے کي صورت ميں کيا کيا جائے؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ایک فقہی مسئلہ کا شرعی/طبی جواب
پیش کردہ:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
سوال :
ہمارے ايک عزيز بہت بيمار رہتے ہيں ۔ پچاسي(85) برس عمر ہے ۔ پنج وقتہ نمازي ہيں ۔ ان کو پيشاب بہت آتا ہے ۔ رات ميں کبھي کبھي بستر پر بھي ہو جاتا ہے ۔ سب کے مشورے سے وہ رات ميں پيمپر باندھ ليتے ہيں ۔ دن کے اوقات ميں بار بار پيشاب کرنے باتھ روم جاتے ہيں ، جو گھر سے تھوڑي دور پر ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پيمپر باندھ ليں تو کہتے ہيں کہ نماز کيسے پڑھوں گا؟
براہ کرم رہ نمائي فرمائیں ، اس صورت ميں کيا کيا جائے؟
جواب :
نماز کي شرائط ميں سے ہے کہ نمازکي جگہ اور نمازي کا جسم اور کپڑے پاک ہوں اور وہ با وضو ہو ۔البتہ اگر اس معاملے ميں کوئي عذر ہو تو بہ قدر عذر گنجائش ہوگي ۔ اللہ تعاليٰ کا ارشاد ہے:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلّاَ وُسْعَھَا (البقرة: 285)
’’اللہ تعاليٰ کسي پر اس کي طاقت سے بڑھ کر ذمے داري کا بوجھ نہيں ڈالتا ۔‘‘
اور جن چيزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان ميں سے پيشاب ، پاخانہ اور رياح خارج ہونا بھي ہے ۔
اگر کسي شخص کو مرض يا بڑھاپے کي وجہ سے پيشاب روکنے پر قدرت نہ ہو تو اس کيفيت کو’سلس البول’ کہا جاتا ہے ۔
اس کي ايک صورت يہ ہو سکتي ہے کہ پيشاب کے قطرے مسلسل ٹپکتے ہوں ۔ جتني دير ميں ايک فرض نماز پڑھي جا سکتي ہو اتني دير بھي قطروں کا ٹپکنا بند نہ ہوتا ہو ۔ ايسے شخص کے ليے حکم يہ ہے کہ وہ ہرفرض نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرلے ، پھر اس وضو سے جتني چاہے فرض يا نفل نمازيں پڑھے اور قرآن مجيد کي تلاوت کرے ۔ جب تک اس نماز کا وقت رہے گا وہ باوضو سمجھا جائے گا ۔ البتہ دوسري نماز کا وقت شروع ہونے پر اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا ۔
اسے‘استحاضہ ’( ايّامِ حيض کے علاوہ خون آنا)کے مسئلے پر قياس کيا گيا ہے ، جس کا ذکر حديث ميں موجود ہے ۔ حضرت عروہ بن زبيرؒ حضرت عائشہؓ سے روايت کرتے ہيں : ايک خاتون نے اللہ کے رسولﷺ کي خدمت ميں حاضر ہوکر سوال کيا : مجھے استحاضہ کا خون مسلسل آتا ہے ۔ پھر کيا ميں نما ز چھوڑ دوں؟ آپ نے جواب ديا : ” نہيں يہ تو کسي رگ کا خون ہے ، حيض کا نہيں ہے ۔ جب حيض آنے لگے تب نماز چھوڑو اور جب حيض ختم ہوجائے تو خون دھونے اور غسل کرنے کے بعد نماز پڑھا کرو۔” عروہ نے مزيدبيان کيا : “پھر ہر نماز کے ليے وضو کر ليا کرو ، يہاں تک کہ ايامِ حيض آجائيں ۔” ( بخاري : 228 ، مسلم : 334)
اسي پر قياس کرتے ہوئے يہی حکم ان لوگوں کے ليے بيان کيا گيا ہے جن کو مسلسل پيشاب آنے يا رياح نکلنے کا مرض ہو ، يا ان کے زخموں سے مسلسل خون رِستا ہو ۔ابن قدامہؒ نے لکھا ہے :
” خلاصہ يہ کہ مستحاضہ عورت اور وہ شخص جسے مسلسل پيشاب يا مذي آنے کا مرض ہو يا وہ زخمي جس کے زخم سے مسلسل خون رِس رہا ہو ، ياان جيسے ديگر لوگ ، جس شخص سے کوئي ايسی چيز مسلسل خارج ہو رہي ہو جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہو اور اس کے ليے اپني طہارت باقي رکھنا ممکن نہ ہو ، وہ متاثرہ جگہ کو دھوئے گا ، اسے باندھ لے گا اور حتّيٰ الامکان کوشش کرے گا کہ گندگي باہر نہ نکلے ، پھر ہر نماز کے ليے وضو کرے گا ۔” ( المغنی)
اگر پيشاب کے قطرے مسلسل ، يہاں تک کہ دورانِ نماز بھي نکل رہے ہوں اور ان سے کپڑا(پاجامہ يا لنگي وغيرہ) آلودہ ہو رہا ہو توکپڑے کو دھونا ضروري نہيں ، اس کے ساتھ نماز پڑھي جا سکتي ہے ۔ ليکن اگر قطروں کا ٹپکنا مسلسل نہ ہو ، درميان ميں اتناوقفہ رہتا ہو کہ اس ميں نما زادا کي جا سکتي ہو تو کپڑے کو دھوکر ، يا دوسرا پاک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا ضروري ہے ۔
اگر کسي شخص کو پيشاب کرنے کے بعد کچھ دير تک قطرے آتے ہوں ( مسلسل نہ ٹپکتے ہوں) تو مناسب يہ ہے کہ وہ نيکر يا چڈّي استعمال کرے اور اس کے اندر ٹيشو پيپر ، روئي يا کپڑے کا ٹکڑا رکھ لے ۔ جب تک اس کے بيروني حصے پر پيشاب کي تري کا اثر ظاہر نہ ہو ، وضو ٹوٹنے کا حکم عائد نہ ہوگا
آج کل پيمپر کااستعمال بچوں اور بڑوں دونوں کے ليے عام ہوگيا ہے ۔ يہ چڈّي کي طرح کا ايک زير جامہ لباس ہے ، جسے پہنا ديا جاتا ہے تو پيشاب اسي ميں جذب ہوتا رہتا ہے اور باہر نکل کر بستر يا بيروني لباس کو گندا نہيں کرتا ۔ اس کا حکم يہ ہے کہ اگر پيمپر پر ايک درہم (يعني ہتھيلي کي گہرائي کي مقدار) کے برابر نجاست لگي ہو اور وقتِ ضرورت اسے بہ آساني جسم سے الگ کردينا ممکن ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہيں ۔ البتہ اگر پيشاب آنے کي شکايت اتنی زيادہ ہو کہ ايک پيمپر ہٹاتے اور دوسرا پہناتے ہي وہ بھي پيشاب سے آلودہ ہوجاتا ہو تو پھر اسے بدلنے کي ضرورت نہيں ۔ اس کے ساتھ نماز پڑھي جا سکتي ہے ۔ اسي طرح اگر پيمپر بار بار تبديل کرنے ميں بہت زيادہ مشقّت ہو تو يہ زحمت اٹھانے کي ضرورت نہيں ۔ اس کے ساتھ نماز پڑھنے کي گنجائش ہے ۔ فتاويٰ عالم گيري ميں ہے :
” ايک ايسا مريض جس کے نيچے ناپاک کپڑے ہوں ، اگر اس کي حالت ايسی ہو کہ جيسے ہی کوئي کپڑا بچھايا جائے فوراً ناپاک ہوجاتا ہو ، تو وہ اسي حالت ميں نماز پڑھ لے گا ۔ يہي حکم اس صورت ميں بھي ہے جب ناپاک کپڑا بدلوا کر دوسرا کپڑا پہنانے کي صورت ميں وہ (دوسرا کپڑا) ناپاک نہ ہوتا ہو ، ليکن اسے بدلوانے ميں بہت زيادہ مشقّت ہوتي ہو ۔ فتاويٰ قاضي خاں ميں بھي يہي بيان کيا گيا ہے ۔”( الفتاويٰ الھندية: 137/1، باب 14، في صلاة المريض)
يہي حکم اس شخص کے ليے بھي ہے جس کو مسلسل رياح خارج ہونے کا مرض ہو ۔
[ شائع شدہ : ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ، ماہ جنوری 2022)
طبی وجوہات۔
جسم سے پیشاب کا اخراج بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ گردے اضافی پانی اور کچرے کو خون سے فلٹر کرتا ہے اور اسے مثانے میں منتقل کردیتا ہے۔اوسطاً ایک فرد روزانہ چار سے چھ بار پیشاب کرتا ہے اور چار سے پانچ گھنٹے کے اندرباتھ روم کا ایک چکر لگ ہی جاتا ہے۔تاہم اگر ہر کچھ دیر بعد یعنی ایک گھنٹے سے دو گھنٹے کے دوران ہی پیشاب آنے لگے تو یہ غیر معمولی بات ہوتی ہے اوراگر ایسا ہورہا ہے تو اس کی وجوہات یہ ہوسکتی ہیں۔
زیادہ پانی پینا
اگر آپ زیادہ مقدار میں پانی پینا شروع کردیں تو آپ کے واش روم کے چکر بھی زیادہ لگتے ہیں، اور اگر کچھ زیادہ ہی چکر لگ رہے ہیں، تو دیکھیں آپ کتنا پانی پی رہے ہیں، عام طور پر زیادہ پانی پینے کے نتیجے میں جسم میں نمکیات کی کمی ہونے لگتی ہے جس کا عندیہ پیشاب کی بالکل شفاف رنگت یعنی سفید رنگت سے ہوتی ہے، جو بتدریج صحت کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے، تو اس کا ایک آسان اور سادہ سا حل بہت زیادہ کی جگہ مناسب مقدار میں پانی پینا ہے۔
چائے ، کافی یا سافٹ ڈرنکس کابہت زیادہ استعمال
مشروبات جیسے کافی، چائے یا کولڈ ڈرنکس وغیرہ زیادہ مقدار میں پینا بھی ہر وقت پیشاب آنے کی وجہ بن سکتا ہے، ان مشروبات کے نتیجے میں جسم میں نمک اور پانی کی مقدار بڑھتی ہے اور گردوں ان کی صفائی کرتا رہتا ہے جس کے باعث زیادہ پیشاب آتا ہے۔
پیشاب کی نالی میں سوزش کا ہوجانا
اس مرض میں مثانہ اور گردے متاثر ہوسکتے ہیں اور اس انفیکشن کے باعث مثانے ورم کے شکار بھی ہوجاتے ہیں جس کے باعث ایسا لگتا ہے کہ 24 گھنٹے پیشاب آرہا ہے حالانکہ جسمانی نظام میں اتنا سیال ہوتا نہیں، ایسے حالات میں ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔
ذیابیطس کی بیماری
جب آپ ذیابیطس کے شکار ہوجائیں تو آپ کا جسم خوراک کو شوگر میں تبدیل کرنے میں زیادہ بہتر کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں دوران خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جسم اسے پیشاب کے راستے باہر نکالنے لگتا ہے، یعنی ہاتھ روم کا رخ زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس مرض کے شکار اکثر افراد اس خاموش علامت سے واقف نہیں ہوتے اور نہ ہی اس پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر رات کو جب ایک یا 2 بار ٹوائلٹ کا رخ کرنا تو معمول سمجھا جاسکتا ہے تاہم یہ تعداد بڑھنے اور آپ کی نیند پر اثرات مرتب ہونے کی صورت میں اس پر توجہ مرکوز کرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔
بہت کم پانی پینا
جی ہاں واقعی بہت زیادہ کی جگہ اگر بہت کم پانی پیا جائے تو بھی یہ مسئلہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے مثانہ متاثر ہوتا ہے اور وہ دماغ کو یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ پیشاب آرہا ہے جبکہ ایسا ہوتا نہیں، اگر آپ پانی کم پیتے ہیں مگر ہر وقت پیشاب آنے کا احساس ہوتا ہے تو پانی پینے کی مقدار بڑھادیں۔
گردوں میں پتھری کا اشارہ
گردے کی پتھری پیشاب کی نالی کے کسی بھی حصے کو متاثر کرسکتی ہے اور وہاں سے ان کا نکلنا کافی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے، مگر پیشاب زیادہ آنے لگتا ہے جس کے ساتھ تکلیف بھی ہوتی ہے۔
مخصوص ادویات کا استعمال
مختلف ادویات جیسے ہائی بلڈ پریشر کے لیے لی جانے والی ادویات کے نتیجے مین یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے یا سکون آور ادویات کا بھی یہ سائیڈ ایفیکٹ دیکھنے میں آتا ہے جس کے استعمال کے باعث
کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے
ہر وقت پیشاب آنے پر ڈاکٹر سے رجوع ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی سنگین طبی مسئلہ بھی چھپا ہوسکتا ہے