انسانی صحت کے لیے حرارت کی اہمیت۔
طب نبویﷺ کی روشنی میں
انسانی صحت کے لیے حرارت کی اہمیت
طب نبویﷺ کی روشنی میں
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتطم اعلی
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ
کاہنہ نو لاہور
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’(اللہ) جس نے تمہارے لئےہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے لئےآگ سلگاتے ہو۔‘‘(یٰسین:۸۰)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اورحاجت مندوں کے لئےسامانِ زیست بنایا۔‘‘ (الواقعہ:۷۱-۷۳)
حرات زندگی کی علامت ہے،کوئی کتنا بھی عقلمند اور پڑھا ہو یا پھر جاہل ان پڑھ ہو جب وہ کسی بیمار یا بے ہوش کو دیکھتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ماتھے یا بازو کو چھو کر دیکھتا ہے، اگر حرارت باقی ہوتو زندہ ہونے کا حکم لگا دیتا ہے،بصورت دیگر اگر جسم کا درجہ حرارت ختم ہوچکا ،چھونے سےجسم میں ٹھنڈ ک کا احساس زیادہ ہو،تو زندگی سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے ۔دیہاتوں میں عمومی طورپر لوگ چھوکر زندہ یا مردہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔
جب زندہ جسم سے روح پرواز کرتی ہے تو جہاں اندرونی طورپر جسم میں تغیرات ہوتےہیں ،وہیں پر ظاہری طورپر جسم کا درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔جس حرار ت بالکل ختم ہوجائے تو اکڑائو شروع ہوجاتا ہے،اگر جسم کی اندرونی و بیرونی حرارت یکسر ختم ہوکر ،جسم نکتہ انجماد پر رکھ دیا جائے تو ٹھنڈک جسم کو جمادیتی ہے اور خاکی جسم بگڑنے اور متعفن ہونے سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ تغیرات کا سبب حرارت ہوتی ہے۔قدرت نے حرارت کو زندگی کی علامت مقررکیاہے ،اسی راز کو پاکر انسان نے زندگی کے بہت سے مسائل کا حل تلاش کیا اور نت نئی ایجاد سے اپنی زندگی کے رخ کو تبدیل کیا ،اب یہ مرضی سے حرارت یا ٹھنڈک کا ماحول پیدا کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرتا رہتا ہے۔
کرۂ ارضی پر انسانی زندگی اور انسانی صحت کے لیے سورج کی فراہم کردہ تپش اور حرارت بے حد اہم ہے۔ اگر سورج کی تپش نہ ہو تو زندگی کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے۔ اگر سورج کی تپش کی زیادتی سے جسم کو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں تو صحت کا گلشن بھی اسی تپش سے کھلتا ہے۔ پھلوں میں مٹھاس، غلے میں بڑھوتری اور پھولوں میں رنگ ، خوشبو اور چمک جو پیدا ہوتی ہے، وہ سورج کی گرمی سے ہوتی ہے۔ انسان کو جب بخار ہوتا ہے تو خون کے کئی مادے پگھل کر ضائع ہوتے ہیں۔
تحقیقات نے عیاں کردیا ہے کہ حرارت زندگی ہے،خوراک /غذا کی طرح دھوپ انسانی زندگی کے لئے اہمیت کی حامل ہے،کچھ چیزیں انسانی زندگی کے لئے بہت اہم ہوتی ہیں جو غذا سے بھی حاصل نہیں کی جاسکتیں،قدرت نے سورج کی کرنیں اس کی بہم رسانی کا ذریعہ بنادی ہیں۔
کوئی بھی چیز کتنی بھی اہم کیوںنہ ہو اگر وہ حدل اعتدال سے تجاوز کرجائے تو وبال جان بن جاتی ہے۔اسی طرح حرارت بھی انسانی زندگی کے لئےے بہت اہم ہے لیکن ایک خاص حد تک،کیونکہ جسم میں اس سے استفادہ کرنے اور کام لنے کی خاص حد یا صلاحیت ہے،اس سے زیادہ مصیبت کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔گرمیوں تپش انسانی کی جسمانی صلاحیت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اس لئے بیمار کردیتی ہے۔یہی دھوپ سردیوں کے ۔سرد امراض کو روکتی اور قوت میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔
انسانی جسم موسمی تغیرات اور گرمی سردی خشکی،رطوبات وغیرہ سے متاثر ہوتا رہتا ہے،سردی۔گرمی انسانی وجود پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔زندگی کے تسلسل اور نسل انسانی کے تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ بہت سارے امراض اور جسمانی طور پر رونما ہونے والی علامات کو کائناتی درجہ حرارت سے استفادہ کرتے ہوئے دور ۔یا پیدا کیا جاسکتا ہے۔
جسم میں ٹھنڈک کی زیادتی کی وجہ سے جوڑ جکڑے جاتے ہیں اور شوگر کے مرض کی زیادتی بھی ٹھندک کی وجہ سے ہے۔ اطباء نے اپنے تجربات میں لکھا ہے کہ ایک مریض کو ٹی بی کا مرض لاحق ہو جائے اور دوسرے کو جوڑوں کے درد اور گنٹھیا کا تو ٹی بی کا مریض شفا یاب ہو کر لمبی عمر پا سکتا ہے، لیکن قوت باہ کے مریض کا چراغ ٹمٹمانا شروع کر دیتا ہے۔
الغرض جس قدر ہو سکے، ٹھنڈی اشیاء سے اجتناب برتیں۔ کھانے کے بعد جوارش کمونی ضرور استعمال کریں۔اگر ہو سکے تو جوارش جالینوس بھی استعمال کرتے رہیں۔ طب یونانی میں بعض ادویہ سال ہا سال تک کھائی جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن میں دھوپ اور سایہ کا ذکر
Updated: March 19, 2021, 12:13 PM IST | Professor Wasim Ahmed
سائنسی تحقیقات اس پر روشنی ڈالتی ہیں کہ اگر ایک لمبی مدت تک زمین سورج کی روشنی سے محروم ہو جائے تو موجودہ نظام میں زمین پر زندگی معدوم ہو سکتی ہے، لیکن رب کریم نے دن کا ایک معتدل فیض بخش نظام قائم فرمایا ہے۔
دھوپ اور چھاؤں ۔ تصویر : آئی این این
اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت ورحمت کائنات کی ہر چیز سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ رحمٰن ورحیم ہے (الفاتحہ )۔ اس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔ جیسا کہ ارشار ہے:
’’اور میری رحمت تمام اشیا ءپر محیط ہے۔‘‘ (اعراف :۱۵۶)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’ اور اس( اللہ) نے سورج اور چاند کو تمہارے لئےمسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لئےمسخر کیا۔ اور تم کو وہ سب کچھ دیا جوتم نے مانگا (یعنی تمہاری فطرت کی ہر مانگ پوری کی )۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ بے شک انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘(ابراہیم :۳۳-۳۴)
تفہیم القرآن میں ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ مسخر کرنے کا مطلب ان کو ایسے قوانین کاپابند بنانا ہے، جس کی بدولت یہ انسان کے لئےنافع ہوگئے ہیں۔
اللہ کی رحمتوں اور نعمتوں کا کسی ایک زاویے سے بھی احاطہ کر پانا ناممکن ہے۔ اس مضمون میں دھوپ اور سایے کے تعلق سے ان پر کچھ نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تضاد سے ہے زنگ کائنات
دھوپ اور سایہ بظا ہر متضاد چیزیں ہیں۔ سایے کو عام طور پر راحت اور آرام کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ دھوپ میں بظاہر ایسانہ ہو لیکن ذرا غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دھوپ خود کاروبارِ زندگی کے لئے نہایت اہم اور ضروری ہے۔ دوسرے دھوپ ہی سایے کی اہمیت اور افادیت کی پہچان بنتی ہے۔ اگر دھوپ نہ ہو تو سایہ بھی نہیں رہتا۔
جس طرح گھنا سایہ رب کریم کی رحمتوں کا مظہر ہے اسی طرح دھوپ کو بھی اس نے سایے دار درخت اور اس کے ساتھ ہی دوسری زمینی مخلوقات کے لئےرحمت اور رزق کا سامان بنا دیا ہے۔ وہ اس دھوپ کو قابل برداشت اور اکثر صورتوں میں خوش گواربنائے رکھتا ہے۔
سایہ دار درخت اور زمین پر پھیلے ہوئے تمام پیڑ پودے، جڑی بوٹیاں سورج کی روشنی (دھوپ) میں ہی اپنی خوراک بناتے ہیں اور نشوونما پاتے ہیں اور اسی عمل میں وہ ماحول کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن خارج کرتے ہیںجو زندگی کے لئےناگزیر ہے۔ اس دوران استعمال ہونے والی سورج کی توانائی (Solar Energy) کا ایک حصہ پیڑ پودوں کی پتیوں، ڈالوںاور تنوں میں محفوظ ہو جاتا ہے جو انھیں جلا کر دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح پیڑ پودے شمسی توانائی کے بہترین ذخیرے کے طور پر کام کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’(اللہ) جس نے تمہارے لئےہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے لئےآگ سلگاتے ہو۔‘‘(یٰسین:۸۰)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
’’کبھی تم نے خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے، یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریعہ اورحاجت مندوں کے لئےسامانِ زیست بنایا۔‘‘
(الواقعہ:۷۱-۷۳)
انسانی زندگی میں شمسی توانائی
آج کل شمسی توانائی کو محفوظ کرنے اور ذخیرہ کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے ۔ جگہ جگہ دھوپ کے مواقع پر سولرپینل (Solar Panels ) لگ رہے ہیں اور دھوپ سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ ان فوائد سے بڑھ کر پیڑ پودوں کے پھل پھول اور پتیاں ہی انسانوں اور جانوروں وغیرہ کی غذا بنتے ہیں اور انھی سے پھر گوشت اور دودھ وغیرہ بھی بنتے ہیں ۔ اس طرح پیڑ پودے خاموش خدمت میں لگے ہوتے ہیں جس کا سارا انتظام رب کریم کی طرف سے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ اس کا بیان مختلف انداز میں ہوا ہے:
’’اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔‘‘ (المومنون:۱۷)
سورہ :ق” میں فرمایا گیا:
’’اچھا، تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے ۔اور زمین کو ہم نے بچھایا اور اس میں پہاڑ جمائے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگا دیں ۔یہ ساری چیزیں آنکھیں کھولنے والی اور سبق دینے والی ہیں ہر اُس بندے کے لئے جو (حق کی طرف) رجوع کرنے والا ہو ۔اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا، پھر اس سے باغات اگائے اور کھیتوں کا غلّہ (بھی)،اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیئے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہہ بہ تہہ لگتے ہیں ،یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا اِس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اِسی طرح ہو گا ۔‘‘( قٓ:۶؍تا۱۱)
سورۃ الشعراء میں ارشاد ہے:
’’ کیا انھوں نے زمین کی طرف نگاہ نہیں کی ، ہم نے اس میں کتنی نوع بنوع کی فیض بخش چیزیں اُگارکھی ہیں؟ اس میں بے شک بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اور بے شک تمہارا رب غالب بھی ہے، مہربان بھی۔ ‘‘ (الشعراء :۷-۹)
سورۂ شعراء میں خاص طور سے انبیائے سابقین کے حالات زندگی سے رب کریم کی رحمت اور قدرتِ کاملہ کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں اور نبی ؐ پر ایمان لانے سے انکار کرنے والوں کو ان کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے، لیکن سب سے پہلے (’’ کیا انھوں نے زمین کی طرف نگاہ نہیں کی ، ہم نے اس میں کتنی نوع بنوع کی فیض بخش چیزیں اُگارکھی ہیں؟‘‘آیت :۷) شانِ رحمت وربوبیت کی وہ نشانی پیش کی گئی ہے جو سب کے سامنے ہے اور تھوڑے غورو فکر سے بخوبی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
دھوپ کی غیر معتدل صورت
دھوپ اپنی ساری افادیت کے باوجو داگر مستقل طور پر ہمارے اوپر پھیلی رہے تو ایک مصیبت بن جائے جس کا اندازہ گرمیوں میں ہوتا ہے، اور سردیوں میں اس کا بھی اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ دھوپ ہماری زندگی کے لئےکتنی ضروری ہے۔ سائنسی تحقیقات اس پر روشنی ڈالتی ہیں کہ اگر ایک لمبی مدت تک زمین سورج کی روشنی سے محروم ہو جائے تو موجود ہ نظام میں زمین پر زندگی معدوم ہو سکتی ہے، لیکن رب کریم نے دن کا ایک معتدل فیض بخش نظام قائم فرمایا ہے۔زمین اپنے دُھرے (Axis) پر تقریباً ۲۴؍ گھنٹوں میں ایک چکّر پورا کرتی ہے، جس سے رات اور دن باری باری آتے رہتے ہیں، اور اپنے دُھرے پر تقریباً ۲۳؍ ڈگری زاویے پر جھکی رہتے ہوئے سورج کے گرد سال (تقریباً ۴/۱، ۳۶۵ ؍دن ) میں ایک چکّر پورا کرتی ہے۔ جس سے رات، دن گھٹتے بڑھتے ہیں اور موسم کی تبدیلی وغیرہ جیسے بے شمار فوائد اعتدال کیساتھ حاصل ہوتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہے:
’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدایش میں اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں ان چیزوں کے لئےچلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں۔ اور اللہ نے جو آسمان سے پانی نازل کیا، پھر اس کے ذریعے زمین کو جو مُردہ ہوچکی تھی زندہ کیا اور ہر قسم کے جانوروں میں جواس نے زمین میں پھیلائے ہیں اور ہوائوں کے پھیر بدل میں اور ان بادلوں میںجو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر کردیے گئے ہیں عقل مندوں کے لئےبڑی نشانیاں ہیں۔‘‘
(البقرہ: ۱۶۴)
دن اور رات بھی دھوپ اور سایے کی بڑی اور پھیلی ہوئی شکلیں ہیں۔ زمین کے جس آدھے حصے پر سورج چمک رہا ہوتا ہے، اسی کا سایہ دوسرے آدھے حصے پر پڑتا ہے اور وہاں رات ہوتی ہے ۔ کاروبار زندگی کے لئےدن اور رات کا مناسب رفتار سے آنا جانا جو اہمیت رکھتا ہے، واضح ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے سایے کو کس طرح پھیلادیا ہے؟ اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا ہی کر دیتا۔ پھر ہم نے آفتاب کو اس پر دلیل بنا دیا (یعنی دھوپ سے ہی سایے کا پتا چلتا ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو سایہ بھی نہ ہو )۔ پھر ہم نے اسے آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لئےپردہ بنایا اور نیند کو راحت بنایا اور دن کو جی اُٹھنے کا وقت (جوکاروبار زندگی کے لئےضروری ہے )۔‘‘ (الفرقان : ۴۵؍ تا ۴۷)
سورۂ قصص میں بھی یہ بات کچھ اور وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ارشاد ہوا:
’’ان سے کہو کیا تم نے سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لئےدن طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے رات لادے، تا کہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم کو سوجھتا نہیں؟ یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئےرات اور دن بنائے تا کہ تم (رات میں) سکون حاصل کرو اور (دن میں) اپنے ربّ کا فضل تلاش کرو، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘(القصص :۷۲-۷۳)
رب کریم کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ ہماری زندگیوں میں ایسی شامل ہیں کہ اکثر ان کی قدر وقیمت کا احساس نہیں رہتا:
’’اے اللہ ! ہماری مدد فرما کہ ہم تیرا ذکر، تیراشکر اور تیری عبادت بہ حسن وخوبی کرتے رہیں