ادویہ سازی قدیم و جدید
مصنف:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺکاہنہ نو لاہور پاکستان
ادویہ سازی
الحمد اللہ رب العالمین۔۔وہ عظیم ذات ہے جس نے انسان کو پاؤں میں روندھی جانے والی نباتات کو شفا کا ذریعہ بنایا۔ معمولی دکھائی دینے والی روئیدگی کو سبب شفا ٹہرا دیا ۔ علاج سے متعلقہ فن کو عظمت بخشی جس نے ایک انسان کو دوسرے انسان کی خدمت کا موقع فراہم کیا۔ اس دکھ بھری دنیا میں امیدکا چراغ روشن کیا۔کوئی طبیب موت سے چھٹکارا نہیں دلاسکتا لیکن جب تک سانسیں برقرار ہیں امیدکا دیا ٹمٹماتا رہے گا۔
یوں تو ہر فن میں بہت سامواد موجود ملتا ہے اس سے متعلقہ کتب بھی بازاروں پائی جاتی ہیں لیکن حالات اور ضروریات کے تقاضے مزید مواد اورتحقیق کے متقاضی ہوتے ہیں صاحب علم و استعداد اپنے فن و ہنر کو تقسیم کرتے رہتے ہیں جو لوگ امساک و بخل کی چادر سے منہ نہیں نکالتے انہیں کبھی سکون نہیں ملتا جو فیاضی سے کام لیتے ہیں انہیں بظاہر تنگی اور سرقہ فن جیسے صدمات سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن کام تو چڑھتا ہوا سورج ہوتا ہے جو کسی دلیل کا محتاج نہیں ہوتا ۔ طبیب ہوں یا کسی دوسرے نام سے انسانی صحت کے بارہ میں کام کرنے والے سب داد تحسین مستحق ہیںمشن و منزل اور منتہا ئے نظر ملتا جلتا ہے۔ ہر کو ئی مریض کی شفایابی کے لئے کوشاں ہے۔کشادہ ظرفی انسان کو وسعت و خوشی عطاء کرتے ہیں اور بخل و امساک انسانی خوشی کو سلب کرلتے ہیں ۔جس فن و ہنر سے انسان خوش نہ رہ سکے اس کا کیافائدہ؟
راقم نے ان صفحات میں جو کچھ لکھا ہے اسے ذاتی تخیل کہیں یا پھر تجربات کا تسلسل ،کچھ لکھی ہوئی پرانی یاد داشتیں کچھ فی البدیع وارد ہونے والی باتیں ہیں جن کے ظہور کا سبب محترم المقام حضرت مولانا سید حبیب اللہ شاہ صاحب ہیں جو حجامہ اور حکمت پر عبور رکھنے کے ساتھ، ایک زیرک عالم فاضل اور طابع کتب نافعہ ہیں۔ ان کے سوال و جواب اس قدر جامع و معنی خیز ہوتے ہیں جو انسان کو بہت حد تک سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔طب و حکمت اور دیگر فنون میں جو معلومات مختصرانداز میں ایک ہفتہ کے دوران فرصت کے لمحات میں لکھی جانے والی سطور میں جو ہوسکا حاضر خدمت ہے کیا اچھا کیا برا یہ وقت بتائے گا۔ امید ہے کہ یہ سطور معالجین کیلئے نفع دیںگی۔لکھے گئے نسخہ جات کی تحریرکے وقت ایک خاص ماحول تھا۔ایک ایک نسخہ ایسا تھا جو سوال و جواب کی صورت میں سامنے تھا مجھے معلوم نہیں کہ یہ توجہ اور یکسوئی پڑھنے والے کو ملتی ہے کہ نہیں البتہ ان نسخہ جات کی افادیت میں شک نہیں ہے۔
دوا سازی ہو یا کوئی دوسرا فن ہر ایک میں جدت موجود ہوتی ہے کچھ لوگوں کو نرالے ڈھنگ سے بات کرنے کی صلاحیت ملتی ہے جو عام روش سے ہٹ کر ہوتی ہے اس لئے ان کا انداز تخاطب بعض دفعہ غیر مانوس دکھائی دیتا ہے ۔جو لوگ نصیحت اور تضحیک میں فرق نہیں کرسکتے ہیں وہ فن کی باریکیوں کو کیا سمجھیں گے؟
کسی پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے فن و ہنر کا مطالعہ کرنا بہتر ہوتا ہے،کمزوریاں تلاش کرنے میں جو انرجی استعمال کی جاتی ہے اگر اس سے کمتر انرجی دوسروں میں موجود بھلائیاں دیکھنے اورانہیںاپنانے اور ان کی اچھائیاں تسلیم کرنے میں صرف کردیں تو حالات کا رخ اور سوچ کی سمت تبدیل کی جاسکتی ہے ۔ کوشش کی جائے کہ دوسروں میں جو صلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہیں انہیں اپنا لیا جائے اور خود میں جو کمیاں ہیں انہیں دور کرلیا جائے تو انسان کے کردار کے ساتھ اس کے پیشے میں بھی ترقی کے امکانات نمایاں ہوسکتے ہیں۔
عامل کیمیا گر اپنے علم کو نہایت راز داری میں رکھتے ہیں اس طرح یہ علم سربستہ راز ہی رہا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ اپنے فن کو عام کردیں گے تو ان کی عزت و توقیر ختم ہوکر رہ جائے گی۔اس لئے یہ لوگ جب اپنے مطالب کا اظہار کرتے ہیں تو عجیب و غریب نشانات و مبہم قسم کی علامات کا سہارا لیتے ہیں جو انکی کتب کا مطالعہ کرتا ہے وہ الجھ کررہ جاتاہے