طب کی اخلاقیات (Medical Ethics)
طب کی اخلاقیات (Medical Ethics)
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
برادر مکرم حکیم عبد الباری فلاحی ایسوسی ایٹ پروفیسر ، شعبۂ کلیات ، جامعہ ہمدرد نئی دہلی نے خواہش کی کہ میں طبیہ کالج کے سالِ اوّل کے طلبہ کے سامنے ‘طبی اخلاقیات’ کے موضوع پر آن لائن ایک لیکچر دے دوں _ میں نے منظوری دے دی _
جامعہ ہمدرد حکیم عبد الحمید کے خوابوں کی تعبیر ہے _ انھوں نے سب سے پہلے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن اینڈ میڈیکل ریسرچ قائم کیا تھا ، پھر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کی تاسیس کی ، بعد میں سائنس ، طب اور دوسرے علوم و فنون کے شعبے قائم ہوئے _ 1989 میں جامعہ ہمدرد کی تشکیل ہوئی تو مزید ترقی ہوئی _ وہاں کے طبیہ کالج کو اب School of Unani Medical Education and Research (SUMER) کا نام دیا گیا ہے _ پروفیسر عارف زیدی صاحب آج کل اس کے ڈین ہیں _ طے کیا گیا کہ سالِ اوّل کے طلبہ کو پندرہ روزہ Induction Program سے گزارا جائے ، تاکہ انہیں طب کی بنیادی اور اہم معلومات ہوجائیں _ طلبہ کے سامنے میں نے جو گفتگو کی اس کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں :
(1) اخلاقیات (Ethics) کا موضوع طب میں ابتدا سے شامل رہا ہے _ ابو الطب بقراط اپنے جن شاگردوں کو طب کی تعلیم دیتا تھا ان سے ایک عہد لیتا تھا ، جسے ‘عہد نامۂ بقراط'(Hippocratic Oath) کا نام دیا گیا ہے _ وہ اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہے _
(2) مسلم أطباء نے بھی پیشۂ طب کے دوران برتے جانے والے اخلاقی اصولوں کا تذکرہ کیا ہے _ ابو بکر رازی کی کتاب ‘محنۃ الطب’ میں اس پر مواد ملتا ہے ، اس کے علاوہ اس کی مشہور تصنیف’ کتاب الحاوی الکبیر فی الطب’ میں بھی اس سے بحث کی گئی ہے _
(3) انٹرنیشنل میڈیکل ایسوسی ایشن کی 1948 میں جنیوا میں تشکیل ہوئی تو اس نے بھی ایک ‘حلف نامۂ طبیب’ کو منظوری دی _ کویت میں 1981 میں مسلم اطباء کی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا تو اس میں’مسلم طبیب کا حلف نامہ’ پیش کیا گیا تھا _ ان تمام حلف ناموں کے مضامین تقریباً یکساں ہیں _ بس فرق یہ ہے کہ عہد نامۂ بقراط میں طبیب دیوی دیوتاؤں کی قسم کھاکر عہد لیتا تھا ، جنیوا کے حلف نامہ میں بغیر دیوی دیوتاؤں کا تذکرہ کیے حلف لیتا ہے اور مسلم طبیب کے حلف نامہ میں اللہ کے نام سے عہد لیے جانے کا ذکر کیا گیا ہے _
(4) دینی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسلامی شریعت نے بھی طبیب پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں _ علاج معالجہ کے پیشے سے وابستہ لوگوں کے لیے انہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے _ یہ ان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے اور پیشہ کے وقار و احترام کی رو سے بھی مطلوب ہے _
(5) اسلام فنِ طب میں مہارت کے بغیر علاج معالجہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا _ کوئی شخص ایسا کرے اور مریض کو کچھ نقصان پہنچ جائے ، اس کی جان چلی جائے ، یا اس کا کوئی عضو ضائع ہوجائے تو وہ اس کا ضامن ہوگا _
(6) طبیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مریض کے رازوں کی حفاظت کرے اور کسی دوسرے کو ان کی خبر نہ دے _ بس وہ صورت حال اس سے مستثنیٰ ہے جب ایسا کرنے سے کسی دوسرے شخص یا ادارے کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو _
(7) طبیب پر لازم ہے کہ وہ مریض کو زہر یا کوئی ضرر پہنچانے والی دوا نہ دے ، اسی طرح مسلم طبیب کو چاہیے کہ وہ عام حالات میں شراب یا کسی حرام چیز سے مریض کا علاج نہ کرے _ ایسا وہ صرف اس وقت کرے جب مریض کی جان بچانے کے لیے اس کے بغیر چارہ نہ ہو _
(8) قتل بہ جذبۂ رحم (Euthanasia) کی اسلام کسی طور پر اجازت نہیں دیتا _ جان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے ، اس لیے کسی شخص کو ، یا اس کے رشتے داروں کو ، یا طبیب کو اس کی جان لینے کا حق نہیں ہے _
(9) طبیب کو عام حالات میں نہ مانع حمل کوئی دوا دینی چاہیے ، نہ اسقاطِ حمل کی کوشش کرنی چاہیے _ ایسا وہ صرف اسی وقت کرسکتا ہے جب مریضہ کی جان پر بن آئی ہو ، یا یقینی طور پر معلوم ہوگیا ہو کہ جنین ناقص الخلقت ہے اور نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہے _
(10) مرد عورت کا علاج کرسکتا ہے اور عورت مرد کا علاج کرسکتی ہے _ البتہ اس صورت میں تخلیہ سے بچنا چاہیے ، طبیب یا طبیبہ کو اپنے ساتھ کسی معاون کو ضرور رکھنا چاہیے _
(11) طبیب کو چاہیے کہ مریض یا مریضہ کو بلا ضرورت بے ستر نہ کرے _ جسم کا جتنا حصہ کھولنا ضروری ہو بس اتنا ہی کھولے _
(12) طبیب کو بے غرض اور مریض کے لیے مخلص ہونا چاہیے _ علاج سے قبل جتنی طبی جانچیں ضروری ہوں بس اتنی ہی کرائے _ محض بِل بڑھانے کے لیے بلا ضرورت بہت زیادہ ٹیسٹ نہ کرائے _ اسی طرح جتنی دوائیں ضروری ہوں اتنی ہی لکھے _ سستی دواؤں سے علاج ہوسکتا ہو تو خواہ مخواہ مہنگی دوائیں تجویز نہ کرے _ دواؤں سے شفا ممکن ہو تو بلا ضرورت آپریشن تجویز نہ کرے _
(13) طبیب کو خوش شکل (Handsome) اور خوش اطوار ہونا چاہیے _ وہ مریض سے مسکراکر بات کرے ، اس کے احوال دریافت کرے اور اس کی بیماری چاہے جتنی سنگین ہو ، لیکن اسے شفایاب ہونے کی امید دلائے _
8:56 am