اولاد کب تک جنم دی جاسکتی ہے
قران کریم کی رو سے مرد یا عورت کس عمر تک اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
قران کریم میں اہلیہ/گھر والی کے لئے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔امراۃ۔زوجہ۔ صاحبہ۔۔ان تینوں الفاظ میں خاص نکتہ پوشیدہ ہے۔(1)امراۃ۔اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں میاں بیوی کا جسمانی تعلق تو ہو لیکن سوچ و نظریات میں فرق ہو۔یعنی صرف جسمانی میلاپ ہو۔
قران کریم نے امراۃ نوح /لوط کا ذکر فرمایا(التحریم)
حیرت کی بات ہے جب تک عورت صرف بیوی رہے تو امراۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور جب وہ صاحب اولاد یعنی انسانی نسل کا ذریعہ بن جائے اسے زوجہ کا لفظ دیا جاتا ہے۔مثلاََ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم ؑ لوگ بیٹے کی خوش خبری دی تو امراۃ کا لفظ استعمال فرمایا۔اسی طرح سیدنا زکر علیہ السلام نے جب اولاد کے لئے دست دعا دراز فرمایا تو امراض عاقر کا لفظ استعمال کیا ،جب وہ صاحب اولاد ہوئیں تو انہیں اصلحنا لہ زوجہ کا لقب ملا۔رہی تیسری بات۔صاحبہ۔یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب تعلق کسی قسم کا نہ ہو لیکن ایک نسبت کردی جائے۔مثلاََ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کسی بیوی یا اولاد کی نسبت کو بھی گوارا نہیں فرمایا ۔ولم تکن لہ صاحبہ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام
قران کریم نے دو انبیاء کے واقعات ذکر فرمائے ہیں جنہیں بڑی عمر میں اولاد عطاء فرمائی گئی۔ایک سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیںجن کے بارہ میں قران کریم نے کئی جگہ ذکر کیا گیا ہے۔سورہ ہود میں ہے
وَامْرَاَتُهٗ قَاۗىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ 71۔۔۔۔ اور ان (ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی جو پاس کھڑی تھی ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔ ۔۔قَالَتْ يٰوَيْلَتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّھٰذَا بَعْلِيْ شَيْخًا ۭ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيْبٌ 72۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے خرابی ! کیا میں بچہ جنوں گی ! میں تو بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ ۔۔۔قَالُوْٓا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ ۭ اِنَّهٗ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ 73۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کیا تم اللہ کی قدرت سے تعجب کرتی ہو ؟ اے گھر والو ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں بیشک اللہ باعث تعریف اور بڑائی والا ہے۔ ۔۔۔(سورہ ہود)
سورہ الزاریات میں ہے۔۔{فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ (29) قَالُوا كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ إِنَّهُ هُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ (30) } [الذاريات: 29، 30]
تو (ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی) چلاتی ہوئی آئیں اور اپنے چپرے پر تھپکی ماری۔” کہ اوہو ایک تو بڑھیا اور دوسرے بانجھ۔ (میری اولاد کیسے ہوسکتی ہے) “ انہوں (فرشتوں) نے کہا ” ہاں تمہارے رب نے ایسے ہی فرمایا ہے بیشک وہ حکمت والا ہے اور خبردار بھی ہے۔ ۔۔۔۔
حضرت زکریا علیہ السام
دوسرے نبی حضرت زکریا علیہ السلام ہیں۔۔۔
قران کریم ان کے بارہ میں ارشاد فرماتا ہے۔
{ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا (2) إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا (3) قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا (4) وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (6) يَازَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ
مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا (7) قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا (8) قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا (9) قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا (10) فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا (11) } [مريم: 2 – 11]
یہ تمہارے رب کی مہربانی کا بیان ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔ ۔ جب انہوں نے اپنے رب کو دبی آواز سے پکارا۔ /۔۔ اور کہا کہ اے میرے رب ! میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں اور سر سفید ہوگیا ہے اور اے میرے رب ! میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔ ۔۔ اور میں اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔ تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔ جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو اور اے میرے رب ! اسے پسندیدہ انسان بنانا۔ اے زکریا ! ہم تم کو ایک بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخض پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا اے اللہ ! میرے ہاں کس طرح لڑکا پیدا ہوگا۔ اس حال میں کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں۔ حکم ہوا کہ اسی طرح ہوگا تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھے یہ آسان ہے اور میں پہلے تمہیں بھی تو پیدا کرچکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے ۔۔ کہا کہ پروردگار میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما۔ فرمایا ” نشانی یہ ہے کہ تم ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود تین رات لوگوں سے بات نہ کرسکو گے۔ پھر وہ (عبادت کے حجرے سے) نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح و شام اللہ کو یاد کرتے رہو۔ ترجمہ آیات مکمل ہوا۔۔
دوسری جگہ ان کے بارہ میں ارشاد ہے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ ۡ وَوَهَبْنَا لَهٗ يَحْــيٰى وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ۭ وَكَانُوْا لَنَا خٰشِعِيْنَ 90 تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور ان کو یحییٰ بخشے اور ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنا دیا یہ لوگ لپک لپک کر نیکیاں کرتے ہمیں امید اور خوف سے پکارتے اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے۔ (سورہ انبیاء90)
طبی نکات۔۔۔
(1)ان دونوں واقعات میں ایک قدرے مشترک ہے کہ دونوں نبی اللہ کے برگزیزدہ تھے انہوں نے بڑھاپے میں اولاد کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں قبول فرمائیں اور انہیں اولاد نرینہ سے نوازا۔
(2)دونوں کی بیویاں بانجھ تھیں۔یعنی عرف عام میں ان کے بچہ جننے کی صلاحیت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔اس سے نقص سے خود بھی آگاہ تھیں اور ان کے میاں بھی آگا ہ تھے۔اس لئے جب اولاد کی باری آئی تو انہوں نے از راہ تعجب کہا کیا بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود اولاد ہوگی؟
(3)یہ دونوں نبی بڑھاپے کی اس منزل تک پہنچ چکے تھے جب اولاد کے ہونا اور اس خواہش کا اظہار کرنا معاشرہ انسانی میں معیوب سمجھا جا تا ہے۔کیونکہ اولاد کی پیدائش عمومی طور پر جوانی میں ہوتی ہے۔ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ قوائے جسمانی کے ساتھ ساتھ خواہش اولاد بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔بڑھاپے میں کچھ خواہشات توانا ہونے لگتی ہیں حدیث مبارکہ ہے
، حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ابن آدم بوڑھا ہوتا ہے اور اس میں دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال اور عمر پر حرص۔صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2405 )
(4)بیویوں کی طرح خاوند بھی بوڑھے ہوچکے تھے۔دونوں عورتوں میں بانجھ پن کا ذکر ہے۔مردوں میں بوڑھاپے کا ۔اس میں ایک خاص نکتہ جسے ہم طبی لحاظ سے اہمیت کا حامل قرار دے سکتے ہیں۔وہ کہ عورتوں میں ایک خاص وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ ایام مخصوصہ بھی بند ہوجاتے ہیں جو اس بات کی علامت ہوتے ہیں کہ اب اولاد کی پیدائش کا والا کھاتہ بند ہونے لگا ہے۔جن عورتوں میں ایام حیض بڑی عمر تک جاری رہتے ہیں وہ بڑی عمر تک اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالامال رہتی ہیں۔جن عورتوں میں ایام حیض جلد بند ہوجائیں وہ جلد اس صفت سے محروم ہوجاتی ہیں۔بانجھ پن عمومی طورپر انہی ایام کی خرابی کے سبب رونما ہوتا ہے۔
(5)عورتوں کے بارہ میں بتادیا گیا کہ یہ دونوں بانجھ یعنی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہیں۔ساتھ بھی کہا کہ ہم نے ان کی اہلیہ کو ٹھیک کردیا تاکہ وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجائے۔(انبیاء)لیکن مردوں کے سلسلہ میں ایسی کوئی بات نہ کہی کہ انہیں ٹھیک کیا تب جاکر وہ اولاد کے لئے تیار ہوئے۔یعنی اعضاء کے لحاظ سے اس قابل تھے کہ ان کے ہاں اولاد جنم لے سکے۔
(6)اس بحث سے ثابت ہوا کہ مردوں میں لمبی عمر تک قوت رجولیت یعنی قوت باہ کام کرتی رہتی ہے۔عورتوں میں ان کی یہ خواہش جلد ختم ہوجاتی ہے۔