“اسلام کا نظام ِ محاصل”
تالیف : قاضی القضاۃ امام ابو یوسف ر۔ح
اردو ترجمہ : محمد نجات اللہ صدیقی
باتعاون و بعنایت ِ خصوصی : مفتی امداداللہ یوسف زئ
پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری….سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نو لاہور
Written by :Imam Abu Yousaf rh.A
Urdu Translation : Nijaat Ullah Siddique
تکبیر مسلسل
خورشید ندیم
“کتابُ الخراج
تالیف : قاضی القضاۃ امام ابو یوسف ر۔ح
اسلام کا نظام ِ محاصل
مترجم : محمد نجات اللہ صدیقی
رسالت مآبﷺ یثرب تشریف لائے تو قرآن مجید نازل ہو رہا تھا۔آپ بنفسِ نفیس رونق افروز تھے۔پھر یہ بھی کہ آپ نے بطورمہاجر نہیں ،بحیثیت سربراہِ مملکت اس سرزمین پر قدم رنجہ فرما یا تھا۔آپ نے قرآن مجید اور سنتِ جاریہ کی موجودگی میں بھی نظامِ مملکت کے لیے تحریری آئین کو ضروری سمجھا۔قبائل کے ساتھ ایک سے زیادہ معاہدے فرمائے اور انہیں لکھا گیا۔یہ مذہبی نہیں، عمرانی معاہدے ہیں۔تقابل کیجیے تو ان کی زبان ویسی ہی ہے جیسے آج آئین کی زبان ہو تی ہے۔قرآن اور صاحبِ سنت کی موجود گی میں، آخر عمرانی معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ریاست کے لیے آئین کیوں ضروری سمجھا گیا؟
یہ کہنے کا سب سے زیادہ استحقاق آپ ﷺ ہی رکھتے تھے کہ ‘ہمارا آئین قرآن ہو گا۔‘اکثریت نے آپ کو صرف سربراہِ مملکت نہیں،اللہ کا پیغمبربھی مانا تھا۔آپ اگر فرماتے کہ ‘میرا فرمان ہی قولِ فیصل ہو گا‘تو کون تھا جو اس کو چیلنج کرتا۔ اس کے باوجود آپ نے قدم قدم پر لوگوں سے مذاکرات کیے اور معاہدوں کو تحریری شکل دی۔سیرت کے طالب علم جا نتے ہیں کہ سب معاہدے ایک دن میں ترتیب نہیں پائے۔یہ ایک مسلسل عمل تھا جو تادیر جاری رہا،یہاں تک کہ ریاست مستحکم ہو گئی۔یہ ایک خالصتاً سیاسی اور سماجی عمل تھا اور آپ ﷺ نے اُن امور کو اسی نظر سے دیکھا۔یوں عالمِ انسانیت کو ایک نئے تمدن کی راہ دکھائی۔
انسانی معاملات اور سماجی اخلاقیات میں تحریر کی اہمیت کو،ہم نے مغرب سے نہیں، اللہ کی کتاب اوراللہ کے رسول ﷺ سے جانا ہے۔قرآن مجیدنے اہلِ اسلام کوسکھایا ہے کہ اگرقرض کامعاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔یہی نہیں،اس پر گواہ بھی بنا لو (البقرہ282:2)۔اس آیت میں اسی نوعیت کی مزید سماجی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔مو لا نا امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں”یہ ہدایات اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق و عدالت سے قرین،گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و نزاع سے بچانے والی ہیں۔اس لیے معاشرتی صلاح و فلاح کے لیے ان کا اہتمام ضروری ہے۔‘‘(تدبرِ قرآن)۔عقلِ عام کا سوال ہے کہ جو دین دو افراد کے مابین مالی لین دین کے معاملے کو اجلا اورنزا ع سے پاک رکھنے میں اتنا حساس ہے، وہ بیس کروڑ افراد کو یہ ہدایت نہیں کرے گا کہ آپس کے معاملات کو لکھ کر طے کرو۔کیا دین کا مطالبہ اس اعلانِ عام کے بعد پورا ہو جا تا ہے کہ :’ہمارا آئین قرآن ہے‘؟
میں اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ باہمی معاملات کو تحریری صورت دینے پر اسلام کا اصرار اِسے حکم کے درجے تک پہنچا دیتا ہے۔اس کی حکمت اتنی واضح ہے کہ اس پر دلیل دینا ،ایک بالغ نظر سماج میں تحصیلِ حاصل ہے۔جب انسان مل کر رہتے ہیں تو یہ ناگزیر ہے کہ ان کے مابین حقوق و فرائض کا تعین ہو۔یہ متعین امور اگر لکھ لیے جائیں تو اس سے جہاں نزاع میں کمی آتی ہے وہاں نزاع کی صورت میںانصاف کے لیے ایک بنیاد میسر آ جا تی ہے۔میثاقِ مدینہ کو رسالت مآب ﷺ نے خود قانون ، جدید الفاظ میں ،آئین قرار دیا۔اس کے بارے میں فرمایا:ھذاکتاب (یہ قانون ہے)۔اسی ضرورت کے پیش
نظرعباسی حکمران ہارون الرشید کو امام ابو یو سف سے درخواست کر نا پڑی کہ وہ ‘کتاب الخراج‘ لکھیں۔امام صاحب نے جواباً یہ نہیں فرما یا کہ ‘قرآن ہمارا آئین ہے۔ہمیں کسی مزید آئین کی ضرورت نہیں۔‘ان کے بر خلاف انہوں نے ایک ضخیم کتاب لکھی اور یہ ریاست کے طول وعرض میں نافذ ہو گئی۔کیا ہارون الرشید اہلِ مغرب سے متاثر تھے ؟کیا معلوم کل یہ انکشاف بھی ہوجائے کہ یہ بات ان کے کان میںبھی کسی مغربی ہی نے ڈالی تھی۔
آئین ایک عہد ہے اور عہد کی پاسداری ایمان کا تقاضا ہے۔جس کا عہد نہیں، ان کا کوئی ایمان نہیں۔یہ بات اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمائی۔پاکستان کا آئین ریاست اور بیس کروڑ عوام کے مابین ایک عہد ہے۔جب تک یہ عہد موجود ہے، اہلِ ایمان کے دینی فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس کا احترام کریں۔تاہم فریقین جب چاہیں اس میں ترمیم کر سکتے ہیں۔اس کی حیثیت یقیناً وہ نہیں ہیے جو قرآن مجید یا سنت کی ہے۔اِن میں تو کوئی ترمیم کی جسارت نہیں کر سکتا۔اگر کسی معاہدے میں کوئی ایسی بات شامل ہو گئی ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے تو کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ و ہ اس پر اصرار کرے۔تاہم اس کا فیصلہ کوئی فریق اپنے طور پر نہیں کر سکتا۔اس کے لیے ہمارے پاس عدالتی فورم مو جود ہے اور اسی سے رجوع کیا جا نا چاہیے۔ہمارے ہاں آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس آئین میں کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ اکیس ترامیم کے بعد بھی کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے؟تاہم اس آئین کو اس وقت تک تقدیس حاصل رہے گی جب تک یہ معاہدہ برقرار ہے۔اس سے انحراف قانونی ہی نہیں، اخلاقی جرم بھی تصور ہو گا۔
یہ بات بھی بطور اصول سامنے رہنی چاہیے کہ اگر معاملہ اخلاقی نہیں ہے تو تمدنی ضرورت کے تحت آنے والی تبدیلوں کے لیے دینی جواز تلاش کر نا ضروری نہیں ہو تا۔ ان تبدیلیوں کو قبول یا رد کرنے کا فیصلہ عقلِ عام سے ہوتا ہے اور ایک مسلمان کو اس کے استعمال سے منع نہیں کیا گیا۔اگر تمدنی ضرورت کے تحت ایک آ دمی گاؤں سے شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ مولوی صاحب سے فتویٰ نہیں لیتا۔ایک تحریری آئین آج کی تمدنی ضرورت ہے۔دورِ جدید میںمسلمانوں نے سب سے پہلے اس کی ضرورت کو محسوس کیا۔حیرت ہے کہ اسلامی تشخص پر اصرار کرنے والے ہمارے بھائی ،ہمیں اس معاملے میں اسرائیل ا ور انگلستان کی اتباع کا مشورہ دیتے ہیں۔
قرآن مجید،کتابِ آئین نہیں، کتابِ ہدایت ہے۔ہم اس سے ہدایت لیتے اور پھر اس کی روشنی میں اپنے لیے آئین دستوربناتے ہیں۔آئین زمان و مکان کا پابند ہو تا ہے۔اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ہدایت آفاقی ہو تی ہے۔ہر عہد اور ہر علاقے کے لوگ اس سے اپنی دنیا روشن کرتے ہیں۔کوئی بغداد میں بیٹھ کر،اس کی روشنی میں،کتاب الخراج لکھتا ہے اور کوئی اسلام آباد کے عوامی ایوانوں میں بیٹھ کرآئینِ پاکستان رقم کر تا ہے۔ہدایت اپنی جگہ قائم رہتی ہے،قاضی ابو یوسف البتہ بدلتے رہتے ہیں۔دوام کتاب اللہ کو ہے، کتاب الخراج کو نہیں۔جنہوں نے کتاب اللہ کو ایک عہد تک محدود رکھنا چاہا، انہوں نے ٹھوکر کھائی اور جنہوں نے کتاب الخراج کو دوام بخشنا چاہا،انہوں نے بھی غلطی کی۔صراط مستقیم درمیان میں ہے۔
میں اپنے ان بزرگوں کا احسان مند ہوں جنہوں نے اس قوم کو ایک تحریری آئین دیا۔انہوں نے دین کی روح کو صحیح سمجھا اور تمدنی ضرورت کو بھی۔زندگی البتہ رواں دواں ہے۔اس آئین میں تبدیلیاں ہوتی رہیں گی اور سفرِ حیات جاری رہے گا۔آئین کا ‘بنیادی ڈھانچہ‘ ایک موضوعی چیز ہے۔اس کی تعبیر ہر کوئی اپنے فہم کے مطابق کر تا ہے۔یہ ڈھانچہ سماجی رجحانات سے اخذ ہوتا ہے۔ قرآن وسنت کی بالا دستی،اس آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اورمتن کا بھی۔اس باب میں تشویش اسی وقت ہو سکتی ہے جب سماج اجتماعی ارتداد کافیصلہ کرلے۔ اگر خدا نخواستہ وہ وقت آ گیا توکوئی آئین اور کوئی عدالت اسلامی تشخص کی ضمانت نہیں دے پائیں گے۔یہ وقت تب ہی آ سکتا ہے جب مذہب، جبرِ محض اور توہمات کا معاملہ بن کر خود کو عقلِ عام سے دور کر لے۔اصل تشویش اس بات کی ہونی چاہیے۔
آئین کو ایک غیر اہم چیز ثابت کرنا،عہد کے باب میں عوام کو لاپروا بنانا ہے۔عہد کی حرمت باقی نہ رہے تو گھر باقی نہیں رہتے، ریاست تو اس سے کہیں بڑی اور اہم تر ہے۔
خورشید ندیم
“کتابُ الخراج
تالیف : قاضی القضاۃ امام ابو یوسف ر۔ح
اسلام کا نظام ِ محاصل
مترجم : محمد نجات اللہ صدیقی
رسالت مآبﷺ یثرب تشریف لائے تو قرآن مجید نازل ہو رہا تھا۔آپ بنفسِ نفیس رونق افروز تھے۔پھر یہ بھی کہ آپ نے بطورمہاجر نہیں ،بحیثیت سربراہِ مملکت اس سرزمین پر قدم رنجہ فرما یا تھا۔آپ نے قرآن مجید اور سنتِ جاریہ کی موجودگی میں بھی نظامِ مملکت کے لیے تحریری آئین کو ضروری سمجھا۔قبائل کے ساتھ ایک سے زیادہ معاہدے فرمائے اور انہیں لکھا گیا۔یہ مذہبی نہیں، عمرانی معاہدے ہیں۔تقابل کیجیے تو ان کی زبان ویسی ہی ہے جیسے آج آئین کی زبان ہو تی ہے۔قرآن اور صاحبِ سنت کی موجود گی میں، آخر عمرانی معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ریاست کے لیے آئین کیوں ضروری سمجھا گیا؟
یہ کہنے کا سب سے زیادہ استحقاق آپ ﷺ ہی رکھتے تھے کہ ‘ہمارا آئین قرآن ہو گا۔‘اکثریت نے آپ کو صرف سربراہِ مملکت نہیں،اللہ کا پیغمبربھی مانا تھا۔آپ اگر فرماتے کہ ‘میرا فرمان ہی قولِ فیصل ہو گا‘تو کون تھا جو اس کو چیلنج کرتا۔ اس کے باوجود آپ نے قدم قدم پر لوگوں سے مذاکرات کیے اور معاہدوں کو تحریری شکل دی۔سیرت کے طالب علم جا نتے ہیں کہ سب معاہدے ایک دن میں ترتیب نہیں پائے۔یہ ایک مسلسل عمل تھا جو تادیر جاری رہا،یہاں تک کہ ریاست مستحکم ہو گئی۔یہ ایک خالصتاً سیاسی اور سماجی عمل تھا اور آپ ﷺ نے اُن امور کو اسی نظر سے دیکھا۔یوں عالمِ انسانیت کو ایک نئے تمدن کی راہ دکھائی۔
انسانی معاملات اور سماجی اخلاقیات میں تحریر کی اہمیت کو،ہم نے مغرب سے نہیں، اللہ کی کتاب اوراللہ کے رسول ﷺ سے جانا ہے۔قرآن مجیدنے اہلِ اسلام کوسکھایا ہے کہ اگرقرض کامعاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔یہی نہیں،اس پر گواہ بھی بنا لو (البقرہ282:2)۔اس آیت میں اسی نوعیت کی مزید سماجی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔مو لا نا امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں”یہ ہدایات اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق و عدالت سے قرین،گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و نزاع سے بچانے والی ہیں۔اس لیے معاشرتی صلاح و فلاح کے لیے ان کا اہتمام ضروری ہے۔‘‘(تدبرِ قرآن)۔عقلِ عام کا سوال ہے کہ جو دین دو افراد کے مابین مالی لین دین کے معاملے کو اجلا اورنزا ع سے پاک رکھنے میں اتنا حساس ہے، وہ بیس کروڑ افراد کو یہ ہدایت نہیں کرے گا کہ آپس کے معاملات کو لکھ کر طے کرو۔کیا دین کا مطالبہ اس اعلانِ عام کے بعد پورا ہو جا تا ہے کہ :’ہمارا آئین قرآن ہے‘؟
میں اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ باہمی معاملات کو تحریری صورت دینے پر اسلام کا اصرار اِسے حکم کے درجے تک پہنچا دیتا ہے۔اس کی حکمت اتنی واضح ہے کہ اس پر دلیل دینا ،ایک بالغ نظر سماج میں تحصیلِ حاصل ہے۔جب انسان مل کر رہتے ہیں تو یہ ناگزیر ہے کہ ان کے مابین حقوق و فرائض کا تعین ہو۔یہ متعین امور اگر لکھ لیے جائیں تو اس سے جہاں نزاع میں کمی آتی ہے وہاں نزاع کی صورت میںانصاف کے لیے ایک بنیاد میسر آ جا تی ہے۔میثاقِ مدینہ کو رسالت مآب ﷺ نے خود قانون ، جدید الفاظ میں ،آئین قرار دیا۔اس کے بارے میں فرمایا:ھذاکتاب (یہ قانون ہے)۔اسی ضرورت کے پیش
نظرعباسی حکمران ہارون الرشید کو امام ابو یو سف سے درخواست کر نا پڑی کہ وہ ‘کتاب الخراج‘ لکھیں۔امام صاحب نے جواباً یہ نہیں فرما یا کہ ‘قرآن ہمارا آئین ہے۔ہمیں کسی مزید آئین کی ضرورت نہیں۔‘ان کے بر خلاف انہوں نے ایک ضخیم کتاب لکھی اور یہ ریاست کے طول وعرض میں نافذ ہو گئی۔کیا ہارون الرشید اہلِ مغرب سے متاثر تھے ؟کیا معلوم کل یہ انکشاف بھی ہوجائے کہ یہ بات ان کے کان میںبھی کسی مغربی ہی نے ڈالی تھی۔
آئین ایک عہد ہے اور عہد کی پاسداری ایمان کا تقاضا ہے۔جس کا عہد نہیں، ان کا کوئی ایمان نہیں۔یہ بات اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمائی۔پاکستان کا آئین ریاست اور بیس کروڑ عوام کے مابین ایک عہد ہے۔جب تک یہ عہد موجود ہے، اہلِ ایمان کے دینی فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس کا احترام کریں۔تاہم فریقین جب چاہیں اس میں ترمیم کر سکتے ہیں۔اس کی حیثیت یقیناً وہ نہیں ہیے جو قرآن مجید یا سنت کی ہے۔اِن میں تو کوئی ترمیم کی جسارت نہیں کر سکتا۔اگر کسی معاہدے میں کوئی ایسی بات شامل ہو گئی ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے تو کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ و ہ اس پر اصرار کرے۔تاہم اس کا فیصلہ کوئی فریق اپنے طور پر نہیں کر سکتا۔اس کے لیے ہمارے پاس عدالتی فورم مو جود ہے اور اسی سے رجوع کیا جا نا چاہیے۔ہمارے ہاں آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس آئین میں کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ اکیس ترامیم کے بعد بھی کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے؟تاہم اس آئین کو اس وقت تک تقدیس حاصل رہے گی جب تک یہ معاہدہ برقرار ہے۔اس سے انحراف قانونی ہی نہیں، اخلاقی جرم بھی تصور ہو گا۔
یہ بات بھی بطور اصول سامنے رہنی چاہیے کہ اگر معاملہ اخلاقی نہیں ہے تو تمدنی ضرورت کے تحت آنے والی تبدیلوں کے لیے دینی جواز تلاش کر نا ضروری نہیں ہو تا۔ ان تبدیلیوں کو قبول یا رد کرنے کا فیصلہ عقلِ عام سے ہوتا ہے اور ایک مسلمان کو اس کے استعمال سے منع نہیں کیا گیا۔اگر تمدنی ضرورت کے تحت ایک آ دمی گاؤں سے شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ مولوی صاحب سے فتویٰ نہیں لیتا۔ایک تحریری آئین آج کی تمدنی ضرورت ہے۔دورِ جدید میںمسلمانوں نے سب سے پہلے اس کی ضرورت کو محسوس کیا۔حیرت ہے کہ اسلامی تشخص پر اصرار کرنے والے ہمارے بھائی ،ہمیں اس معاملے میں اسرائیل ا ور انگلستان کی اتباع کا مشورہ دیتے ہیں۔
قرآن مجید،کتابِ آئین نہیں، کتابِ ہدایت ہے۔ہم اس سے ہدایت لیتے اور پھر اس کی روشنی میں اپنے لیے آئین دستوربناتے ہیں۔آئین زمان و مکان کا پابند ہو تا ہے۔اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ہدایت آفاقی ہو تی ہے۔ہر عہد اور ہر علاقے کے لوگ اس سے اپنی دنیا روشن کرتے ہیں۔کوئی بغداد میں بیٹھ کر،اس کی روشنی میں،کتاب الخراج لکھتا ہے اور کوئی اسلام آباد کے عوامی ایوانوں میں بیٹھ کرآئینِ پاکستان رقم کر تا ہے۔ہدایت اپنی جگہ قائم رہتی ہے،قاضی ابو یوسف البتہ بدلتے رہتے ہیں۔دوام کتاب اللہ کو ہے، کتاب الخراج کو نہیں۔جنہوں نے کتاب اللہ کو ایک عہد تک محدود رکھنا چاہا، انہوں نے ٹھوکر کھائی اور جنہوں نے کتاب الخراج کو دوام بخشنا چاہا،انہوں نے بھی غلطی کی۔صراط مستقیم درمیان میں ہے۔
میں اپنے ان بزرگوں کا احسان مند ہوں جنہوں نے اس قوم کو ایک تحریری آئین دیا۔انہوں نے دین کی روح کو صحیح سمجھا اور تمدنی ضرورت کو بھی۔زندگی البتہ رواں دواں ہے۔اس آئین میں تبدیلیاں ہوتی رہیں گی اور سفرِ حیات جاری رہے گا۔آئین کا ‘بنیادی ڈھانچہ‘ ایک موضوعی چیز ہے۔اس کی تعبیر ہر کوئی اپنے فہم کے مطابق کر تا ہے۔یہ ڈھانچہ سماجی رجحانات سے اخذ ہوتا ہے۔ قرآن وسنت کی بالا دستی،اس آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اورمتن کا بھی۔اس باب میں تشویش اسی وقت ہو سکتی ہے جب سماج اجتماعی ارتداد کافیصلہ کرلے۔ اگر خدا نخواستہ وہ وقت آ گیا توکوئی آئین اور کوئی عدالت اسلامی تشخص کی ضمانت نہیں دے پائیں گے۔یہ وقت تب ہی آ سکتا ہے جب مذہب، جبرِ محض اور توہمات کا معاملہ بن کر خود کو عقلِ عام سے دور کر لے۔اصل تشویش اس بات کی ہونی چاہیے۔
آئین کو ایک غیر اہم چیز ثابت کرنا،عہد کے باب میں عوام کو لاپروا بنانا ہے۔عہد کی حرمت باقی نہ رہے تو گھر باقی نہیں رہتے، ریاست تو اس سے کہیں بڑی اور اہم تر ہے۔