پہلا ہفت روزہ ’اردو اخبار
جب مولوی محمد باقر دہلوی نے 1836 میں اپنا پہلا ہفت روزہ ’اردو اخبار‘ نکالا ہوگا تو یقیناً ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ آئندہ 200 سال میں صحافت ایک صنعت بن جائے گی۔
مجھے اس تحریر کا آغاز اس لیے ان کے نام سے کرنا پڑا کہ انگریزوں نے انہیں توپ سے باندھ کر ہلاک کیا تھا۔ اردو کا پہلا اخبار ہونے کے دعوے داروں میں تو جامِ جہاں نما، مراۃ الاخبار اور اردو اخبار شامل ہیں لیکن اولین عوامی اخبار ہونے کی سند جامَ جہاں نما کو حاصل ہے۔
مولوی محمد باقر کے اخبار میں انگریزوں سے آزادی کے علاوہ شیخ ابراہیم ذوق، بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب، حافظ غلام رسول، محمد علی بخت مرزا، حیدر شکوہ اور مرزا نورالدین کے کلام شائع ہوتے۔ ذوق اور غالب کی نوک جھونک بھی اس اخبار کا حصہ رہی لیکن اصل مقصد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ یقینا قارئین کو پڑھ کر یہ قبل مسیح کی باتیں لگ رہی ہوں گی کہ ایسے بھی صحافت کی جاتی تھی اور سب سے بڑھ کر مولوی محمد باقر نے صحافت کو شہادت تک آن کے آن پہنچا دیا۔
جنگ آزادی میں بھی اردو صحافت کا نمایاں کردار رہا۔ مولوی محمد باقر کے فرزند مولوی محمد حسین آزاد بھی صحافی تھے۔ انگریزوں نے انھیں اشتہاری، مفرور قرار دے کر گرفتاری کے لیے 500 روپے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔
پاکستان معرض وجود میں آیا تو تقریباً 70 کے قریب اخبارات کے مدیروں نے پاکستان کو اپنی سرزمین مانا اور یہاں آ کر صحافت شروع کر دی۔ پاکستان میں پہلے پہل اسلام کا نعرہ لگانے والے باوردی ضیا الحق کے دور اقتدار میں 13 مئی، 1978 کی شام تین صحافیوں کو کوٹ لکھپت جیل میں کوڑے مارے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کرنے والے جنرل کے ابتدائی دور میں 20 کے قریب اخبارات اور رسائل کو مارشل لا کی مخالفت کرنے پر بند کروا دیا گیا تھا۔ کوڑے کھانے والے صحافی خاور نعیم ہاشمی نے یہ واقعات بیان کیے ہیں۔
خیرڈکٹیٹرشپ کو چھوڑیے جمہوریت میں بھی یعنیٰ نواز شریف اور پی پی پی دور حکومت میں اخبارات کے لیے پالیسیاں آتی رہیں اور اخبارات کے لیے شمارہ جات کا کوٹہ ہوا کرتا تھا کہ اس سے زیادہ کاپیاں نکالنے پر پابندی ہے۔ پھر 9/11 ہوا اور اخبارات سے بات بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا تک آن پہنچی اور یوں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا ظہور ہوا۔ اب عالمی سطح پر بھارت کے منفی پراپیگینڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے میڈیا کی اشد ضرورت آن پڑی تھی۔
صحافیوں نے ہرقسم کی حکومت کے ساتھ مل کر قلم کا جہاد جاری رکھا۔ دہشت گردی کے دور میں کئی صحافی اغوا اور قتل بھی ہوئے لیکن کسی نہ کسی طرح یہ سلسلہ جاری ہے۔ پھر حالات دو طرح سے بدلے، اقتدار میں آنے کی شطرنج ایوانوں اور اداروں میں کھیلی جانے لگی۔ ادھر صحافیوں کو بھی دونوں جانب سے استعمال کیا جانے لگا۔
جیسے ہی صحافیوں نے ہر قسم کی خبر دینا شروع کی یا یوں کہہ لیجیے حکومتوں اور اداروں کو آئینہ دکھانا شروع کیا تو کسی سطح پر طے یہ پایا کہ اب ایک بار پھر میڈیا ہاؤسسز کو کنٹرول کیا جائے۔ اس بار چند نہیں بلکہ سینکڑوں صحافیوں کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وہی میڈیا جو آنکھ کا تارا تھا 2018 کے انتخابات کے بعد دل میں چبھتا کانٹا بن گیا۔
میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو اکٹھا کیا گیا اور ان کے لیے نئی پالیسی جاری کر دی گئی۔ عمل درآمد شروع ہوا تو سینکڑوں صحافیوں اور میڈیا ورکز کو نوکریوں سے نکالا گیا۔ کئی میڈیا ہاؤسز میں ڈاؤن سائزنگ کے نام پر عملے کو بے روزگار کرنے کا طویل سلسلہ چل نکلا، جو ہنوز جاری ہے۔ حالات پہلے ہی ناگفتہ بہ تھے کہ اتنے میں ایک کام اور شروع ہو گیا۔ اب میڈیا ہاؤسسز میں پسند ناپسند کی بنیاد پر بھرتیاں اور برطرفیاں شروع ہوگئیں۔
مملکت خدا داد میں بعض دیگر ممالک کی طرح کنٹرولڈ میڈیا نہیں اور نہ ہی امریکہ کی طرح ہم حالت جنگ میں ہیں کہ میڈیا کو ڈائریکٹ کنٹرول کیا جاتا یا پھر embedded journalism کر سکیں۔ اس لیے مراعاتی اور ضروریاتی صحافت متعارف کروائی گئی۔ ففتھ جنریشن وار یعنیٰ سوشل میڈیا اورعزیز ہم وطنو نے لفافہ صحافی کے ٹرینڈ بھی بنوا ڈالے اور اپنی ضرورت بھی پوری کی گئی۔ ایک تیر سے کئی شکار ہوئے، صحافت کا رُخ بھی بدل دیا گیا اور بدنام بھی کر دیا گیا۔
حکومتوں کی جانب سے صحافتی کالونیاں بنائی گئیں۔ صحافیوں کو گنا چنا گیا اور چنے ہوؤں کو مراعات سے نوازا جانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند صحافی کروڑ پتی ہو گئے اور یہاں سے لالچ نے صحافیوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔ اب ہر صحافی اپنے مکان کے خواب دیکھنے لگا، سینکڑوں صحافیوں اور ان کے رشتہ داروں کا یہ خواب پوار بھی ہوا اور وہ اپنے گھر والے ہو گئے۔
صحافت کے انداز بدلنے لگے۔ اب پریس کلب کے انتخابات میں صحافی کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگنے لگا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ آخر ایسی نوبت ہی کیوں آئی؟ اور صحافت میں ہو کیا رہا ہے؟
ان سوالات کے جوابات کی تلاش کے دوران راقم کے تجربات و مشاہدات یہ ہیں کہ پچھلے چھ سال سے الیکٹرونک میڈیا سے منسلک ہونے کے ناطے دیگر کئی صحافیوں کی طرح میں نے بھی نیشنل پریس کلب کے انتخابات میں حصہ لیا اور ہم نے دیکھا کہ دو نکات پر انتخابی مہم چلائی جاتی ہے۔ ایک صحافیوں کے لیے نئے میڈیا ٹاؤن کا اعلان کروائیں گے اور دوسرا ان کے واجبات کی ادائیگی اور نوکری پر بحال کروائیں گے۔
ہر بار الیکشن ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی صدر بن جاتا ہے اور پھر اگلے انتخابات تک نہ عامل صحافی پریس کلب کا رخ کر پاتے ہیں اور نہ ہی جیتنے والے صحافی اپنے وعدے وفا کرنے کی طرف آتے ہیں۔ حالات اتنے بدتر ہو گئے کہ کرونا کے دور میں صحافیوں کے لیے دیگر ملکوں کے سفارت خانوں میں راشن تقسیم کیا گیا اور مستحق صحافیوں کی لسٹیں وہاں پہنچیں۔
مستحقین کا تو نہیں پتہ لیکن صحافت کے برسراقتدار گروپ کے بڑوں نے راشن وصول کیا اور سینیٹائزر تک لے اڑے۔ اب تو حالات اس سے بھی بدتر ہوگئے ہیں کہ اب تو برسر روزگار صحافیوں کو بھی اپنے پسندیدہ گروپ کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں۔ اگر سٹیشن ہیڈ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیا گیا تو آپ نوکری سے فارغ بھی ہو سکتے ہیں۔
انیسویں صدی میں جو صحافت کبھی اپنے ابتدائی ایام میں ہی آزادی کے لیے شہادت کی راہ پر چل نکلی تھی، اب اکیسویں صدی میں ایسی بند گلی میں داخل ہوچکی ہے کہ صحافی ہی صحافی کا دشمن ہے، ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں یہ طبقہ شاید اب اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ ایسے ہی حالات پر ایک واقعہ یاد آیا گیا۔
جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں موجود تھے۔ ایک نوآموز شاعر اپنا کلام سنانے لگے، جو تخیل اور تکنیک دونوں سے عاری تھا۔ جوش یکدم واہ واہ کہتے جھوم جھوم اور چلا چلا کر داد دینے لگے۔ پاس بیٹھے ایک شاعر نے جوش صاحب سے متعجب ہو کر پوچھا۔ جوش صاحب کیا کر رہے ہیں؟ جوش صاحب نے کہا: ’منافقت۔‘
تو جناب صحافت جو شہادت سے چلی تھی منافقت تک پہنچ گئی ہے۔ میں سوچتا ہوں مولوی محمد باقر اگر آج کے دور میں ہوتے تو شاید ان کے لیے توپ کا گولہ ضائع کرنے تک نوبت ہی نہ پہنچتی کیونکہ وہ خود ہی شاید کب کی خود کشی کر چکے ہوتے۔
بشکریہ
https://www.independenturdu.com/