You are currently viewing Tibbe nabawi ma ilaj – طب نبوی ﷺ میں طریقہ علاج
طب نبوی ﷺ میں طریقہ علاج۔

Tibbe nabawi ma ilaj – طب نبوی ﷺ میں طریقہ علاج

طب نبوی ﷺ میں طریقہ علاج

Tibbe nabawi ma ilaj by tibb4all

 طب نبوی ﷺ میں طریقہ علاج۔

علاج کرنا بہتر ہے یا ترک علاج؟

تحریر

حکیم قاری محمد یونس شاہد میو

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علاج و معالجہ اور طب میں مہارت کسی فرد یا قوم کی انفرادیت نہیں ہوتی ،یہ تونسل انسانی کا تسلسل ہے،ایک نسل دوسری نسل سے ایک قوم دوسری قوم سے شعوری و لاشعوری طورپر سیکھتی سکھاتی اور متاثر ہوتی رہتی ہیں۔کچھ قومیں خاص معاملات میں اختصاص رکھتی ہیں جیسے اہرام مصری لوگوں کی پہنچان ہیں۔

علم طب ایسا علم ہے جس کی جرورت اہمیت و افادیت ہر قوم کو ہر وقت رہی۔کچھ باتیں انسانوں کو الہامی طورپر تلقین کی جاتی ہیں کچھ ان کے تجربات پر مبنی ہوتی ہیں۔
طب اور علاج و معالجہ سے وابسطہ لوگ عمومی طورپر ضروری تعلیم سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔کیونکہ تجربات و مشاہدات کو قلم و قرطاس کی مدد سے آنے والے کے لئے ترکہ میں چھوڑانا یا پھر اپنی ضرورت ک لئے محفوظ کرنا ضروری عمل ہوتا ہے۔

 

ایک اہم بات۔

 

بفرض محال تسلیم کربھی لیا جائے کہ رسول اللہﷺ نے اطبائے عرب سے سن سنا کر کچھ باتیں اور تجربات میدان طب سے حاصل کرلئے تھے۔اور انہیں اپنے انداز میں نقل کردیا اور اپنے ماننے والوں کے لئے ایک علمی شاخ بناکر پیش کردی۔یہ بہت بڑی بات ہے جس کا ثبوت مہیا کرنا ناممکن ہے۔

کیونکہ جوباتیں طب نبوی میں بیان کی گئی ہیں اس وقت تک کی تحقیق و تجربات میں اس کی قطعی گنجائش موجود نہیں ہے ۔مثلاََ ایک حدیث ہے جس میں انسانی جسم کے بارہ میں اشارات دئے ہیں۔
حدثني عبد الله بن فروخ، أنه سمع عائشة، تقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنه خلق كل إنسان من بني آدم على ستين وثلاثمائة مفصل، فمن كبر الله، وحمد الله، وهلل الله، وسبح الله، واستغفر الله، وعزل حجرا عن طريق الناس، أو شوكة أو عظما عن طريق الناس، وأمر بمعروف أو نهى عن منكر، عدد تلك الستين والثلاثمائة السلامى، فإنه يمشي يومئذ وقد زحزح نفسه عن النار» قال أبو توبة: وربما قال: «يمسي»(صحيح مسلم (2/ 698)المسند الجامع (9/ 380)أخرجه البخاري في (الأدب المفرد) 422
ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر آدمی کے بدن میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ سو جس نے اللہ کی بڑائی کی اور اللہ کی حمد کی اور لا الہ الا اللہ کہا اور سبحان اللہ کہا اور استغفر اللہ کہا اور پتھر لوگوں کی راہ سے ہٹا دیا

یا کوئی کانٹا یا ہڈی راہ سے ہٹا دی یا اچھی بات سکھائی یا بری بات سے روکا اس تین سو ساٹھ جوڑوں کی گنتی کے برابر وہ اس دن چل رہا ہے اور ہٹ گیا اپنی جان کو لے کر دوزخ سے۔ “ ابو توبہ نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ شام کرتا ہے وہ اسی حال میں۔
اس حدیث کے اسرار رموز۔

ڈاکٹر عبد الباسط محمد سید لکھتے ہیں:
جسمانی جوڑوں کے بارہ می نبی امی کو کس نے معلومات دی کہ انسانی جسم میں تیس سو ساٹھ جوڑ ہیں؟
1997 تک طب میں 340 جوڑ سمجھے جاتے تھے،یا اس وقت کی طبی تحقیقات کے نتیجہ میں340 جوڑ منکشف ہوئے تھے۔اس وقت تک 20 جوڑوں کے بارہ میں دنیا لاعلم تھی۔یہ راز المانی محقق کے سامنے منکشف ہوا۔اس نے بتایا کہکان کے درمیانی حصے میں دس ہڈیاں بہت مہیں اور باریک انداز میں جڑی ہوئی ہیں۔دس دائیں کان میں اور دس بائیں کان میں،اس تحقیق کے بعد مذکورہ بالا حدیث میں بیان کئے گئے 360 جوڑ مکمل ہوگئے( نبی امی صفحہ360 بحوالہ اسرار العلاج بالحجامہ صفحہ9)

بقول معترض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ طب کے بارہ میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو اس وقت تک عرب اطباء کی معلومات تھیں،اس حدیث میں جو راز بیان کیا گیا ہے۔اس کے بارہ میں کیا خیال ہے؟ جو چیز صدیوں بعد منکشف ہورہی ہے ،ان پر کس نے ظاہر کردی؟یا کونسے ذرائع تھے جہاں سے یہ حقائق در آرہے تھے؟
طب نبوی کا اختصاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی شنان و عظمت کچھ اس انداز میں بیان فرمائی ہے:{وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ } [العنكبوت: 48]
اور نہیں تھے آپ پڑھتے اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ لکھتے تھے اس کو اپنے دائیں ہاتھ سے۔ اس وقت البتہ شک کرتے باطل پرست لوگ ۔۔یعنی ہر طرح سے مروجہ طرق تعلیم و تعلم سے آپ کو دور رکھا گیا۔کوئی تعلیم حاصل کی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا۔نہ حکماء کی لکھی ہوئی کناش/قرابدینیں زیر مطالعہ رہیں۔نہ کسی کی بیاض سے استفادہ کیا۔نہ کسی کے دواخانہ میں دوا سازی کی تربیت لی۔
دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ اپنی منشا و مرضی کو دخل نہیںدیتے سراپا اطاعت الہی میں مستغرق رہتے ہیں ۔ آیات ذیل میں بہت گہرے اور معنی خیز نکات بیان فرمائے ہیں۔
{ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (2) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (4) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى} [النجم: 2 – 5]
نہیں بہکا تمہارا صاحب ( ساتھی) اور نہ وہ بےراہ ہوا ۔ اور نہیں بولتا وہ نفس کی خواہش سے ۔ نہیں ہے مگر وحی جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔ اس کو سکھایا ہے سخت قوتوں والے نے ۔
(1)نبیﷺ کو احکامات خداوندی پہنچانے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔یہ بہکے ہیں نہ راستے سے بھٹکے ہیں (2)اپنی خواہشات کی بنا کر کوئی بات نہیں کہتے(3)ہر بات میں وحی الیہہ کی پابندی کرتے ہیں۔ (4)کیونکہ سکھانا والا بہت زور آور ہے۔جو کسی تجربہ یا علمی تحقیق کی احتیاج نہیں رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  1. طب نبوی ﷺ میں علاج و معالجہ کے سلسلہ میں جو ہدایات اور معالجاتی احکامات پائے جاتے ہیں اور ان سے اطباء کرام کس طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔بغور دیکھا جائے تو کسی بھی طریقہ علاج میںجو معالجاتی تدابیر پائی جاتی ہیں وہ اور ان سے بہتر تدابیر موجود ہیں ۔۔کچھ عناوین ذیل میں دیکھےجاسکتے ہیں۔

    (1)عیادت کے وقت مریض کے المناک مقام کو چھونا۔ سعد بن ابی وقاص کے سینے پر ہاتھ رکھا۔دل کے دورہ کے وقت اور انہیں عجوہ کھجوریں مع گٹھلی پیسٹ بنا کر تجویز کی گئیں۔

    (2)درد کی جگہ پر مالش کرنا۔

    (3)مقام مرض پر دوا لگانا۔قسط ہندی بچوں کے گلے کے لئے تجویزکرنا۔

    (4)دوا کو پانی مین گھول کرنا پلانا۔ام المومین ام سلمہ موئے مبارک کو پانی میں گھول کر پلایا کرتی تھیں۔عمر کو زخمی حالت میں نبیذو دودھ پلانا۔

    (5)بہتے خون کو بند کرنے کے لئے پانی کا استعمال۔۔دندان مبارک شہید ہونے پر فاطمہ کا زخموں کو پانی سے دھونا ۔یعنی کسی بھی زخم پر مرہم لگانے سے پہلے صاٖ کرنا ضروری ہوتا ہے۔آج بھی اس کی اتنی ہی افادیت ہے۔

    (6)زخم سے لہو بہنے کی صورت میں خشک دوا رکھنا۔آپﷺ کے زخموں سے بہنے والے خون کو چتائی کی راکھ سے بند کیا گیا تھا۔

    (7)پرہیز کرانا ۔علی کو آشوب چشم میں کھجوریں کھانے سے منع کرنا۔

    (8)بیمار کے لئے غذا تجویز کرنا۔جو اور چقندر علی کے لئے پسند کرنا۔

    (9) مریض کی کواہس کا احترام کرنا۔ایک بیمار کی خواہش پر کیک کھانے کو دینا

    (10)ماہر جراح کا پھوڑے کا آپریشن کرنا۔

    (11)پھلوں کا انتخاب کرنا۔تم لوگ پیلو سیاہ رنگ کے کھائو یہ بہترہوتے ہیں۔

    (12)ذائقہ بڑھانے کے لئے چٹنی ا استعمال کرنا۔۔ایک دعوت میں رائی کی چٹنی کھائی۔
    (13)درد کی جگہ پر پٹی باندھنا۔مرض الموت میں سر پر پٹی باندھی تھی۔
    (14)فاسد مواد کا اخراج کرنا۔۔جلاب لینا۔
    (15)ناک میں دوا دال کر علاج کرنا۔مرض الموت میں ناک میں ڈالی گئی تو ۔۔سب ھاضرین کی ناک میں دوا دالی گئی تھی۔سوا ئے عباس کے۔
    (16)قطور۔۔آنکھ میں دوا ڈالنا۔۔کھنبی کا پانی آنکھوں کے شفاء ہے۔
    (17)،اکتحال۔یعنی آنکھوں میں سر مہ ڈال کر علاج کرنا۔سوتے وقت تین تین سلائیاں ڈالا کرتے تھے(شمائل
    (19)مقام مرض پر ضماد کرنا۔۔۔بھوک کی حالت مین پیٹ پر پتھر باندھنا۔
    (20)دوا کا شربا استعمال کرنا۔یعنی دوا پلانے سے علاج کرنا۔۔۔اونٹ کا پیشاب یرقان کے مریض کے لئے تجویز کرنا۔
    (21)نطول کرنا۔مقام مرض پر سیال دوا کا تریڑہ کرنا۔۔دھار باندھ کر گرانا۔بچھو کاٹے پر نمک ملا پانی زخمی جگہ پر بہایا گیا۔۔۔
    (22)لعاب دہن کا استعمال۔آشوب چشم میں علی کی آنکھوں پر لعاب لگایا۔خیبر کے موقع پر۔
    (23)غذائی دوا استعمال کرانا۔۔۔تلبینہ اور حیس بخار والوں کے لئے تیار کرنا۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply